Umeedo K Charagh - Article No. 1478

Umeedo K Charagh

امیدوں کے چراغ - تحریر نمبر 1478

جمعرات 7 ستمبر 2017

مسرت واحد خان:
گرمیوں کی طویل دوپہر میں اینٹوں کا ڈھیر لئے بیٹھی روڑی کوٹ رہی تھی اس کا جسم پسینے سے شرابور ہورہا تھا۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے دل سے صدا نکلی اے خدا تم نے ہمیں اتنا غریب کیوں بنایا کہ سارا دن مزدوری کرنے کے بعد مشکل سے دال میسر آتی ہے اگرہم ایک دن بھی کام نہ کریں تو بھوکے مرجائیں۔
ہمارے مقدر میں اتنی سیاہی کیوں بھر دی کہ ہم پشتوں سے اس طرح کمتر چلے آرہے ہیں۔اے خدا مجھے تو ان لوگوں میں پیدا نہ کرتااس کو یوں خلاؤں میں گھورتا دیکھ کر اس کی ماں نے اسے آواز دی کہ یہ تو کیا سوچ رہی ہے؟ جلدی سے ہاتھ چلا منشی اس طرف آرہا ہے وہ ماں کی آواز سن کر چونکی اور اپنے سوچوں کے دھارے سے نکل آئی اس کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے۔

(جاری ہے)

شمی پتہ نہیں کیوں اپنے آپ کو اپنی برادری سے جدا سمجھتی تھی۔

ہر وقت اپنے خواب وخیال کی دنیا میں رہتی اس کی نہ کوئی سہیلی تھی ۔ بس سب سے الگ تھلگ رہتی وہ چاہتی کہ اس کی شادی اس جگہ ہو جہاں اس کا اپنا چھوٹا سا صاف ستھرا گھر ہو اور اس کا گھر والا پڑھا لکھا دفتری بابو ہو۔ جو صبح کام پہ جائے اور رات کو تھکا ماندہ گھر آئے تو وہ اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے پہ صاف ستھرے طریقے سے کھانا پیش کرے لیکن جب وہ اپنے خیالوں کے محلوں سے باہر نکلتی تو اسے اردگرد میلے کچیلے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس اپنی برادری کے لوگوں کے چہرے نظر آتے تو اس کے دل سے ٹھنڈی آہ نکل جاتی۔
اماں اس کو ہر وقت یوں سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر جھڑکتی رہتی وہ چاہتی کہ شمی اپنی ہمجولیوں میں کھیلے کودے باتیں کرے یہ ہر وقت منہ بنا کر کیوں رہتی ہے؟ایک روز اماں نے انکشاف کیا کہ تمہارا ابا تمہاری شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ چونک گئی اسے ایسے لگا کہ جیسے کسی بچھو نے اسے ڈنگ مار دیا ہو۔ اس کا زرد پڑتا چہرہ دیکھ کر اس کی ماں نے کہا کہ میں نے کوئی انہونی بات نہیں کہہ دی جو تو یوں گھبرارہی ہے۔
لڑکیاں جب جوان ہوجائیں تو اس کے بیاہنے کی فکر ہر ماں باپ کرتا ہے۔ ہم تمہاری شادی کرموسے کررہے ہیں ۔ اسے ایسے لگا کہ اماں نے جیسے ایک بم مار دیا ہو۔ جو کہ اس کے دل پہ آکے پھٹا۔ اس کے برسوں کا خواب ایک دم چکنا چور ہوگیا۔ کرمو اس کے چچا کا بیٹا تھا جو کہ ان کے ساتھ کام کرتا تھا۔ میلا کچیلا ساکر مو اس کی آنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوا نہیں اماں یہ ظلم مت کرنا میں کرمو سے شادی نہیں کروں گی۔
اس نے بے ساختہ چیختے ہوئے کہا۔ اری کیوں نہیں کرے گی۔ کیا کسی اور کو پسند کرتی ہے کیا وجہ ہے جو تو شادی نہیں کرے گی؟ ماں نے حیرانگی سے پوچھا۔ نہیں اماں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بس مجھے کرمو اچھا نہیں لگتا۔ اس نے ماں کو ٹالتے ہوئے کہا۔ تمہیں پتہ ہے تمہارا ابا کو پتہ چلے گا تو تمہاری چمڑی ادھیڑ کے رکھ دے گا شام تک اپنا یہ فیصلہ بدل لے۔ اور چل کام پر دیر ہورہی ہے ۔
یہ کہہ کرماں کھولی سے نکلی تو وہ ماں کے پیچھے چل پڑی۔ شام تک وہ سوچوں کے تانے بانے بُنتی رہی۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہرگز کرمو سے شادی نہیں کرے گی۔ اپنے خوابوں کو یوں مسمار نہیں ہونے دے گی اور اپنی خوابوں کے کارن تمام زندگی گزار دے گی یہ سوچ کر اس نے کرمو سے خود بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ شام کو وہ جب کرمو کی کھولی کی طرف گئی تو کرمو اُسے اپنی کھولی میں آتا دیکھ کر بہت حیران ہوا کیونکہ اس سے پہلے شمی اس سے بات کرنا گوارہ نہیں کرتی تھی۔
جبکہ وہ اس کے ساتھ خاموش محبت کرتا تھا کیونکہ اس نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ شمی کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر اس نے محبت کے اظہار کرنے کی کبھی جرأت نہیں کی کہ کہیں وہ جھٹک ہی نہ دے حالانکہ اس کے چچا نے اس کو یقین دلایا تھا کہ وہ شمی کو بیاہ ہر صورت میں اس سے کرے گا۔ اس لئے وہ مطمئن تھا کہ شمی میری ہے۔ اب بات نہیں کرتی تو کوئی فکر نہیں۔
شادی کے بعد ٹھیک ہوجائے گی۔ کرمو میں نے تم سے بات کرنی ہے۔ شمی نے اس کی کھولے کے دروازے کے پاس رکتے ہوئے کہا۔ اندر اجا شمی کرمو نے کہا تو وہ جھجکتے ہوئے اندر چلی آئی۔ کرمو میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو ابا کو خود ہی منع کر دو اس نے بڑے آرام سے کہا۔ لیکن کرمو یہ سن کر ایک دم چونک اٹھا دکھ کی لہر اس کے وجود میں بھر گئی۔ انکار کی کوئی وجہ تو ہوگی شمی۔
اس نے رنجیدہ لہجے میں پوچھا۔ بس میرا دل نہیں چاہتا شادی کرنے کو۔ اس نے ٹالتے ہوئے کہا۔ شمی مجھے اس کی وجہ تمہیں بتانا پڑے گی۔ اور پھر میں وعدہ کرتا ہوں کہ خود ہی تمہارے راستے سے ہٹ جاؤں گا۔بات یہ ہے کرمو مجھے اپنے برادی کے لوگ اچھے نہیں لگتے۔ میلے کچیلے دھول میں اٹے ہوئے جسم۔ بس میرا دل نہیں چاہتا شادی کرنے کو تو برادری کے باہر کسی کو پسند کرتی ہے کرمو نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں کرمو ایسی کوئی بات نہیں۔ میں چاہتی ہو کہ میرا چھوٹا سا صاف ستھرا گھر ہو ۔ میرا شوہر ایک دفتری بابو ہو اور میں آرام سے زندگی بسر کروں۔ بس میری یہی خواہش ہے اور کچھ نہیں۔ شمی میں پوچھ سکتا ہوں کہ تو جو چاہتی ہے یہ تمہیں گا کرمو نے کہا ۔ بے شک نہ ملے اس خواب کے کارن میں تمام زندگی گزار دوں گی۔ اسے نے عزم سے کہا۔ یہ تو سرابوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
شمی تو اپنا فیصلہ بدل ڈال۔ میں مزدور ہوں تو بھی روڑی کوٹتی ہے اور ہم دونوں محنت کش ہیں اور اس کام میں کوئی عیب نہیں ہم محنت مزدوری کرکے حلال کی روٹی کھاتے ہیں اور سکون کی نیند سوتے ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں سوچتی ہے؟ لیکن پھر بھی خواب دیکھنا بری بتا نہیں۔ اگر تو چاہتی ہے کہ میں کام چھوڑ دوں تو یہ ناممکن بات ہے۔ ہاں اگر تم میرے ساتھ شادی پہ رضا مند ہوجاؤ تو ہم دونوں مل کر تمہارے خواب کی تعبیر پوری کرنے کی کوشش کریں گے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خوب جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں اور اس کے لئے ہم اپنے بچوں کو اپنے خواب کی تعبیر جیسا بنانے کی کوشش کریں گے۔
ان کی پرورش برادری سے ہٹ کر کریں گے۔ ان کو تعلیم دلوائیں گے اور پھر تو اپنے خواب کی تعبیر اپنے بچوں میں دیکھ سکے گی۔ میں نہ سہی میرا بیٹا ضرور دفتری بابو بنے گا۔ اس نے کہا اور اپنا ہاتھ شمی کی طرف بڑھایا اور شمی نے آگے بڑھ کر کرمو کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ امید کے آنسو خوشی کے آنسو اور کرمو کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے پر تیار ہوگئی۔

Browse More Urdu Literature Articles