AThweN Raat - Article No. 1541

AThweN Raat

آٹھویں رات - تحریر نمبر 1541

پانی اس نے اپنے شوہر پر چھڑکا اور کہنے لگی اگر تو میرے جادو اور فریب سے ایسا ہوا ہے تو اپنی اصلی صورت اختیار کر لے۔ اس نے یہ کہا ہی تھا کہ جوان کو حرکت ہوئی اور وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گیا

جمعہ 13 اکتوبر 2017

جب آٹھویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔ جوان نے بادشاہ سے کہا کہ جب میں نے غلام پر وار کیا تو اس کا سر دھڑ سے الگ ہو جائے تو اس کی نرخسی بھی نہیں کٹی بلکہ محض گلے کی ہڈی اور کھال اور گوشت۔ میں سمجھا کہ وہ مر گیا لیکن وہ زور زور سے کراہنے لگا۔ اتنے میں میری بہن نے نیند میں کروٹ بدلی تو میں الٹے پاﺅں پھرا اور تلوار کو اپنی جگہ چھوڑ کر شہر میں آیا اور محل میں داخل ہوا اور بستر پر صبح تک سو گیا۔

اب میری چچیری بہن واپس آئی اور اس نے مجھے جگایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے اپنے بال کاٹ ڈالے ہیں اور سوگ کے کپڑے میں ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اے چچیرے بھائی میرے اس فعل کو برا مت مان‘ مجھے خبر ملی ہے کہ میری ماں فوت ہوگئی اور باپ جہاد میں مارا گیا اور ایک بھائی کو بچھو نے کاٹ لیا اور دوسرا لڑائی میں مارا گیا۔

(جاری ہے)

اب میرا فرض ہے کہ روﺅں اور سوگ کروں۔

یہ سن کر میں چپ ہوگیا اور اس سے کہا کہ جو تیرا جی چاہے کر۔ میں تیری مرضی کے خلاف کچھ نہیں چاہتا۔ اس نے پورے ایک سال سوگ کیا اور رونے دھونے میں گزارا۔ سال گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ محل کے اندر ایک گنبد نما مقبرہ بنواﺅں اور اسے اپنے سوگ کے لیے مخصوص کر دوں اور اس کا نام بیت الاحزان رکھوں۔ میں نے کہا‘ جو تیرا جی چاہے کر۔
اس نے سوگ کے لیے ایک بارہ دری بنوائی اور اس کے بیچ میں ایک گنبد اور قبر نما ایک مدفن۔ پھر اس نے غلام کو لاکر وہاں رکھا۔ اس میں جان تو تھی لیکن اس سے اسے کوئی فائدہ نہ پہنچ سکتا تھا۔ ہاں وہ شراب پیتا تھا اور جس روز سے اسے زخم لگا تھا اس کی زبان بند ہوگئی مگر موت نہ آئی۔ وہ ہر صبح و شام اس کے پاس جاتی اور گنبد کے اندر اس پر نالہ و زاری کرتی اور اسے دن رات شراب، مقوی یخنیاں پینے کو دیتی۔

یہی حالت تھی کہ دوسرا سال آ پہنچا۔ میں اپنے آپ کو بہت روکے ہوئے رکھتا تھا مگر اس کی طرف کوئی التفات نہ تھا۔ ایک روز میں اس کے بے جانے بوجھے وہاں پہنچ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ رو رو کر کہہ رہی ہے کہ تو میری آنکھوں سے کیوں اوٹ ہے‘ میرے دل کے سکون‘ میرے ساتھ باتیں کر‘ اے میری جان‘ بول اے میرے پیارے۔
جب وہ اپنی باتیں ختم کرچکی تو میں نے اس سے کہا کہ اے چچیری بہن‘ اب سوگ کافی ہو چکا۔
زیادہ رونا دھونا بے سود ہے‘ اب جو کچھ باقی رہ گیا ہے‘ اس سے فائدہ اٹھا۔ اس نے کہا کہ تو میری باتوں میں دخل اندازی مت کر۔ اگر تو نہ مانے گا تومیں فوراً جان دے دوں گی۔ یہ سن کر میں چپ ہوگیا اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ اور ایک سال گریہ و زاری اور سوگ میں رہی۔ تیسرے سال کے بعد میں پھر ایک روز اس کے پاس گیا اور مجھے کسی اور بات سے سخت پریشانی تھی اور اس نے بہت طول کھینچا تھا۔
میں نے اسے دیکھا کہ وہ گنبد کے اندر قبر کے ایک پہلو میں بیٹھی ہوئی یہ کہہ رہی ہے کہ اے میرے آقا‘ تو مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا۔ اے میرے آقا‘ آخر تو مجھے جواب کیوں نہیں دیتا۔ پھر اس نے یہ شعر پڑھے:
”اے قبر‘ تو میرے لیے نہ زمین ہے نہ آسمان‘ تو پھر تیرے اندر سورج اور چاند کہاں سے جمع ہو سکتے ہیں۔
جب میں نے اس کی باتیں اور اشعار سنے تو میرا غصہ اور بھی بڑھ گیا اور میں نے کہا کہ یہ سوگ آخر کب تک رہے گا؟ پھر میں نے یہ اشعار پڑھے:
”اے قبر‘ اے قبر‘ کیا اس کی بے ہودہ باتیں ختم ہو گئیں؟ یا اس کا گنبد چہرہ جو تیری روشنی کا باعث تھا‘ نہ رہا؟“
”اے قبر تو نہ حوض ہے اور نہ دیگچی‘ تو پھر تیرے اندر کوڑا کرکٹ کیوں کر جمع ہو سکتا ہے۔

جب اس نے میری باتیں سنیں تو اچھل پڑی اور کہنے لگی کہ تف ہو تجھ پر‘ اے کتے‘ تو کیا‘ تو نے ہی یہ کام کیا اور میرے دلی معشوق کو زخمی کیا اور مجھے اور اس کی جوانی کو برباد کر دیا؟ تین سال ہوئے کہ نہ وہ مرتا ہے نا جیتا۔ میں نے جواب دیا کہ اے ناپاک رنڈی اور اے گنبدی پتریا اور کرائے کے غلاموں کی آشنا‘ ہاں‘ میں نے ہی کیا ہے۔
یہ کہہ کر میں نے تلوار پر ہاتھ مار کر اسے کھینچ لیا اور اس کی طرف لپکا کہ اس کا کام تمام کر دوں۔ جب اس نے میری باتیں سنیں اور دیکھا کہ میں اس کے قتل پر کمر بستہ ہوں‘ تو وہ ہنسی اور کہنے لگی کہ چل ہٹ‘ اے کتے‘ جو کچھ ہو چکا ہے وہ تو واپس نہیں آ سکتا اور نہ مردے دوبارہ زندہ ہوتے ہیں‘ لیکن جس نے میرے ساتھ یہ برا سلوک کیا ہے‘ اس پر میرا بھی زور چلتا ہے اور میرے دل میں اس کی طرف سے وہ آگ بھڑک رہی ہے جو کبھی بجھ نہیں سکتی اور ایسے شعلے نکل رہے ہیں‘ جو چھپ نہیں سکتے۔
یہ کہہ کر وہ دونوں پاﺅں سیدھی کھڑی ہو گئی اور کچھ پڑھنے لگی جو میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا اور کہا کہ میرے جادو سے آدھا پتھر ہو جا اور آدھا انسان اور میری یہ حالت ہو گئی‘ جسے تو دیکھ رہا ہے۔ اب میں اٹھ بیٹھ نہیں سکتا نہ زندہ ہوں نہ مردہ‘ جب میری یہ حالت ہوگئی تو اس نے شہر اور اس کے تمام گلی کوچوں اور باغوں پر بھی جادو کیا۔ ہمارے شہر میں چار قومیں آباد تھیں۔
مسلمان‘ عیسائی‘ یہودی اور آتش پرست۔ اس نے ان سب کو مچھلیاں بنا دیا۔ مسلمانوں کو سفید‘ آتش پرستوں کو سرخ، عیسائیوں کو نیلا اور یہودیوں کو پیلا اور چاروں جزیروں کو تالاب کے آس پاس چار پہاڑ بنا دیا۔ اب وہ ہر روز مجھے ستاتی اور سو کوڑے مارتی ہے۔ یہاں تک کہ میں لہولہان ہو جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے کاندھے کھرچتی اور یہ اونی کپڑے جو تو اوپر کے بدن پر دیکھ رہا ہے پہناتی ہے اور اس کے اوپر یہ قیمتی عبا ڈال دیتی ہے۔

یہ کہہ کر وہ جوان رونے لگا۔
کہتے ہیں کہ اب بادشاہ جوان کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اے نوجوان! تو نے میرا غم دوبالا کر دیا، بعد اس کے کہ تجھے دیکھ کر میرا غم دور ہو گیا تھا لیکن آخر وہ عورت کہاں ہے اور کہاں ہے وہ مدفن‘ جس میں غلام ہے؟ جوان نے کہا کہ غلام مدفن میں اس گنبد کے نیچے پڑا ہے جو میرے دروازے کے سامنے فلاں بارہ دری میں واقع ہے۔
عورت سورج نکلنے سے پہلے میرے پاس آتی ہے اور میرے کپڑے اتار کر اتنے زور سے کوڑے مارتی ہے کہ میں رونے اور چلانے لگتا ہوں۔ میں اتنا بھی نہیں ہل سکتا کہ اپنے آپ کو بچاﺅں۔ مجھے مار پیٹ کر وہ غلام کے پاس جاتی ہے اور اسے شراب اور یخنی پینے کے لیے دیتی ہے۔ اب کل تڑکے وہ پھر آئے گی۔ بادشاہ نے کہا کہ اے جوان میں تیرے ساتھ ایسی بھلائی کروں گا‘ جسے لوگ ایک دوسرے سے بیان کریں گے اور جس کا ذکر قیامت تک تاریخ کی کتابوں میں رہے گا۔
اب بادشاہ اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا یہاں تک کہ رات ہو گئی اور دونوں سو گئے۔ صبح سویرے بادشاہ جاگا اور اس نے اوپر کے کپڑے اتار دئیے اور تلوار کھینچ کر اس جگہ پہنچا جہاں غلام تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں چراغ اور قندیلیں اور عطریات اور روغن رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے غلام کو ادھر ادھر تلاش کیا اور اس کے پاس پہنچ کر ایک وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔
پھر اسے اپنی پیٹھ پر لادا اور لے جا کر ایک کنویں میں ڈال دیا جو اسی محل کے اندر تھا۔ پھر وہ وہیں واپس آیا اور غلام کے کپڑے پہن کر قبر کے اندر لیٹ گیا اور ننگی تلوار برابر رکھ لی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ حرام زادی جادوگرنی آئی اور آتے ساتھ ہی اپنے چچیرے بھائی کے کپڑے اتارے اور کوڑا لے کر اسے مارنا شروع کیا۔ اس نے کہا کہ آہ میری بہن‘ کیا میری موجودہ مصیبت کافی نہیں۔
اے بہن‘ میرے حال پر رحم کھا۔ اس نے کہا کہ ہاں‘ جس طرح تو نے میرے اوپر رحم کھا کر میرے معشوق کو زندہ رکھا ہے؟ جب وہ کوڑے مارتے مارتے تھک گئی اور اس کے جسم سے خون بہنے لگا تو اس نے اسے اونی کپڑے پہنائے اور ان کے اوپر سے عبا۔ پھر وہ شراب کا جام اور یخنی کا پیالہ لے کر غلام کے پاس گئی اور گنبد میں داخل ہو کر رونے پیٹنے لگی کہ اے میرے آقا کچھ تو کہہ اور باتیں کر۔
بادشاہ نے زبان مروڑ کر دھیمی آواز سے حبشیوں کے لہجے میں کہا کہ آہ آہ لاحول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم۔ عورت نے جب اسے بات کرتے سنا تو مارے خوشی چلا اٹھی اور بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے ذرا ہوش آیا تو اس نے کہا کہ واقعی تو تندرست ہو گیا ہے؟ بادشاہ نے اپنی آواز اور زیادہ دھیمی کر کے کہا کہ اے حرام زادی‘ کیا تو اس قابل ہے کہ میں تجھ سے بات کروں۔
عورت نے کہا کہ کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ اس لیے کہ تو دن بھر اپنے شوہر کو ستاتی ہے اور وہ واویلا کرتا ہے اور میری نیند رات سے صبح تک حرام کر دیتا ہے۔ وہ روتا پیٹتا اور مجھے اور تجھے کوستا ہے۔ اس سے مجھے بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو میں کب کا تندرست ہو چکا ہوتا۔ اسی لیے میں تجھ سے بولتا بھی نہیں۔ اس نے کہا کہ اگر تیری مرضی ہے تو میں اسے ابھی اچھا کئے دیتی ہوں۔
بادشاہ نے کہا کہ ہاں‘ اسے اچھا کر دے تاکہ مجھے آرام ملے۔ اس نے کہا کہ بسر و چشم‘ اور اٹھ کھڑی ہوئی اور گنبد سے نکل کر محل میں گئی اور ایک پیالے میں پانی بھر کر اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا۔ پانی کھولنے لگا اور اس پر بلبلے اٹھنے لگے اور ہانڈی کی طرح جوش آنے لگا۔ اس پانی میں سے اس نے اپنے شوہر پر چھڑکا اور کہنے لگی کہ اگر تو میرے جادو اور فریب کی وجہ سے ایسا ہوگیا ہے تو اس صورت کو بدل کر اپنی اصلی صورت اختیار کر لے۔
اس نے یہ کہا ہی تھا کہ جوان کو حرکت ہوئی اور وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گیا۔ اپنے آپ کو تندرست پا کر وہ پھولا نہ سمایا اور کہا کہ اشھد ان لا الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عورت نے کہا کہ یہاں سے نکل جا اور پھر کبھی ہرگز واپس نہ آئیو ورنہ میں تجھے قتل کر ڈالوں گی۔ یہ کہہ کر اس نے شوہر کو بہت ڈانٹا ڈپتا اور وہ چلا گیا۔
عورت گنبد کے اندر آئی اور کہنے لگی کہ اے میرے آقا‘ باہر نکل تاکہ میں تیرا دیدار کروں۔ بادشاہ نے دھیمی آواز میں اس سے کہا کہ جو کچھ تو نے کیا ہے‘ اس سے مجھے محض جزوی مسرت حاصل ہوئی ہے‘ مکمل نہیں۔ اس نے کہا کہ اے میرے معشوق‘ میرے پیارے حبشی‘ مکمل کیا ہے؟ اس نے کہا کہ اے ملعونہ‘ تجھ پرخدا کی لعنت‘ وہ اس شہر اور چاروں جزیروں کے باشندے ہیں۔
ہر روز آدھی رات کو مچھلیاں اپنا سر نکال کر واویلا کرتی اور مجھے اور تجھے کوستی ہیں۔ اس وجہ سے مجھے بالکل چین نہیں آتا۔ جا اور ان کو جلد آزاد کرکے واپس آ اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھا کیونکہ اب میں کسی قدر تندرست ہوں۔ جب اس نے بادشاہ کی باتیں سنیں اور وہ اسے غلام سمجھ کر خوش ہورہی تھی‘ تو اس نے کہا کہ اے میرے آقا‘ بسر و چشم‘ بسم اللہ‘ اور مارے خوشی کے اٹھ کھڑی ہوئی، تالاب کے پاس جا کر اس میں سے تھوڑا سا پانی لیا۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles