ChaobisveeN Raat - Article No. 1671

ChaobisveeN Raat

چوبیسویں رات - تحریر نمبر 1671

وزیر نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ابھی باورچی کی دکان پر جائیں، اسے مسمار کر دیں اور باورچی کی پگڑی سے اس کی مشقیں باندھ کر زبردستی میرے پاس لے آئیں

جمعرات 18 جنوری 2018

جب چوبیسویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ جب عجیب کی دادی نے اس کی باتیں سنیں تو وہ غصے میں بھر گئی اور خادم کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور کہنے لگی کی لعنت ہو تجھ پر! تو نے میرے بچے کو خراب کر دیا ہے کیونکہ تو اسے لے کر باورچیوں کی دکانوں میں جاتا ہے۔ نوکر ڈرا اور کہنے لگا کہ جی نہیں، ہم دکان میں نہیں گئے تھے، محض اس کے پاس سے گزرے تھے۔

عجیب نے کہا کہ واللہ، ہم گئے تھے اور کھانا کھایا تھا اور وہ کھانا تیرے کھانے سے اچھا تھا۔ یہ سن کر اس کی دادی اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی خبر اپنے جیٹھ کو کی اور اسے نوکر کے خلاف ورغلایا۔ اب نوکر وزیر کے پاس حاضر ہوا اور وزیر نے اس سے پوچھا کہ تو میرے بیٹے کو باورچی کی دکان میں کیوں لے گیا تھا؟ نوکر ڈرا اور کہنے لگا کہ ہم نہیں گئے تھے، عجیب نے کہا کہ ہاں، ہم گئے تھے اور ہم نے انار دانے کھائے تھے۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور باورچی نے ہمیں برف اور شکر بھی پلایا تھا۔ یہ سن کر وزیر، نوکر پر اور زیادہ غضب ناک ہو گیا اورا س سے دوبارہ پوچھا لیکن اس نے دوبارہ انکار کیا۔ اس پر وزیر نے کہا کہ اگر تو سچ کہتا ہے تو ہمارے سامنے بیٹھ کر کھا۔ اب خادم آگے بڑھا اور کھانے کا ارادہ کیا لیکن اس سے کھایا نہ گیا اور اس نے لقمہ پھینک دیا اور کہنے لگا کہ اے میرے آقا، میں کل کے کھانے سے ابھی سیر ہوں۔
وزیر سمجھ گیا کہ باورچی کے پاس سے کھا کر آیا ہے اور اس نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے زمین پر پٹکیں اور انہوں نے اسے پٹکا اور وزیر نے سخت مار مارنی شروع کی تو نوکر پناہ مانگنے لگا اور کہا کہ اے میرے سردار مجھے مت مار۔ میں تجھ سے سچ سچ کہے دیتا ہوں۔ اس پر وزیر نے ہاتھ روک لیا اور کہنے لگا کہ سچ سچ کہہ۔ اس نے جواب دیا کہ سن، ہم واقعی باورچی کی دکان میں گئے تھے جبکہ وہ انار دانے پکا رہا تھا۔
اور اس نے ہمیں اس میں سے چکھنے کے لیے دیا تھا۔ خدا کی قسم میں نے عمر بھر ایسا نہیں کھایا، اور نہ اس کھانے سے جو ہمارے آگے ہے، بد تر کھانا کبھی چکھا۔
بدرالدین حسن کی ماں کو غصہ آ گیا اور وہ کہنے لگی کہ تجھے ابھی اس کے پاس جا کر اس کے انار دانوں میں سے ایک پیالہ لانا اور انہیں اپنے آقا کو دکھانا ہوگا تاکہ وہ فیصلہ کرے کہ دونوں میں سے کون سا بہتر اور زیادہ مزے دار ہے۔
نوکر نے کہا کہ بہت خوب، اور اس نے نوکر کو ایک پیالہ اور نصف دینار دیا۔ نوکر روانہ ہوا اور دکان پر پہنچ کر باورچی سے کہا کہ ہم نے تیرے کھانے پر شرط لگائی ہے کیونکہ ہمارے آقا کے گھر بھی آج انار دانے پکے ہیں۔ اس آدھ دینار کے انار دانے ہمیں دے اور نتیجے کا انتظار کر کیونکہ ہم نے تیرے کھانے کے پیچھے سخت مار کھائی ہے۔ بدرالدین ہنسا اور کہنے لگا کہ واللہ اس کھانے کو سوائے میرے اور میری ماں کے اور کوئی اچھی طرح نہیں پکا سکتا اور وہ اس وقت یہاں سے بہت دور ہے۔
یہ کہہ کر اس نے پیالہ بھر دیا اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر سے مشک اور گلاب کا عرق چھڑک دیا۔ نوکر اسے لے کر بھاگا اور ان کو وہ پیالہ دیا۔ حسن کی والدہ نے اسے لے کر چکھا اور دیکھا کہ کیسا اچھا مزہ ہے اور کس خوبی سے پکا ہوا ہے اور وہ سمجھ گئی کہ اس کا پکانے والا کون ہے اور وہ رونے لگی اور بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ وزیر دم بخود ہوکر رہ گیا اور اس کے اوپر گلاب چھڑکا۔
تھوڑی دیر کے بعد جب اس کو افاقہ ہوا تو اس نے کہا کہ اگر میرا بیٹا ابھی تک زندہ ہے تو یہ انار دانے سوائے اس کے اور کسی نے نہیں پکائے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ وہ میرا بیٹا بدرالدین حسن ہے اور دیکھ لینا یہی نکلے گا کیونکہ یہ کھانا ہم دو پکا سکتے ہیں اور میں نے ہی اسے سکھایا ہے۔ جب وزیر نے یہ سنا تو خوشی کے مارے اس کی باچھیں کھل گئیں اور وہ کہنے لگا کہ آہ میری تمنا اپنے بھتیجے کو دیکھنے کی! کیا تمہارا ابھی یہی خیال ہے کہ زمانہ ہمیں اس سے ملا کر رہے گا؟ اور ہم سوائے خدا کے اور کسی سے یہ دعا نہیں کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے ملائے۔
یہ کہتے ہی وزیر اٹھ کھڑا ہوا اور باہر جا کر اپنے آدمیوں سے کہنے لگا کہ تم میں سے بیس آدمی ابھی باورچی کی دکان پر جائیں اور اسے مسمار کر دیں اور اس کی پگڑی سے اس کی مشکیں باندھ کر زبردستی میرے پاس لے آئیں، لیکن اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ بہت خوب۔ اس کے بعد وزیر سوار ہو کر فوراً حکومت کے ایوان میں گیا اور دمشق کے حاکم سے ملاقات کی اور اسے وہ خطوط دکھائے جو وہ سلطان سے لایا تھا۔
حاکم نے انہیں الٹ پلٹ کر پڑھا اور اپنے سر پر رکھا اور کہنے لگا کہ وہ تیرا مجرم کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک باورچی۔ حاکم نے اپنے پیش کاروں کو حکم دیا کہ وہ اس کی دکان پر جائیں۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ دکان مسمار پڑی ہے اور اس کی ساری چیزیں توڑ ڈالی گئی ہیں کیونکہ جب وہ حکومت کے ایوان میں گیا تھا تو اس کے نوکر اس کا حکم بجا لائے اور اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ حکومت کے ایوان سے واپس آئے۔
بدرالدین حسن ان سے کہہ رہا تھا کہ بتاؤ تو سہی کہ انار دانوں میں انہوں نے کیا بات دیکھی کہ یہاں تک نوبت پہنچی۔
اب وزیر بھی دمشق کے حاکم کے پاس سے لوٹ آیا تھا اور اس سے یہ حکم لے لیا تھا کہ وہ مجرم کو لے کر روانہ ہو جائے۔ جب وزیر اپنے خیموں میں پہنچا تو اس نے باورچی کو طلب کیا اور لوگوں نے اسے اس حالت میں پیش کیا کہ اس کے عمامے سے اس کی مشکیں بندھی ہوئی تھیں۔
جب بدرالدین حسن نے اپنے چچا کو دیکھا تو وہ زار و قطار رونے لگا اور اس نے کہا کہ اے میرے سردار میں نے تمہارا کیا گناہ کیا ہے؟ وزیر نے کہا کہ تو ہی نے انار دانے پکائے ہیں؟ اس نے کہا کہ جی ہاں۔ اس میں کون سی ایسی چیز پائی گئی ہے کہ اس کے جرم میں‘ میں گردن زدنی ٹھہرا؟ وزیر نے کہا کہ میں تیرے اوپر احسان کرتا ہوں اور تیری سزا کم کئے دیتا ہوں۔
اس نے کہا کہ اے میرے آقا! تُو مجھے میرا گناہ کیوں نہیں بتاتا؟ وزیر نے جواب دیا کہ ابھی بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے غلاموں کو چلا کر آواز دی اور کہا کہ ساربان کو بلاؤ۔ لوگوں نے بدرالدین حسن کو اپنے ساتھ لیا اور اسے ایک صندوق میں بند کرکے اس میں قفل لگا دیا اور روانہ ہو گئے۔ جب چلتے رات ہوگئی تو وہ ٹھہرے اور کچھ کھانا کھایا اور بدرالدین کو نکال کر کھانا کھلایا اور پھر اسے صندوق میں بند کر دیا۔

یہی ان کا دستور جاری رہا یہاں تک کہ وہ قمرہ پہنچے اور انہوں نے بدرالدین حسن کو صندوق سے نکالا اور وزیر نے اس سے پوچھا کہ تو نے ہی انار دانے پکائے تھے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں، میرے آقا۔ وزیر نے حکم دیا کہ اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو۔ انہوں نے بیڑیاں ڈال کر پھر صندوق میں بند کر دیا اور چلتے چلتے وہ مصر پہنچے اور ریدانیہ میں اُترے۔
وزیر نے حکم دیا کہ بدرالدین حسن کو صندوق سے نکالیں اور ایک بڑھئی کو بلائیں۔ جب بڑھئی آیا تو وزیر نے کہا، اس کے لیے ایک لکڑی کی صلیب بنا۔ بدرالدین حسن نے کہا کہ صلیب کا تو کیا کرے گا؟ اس نے جواب دیا کہ تجھے اس پر چڑھا کر کیلوں سے جڑ دوں گا اور پھر تجھے سارے شہر میں پھراؤں گا۔ اس نے پوچھا کہ کس گناہ پر تو میرے ساتھ یہ حرکت کرے گا؟ وزیر نے کہا اس گناہ پر کہ تو نے انار دانے خراب پکائے تھے۔
تو نے کیسا پکایا ہے کہ اس میں کالی مرچیں بالکل نہیں؟
اس نے کہا کہ محض کالی مرچوں کے نہ ہونے سے تُو یہ ساری سزائیں مجھے دے رہا ہے۔ کیا یہ کافی نہیں ہے کہ تو نے مجھے قید کر رکھا ہے اور ہر روز ایک بار کھانے کو دیتا ہے؟ وزیر نے کہا کہ کالی مرچیں نہیں ہیں اور اس کے بدلے تیری سزا قتل ہے۔ اس پر بدرالدین کو تعجب ہوا اور وہ اپنی زندگی پر افسوس کرنے لگا۔
وزیر نے پوچھا کہ تُو کیا سوچ رہا ہے؟ اس نے کہا کہ ان لوگوں کو جن کے دماغ میں تیری طرح گھن لگ گیا ہے، کیوں کہ اگر عقل درست ہوتی تو‘ تُو میرے ساتھ یہ کارروائی نہ کرتا۔ وزیر نے کہا کہ تجھے سزا دینی ضروری ہے تاکہ تُو پھر ایسا کام نہ کرے۔ بدر الدین حسن نے جواب دیا کہ جو کارروائی تو نے میرے ساتھ کی ہے اس کے مقابلے میں سزا کی کوئی حقیقت نہیں۔
اس نے کہا بغیر اس کے چارہ نہیں کہ تجھے پھانسی دی جائے۔
یہ گفتگو باہم ہو رہی تھی اور بڑھئی تختے بنا رہا تھا اور بدرالدین اسے دیکھ رہا تھا۔ اس اثنا میں رات ہوگئی اور اس کے چچا نے اسے لے کر صندوق میں بند کر دیا اور کہا کہ باقی کارروائی کل کی جائے گی۔ اس کے بعد وہ انتظار میں رہا کہ بدرالدین سو جائے۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ وہ سو گیا ہے تو وہ اٹھا اور گھوڑے پر سوار ہوا اور صندوق کو اپنے آگے رکھ لیا اور شہر پہنچ کر اپنے گھر آیا اور اپنی بیٹی ست الحسن سے کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تجھے تیرے چچازاد سے ملایا۔
اٹھ اور گھر کو اسی طرح فرش فروش سے آراستہ کر‘ جس طرح تُو نے منہ دکھائی کے دن کیا تھا۔ لوگ اٹھے اور انہوں نے شمعیں روشن کیں اور وزیر نے وہ کاغذ نکالا‘ جس میں اس نے لکھ چھوڑا تھا کہ کون سی چیز کہاں تھی اور لوگوں نے اسی کے مطابق ہر چیز کو آراستہ کیا‘ یہاں تک کہ دیکھنے والے کو بالکل شک نہ ہو سکتا تھا کہ یہ بعینہ منہ دکھائی کی رات ہے‘ اس کے بعد وزیر نے حکم دیا کہ بدرالدین حسن کی پگڑی اسی جگہ رکھی جائے جہاں اس نے اسے خود اپنے ہاتھ سے رکھا تھا۔
اسی طرح پاجامہ اور تھیلی جو بچھونے کے نیچے تھی۔ پھر وزیر نے اپنی لڑکی سے کہا کہ اپنے کپڑے اتار ڈال‘ جس طرح تُو نے منہ دکھائی کی رات خلوت میں کیا تھا اور جب تیرا چچازاد تیرے پاس آئے تو اس سے کہیو کہ تُو نے بیت الخلا سے لوٹنے میں بہت دیر لگائی اور اسے اپنے پاس سونے دیجیو اور اس سے باتیں کیجیو یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ صبح کے وقت میں اس سے سارا ماجرا بیان کر دوں گا۔

یہ کہہ کر وزیر نے بدرالدین کو صندوق سے نکالا اور اس کے پاؤں کی بیڑیاں کاٹیں اور اس کے سارے کپڑے اتار ڈالے اور اٹنگی سونے کی قمیض بغیر پاجامے کے پہنا دی۔ یہ ساری باتیں ہو رہی تھیں اور وہ خواب میں تھا اور اسے کچھ خبر نہ تھی۔ اب خدا کو یہ منظور تھا کہ بدرالدین نے کروٹ بدلی اور جاگ پڑا اور اپنے آپ کو ایک روشن دہلیز میں پایا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ میں پریشان خواب دیکھ رہا تھا، اب اٹھ کر دوسرے کمرے تک گیا تو دیکھا کہ یہ وہی کمرہ ہے جہاں اس کی دلہن کی منہ دکھائی اس کے سامنے کی گئی تھی اور وہی کرسی۔
جب اس کی نظر اپنے عمامے اور کپڑوں پر پڑی تو وہ حواس باختہ ہو گیا اور اس کا ایک قدم آگے اور ایک پیچھے پڑنے لگا اور وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ میں خواب میں ہوں یا جاگ رہا ہوں؟
وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتا جاتا اور تعجب سے کہتا جاتا تھا کہ واللہ یہ تو وہی مکان ہے‘ جس میں دلہن کی منہ دکھائی میرے سامنے ہوئی تھی! آخر میں ہوں کہاں! میں تو صندوق میں بند تھا۔

وہ اپنے دل میں یہی باتیں کر رہا تھا کہ اتنے میں ست الحسن نے دالان کا پردہ اٹھایا اور کہنے لگی کہ میرے آقا‘ اندر کیوں نہیں آتا‘ تُو نے بیت الخلا میں بہت دیر لگا دی۔ جب اس نے اسے یہ کہتے سنا اور اس کا چہرہ دیکھا تو وہ ہنسنے لگا اور کہا کہ میں پریشان خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ کہہ کر وہ اندر گیا اور ایک لمبی سی سانس کھینچی اور سارے ماجرے پر غور کرنے اور تعجب کرنے لگا اور جا اس نے اپنی پگڑی اور پاجامہ اور وہ تھیلی دیکھی جس میں ایک ہزار دینار تھے تو اسے اور بھی مشکل پڑی اور وہ کہنے لگا کہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میں پریشان خواب دیکھ رہا تھا۔
اب ست الحسن نے اس سے کہا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو ایسا حیران اور بدحواس معلوم ہوتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ خدا تجھے سلامت رکھے اور اس کا نام تیری حفاظت کرے تو حاجت رفع کرنے گیا تھا اور اب واپس آیا ہے، کیا تیری عقل جاتی رہی؟
جب بدرالدین نے یہ سنا تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ تو سچ کہتی ہے لیکن جب میں تیرے پاس سے گیا تو بیت الخلا میں جا کر سو گیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ میں دمشق میں باورچی ہوں اور وہاں دس سال قیام کیا اور یہ دیکھا کہ میرے پاس ایک لڑکا آیا جو کسی بڑے آدمی کا بیٹا تھا اور اس کے ساتھ ایک نوکر تھا۔
یہ کہہ کر بدرالدین حسن نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور چوٹ کا نشان محسوس کیا اور کہنے لگا کہ اے میری آقا‘ یہ واقعہ معلوم ہوتا ہے‘ کیونکہ اس نے میری پیشانی پر پتھر مارا تھا اور وہ پھٹ گئی تھی۔ یہ تو بے داری کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ جب ہم دونوں آپس میں لپٹ کر سو گئے تھے تو گویا میں نے یہ سب باتیں خواب میں دیکھیں اور یہ کہ میں بغیر ٹوپی اور پاجامے کے دمشق گیا اور وہاں باورچی گیری کرنے لگا۔
اس کے بعد وہ پھر تھوڑی دیر تک بدحواس رہا اور کہنے لگا کہ میں نے دیکھا کہ میں نے انار دانے پکائے ہیں‘ جن میں مرچیں کم تھیں، واللہ میں بیت الخلا گیا ضرور سوگیا ہوں گا اور یہ سب خواب دیکھا ہوگا۔
اب ست الحسن کہنے لگی کہ خدا کی قسم بتا کہ تونے کیا دیکھا اور بدرالدین نے سارا قصہ بیان کیا اور کہنے لگا کہ واللہ اگر میں جاگ نہ پڑتا تو وہ مجھے صلیب پر چڑھا دیتے۔
اس نے پوچھا کس وجہ سے؟ اس نے جواب دیا کہ انار دانوں میں مرچوں کی کمی کی وجہ سے اور گویا انہوں نے میری دکان ڈھا دی تھی اور میرے برتن توڑ ڈالے تھے اور مجھے صندوق میں بند کر دیا تھا اور ایک بڑھئی کو بلا لائے تھے جس نے تختے بنائے تھے کیونکہ وہ مجھے پھانسی دینا چاہتے تھے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ ساری باتیں خواب میں پیش آئیں‘ جاگتے میں نہیں۔
اس پر ست الحسن ہنس پڑی اور دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر سو گئے۔ اب وہ سوچ میں پڑ گیا اور کہنے لگا واللہ یہ باتیں تو بیدار کی سی معلوم ہوتی ہیں۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ دونوں میں کون سی بات صحیح ہے۔ یہ کہہ کر وہ لیٹ گیا اور سخت حیران تھا‘ کبھی کہتا تھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے اور کبھی کہتا تھا کہ نہیں یہ بیداری کی باتیں ہیں۔ صبح تک وہ اسی پریشانی میں تھا کہ اس کا چچا وزیر شمس الدین اس کے پاس آیا اور سلام کیا۔
بدرالدین حسن اسے دیکھ کر کہنے لگا کہ کیا تو وہی شخص نہیں ہے جس نے یہ حکم دیا تھا کہ میں قید کر لیا جاؤں اور صلیب پر جڑ دیا جاوٴں اور میری دکان ڈھا دی جائے کیونکہ انار دانوں میں مرچیں کم تھیں؟ یہ سن کر وزیر نے کہا کہ بیٹا سچ ظاہر ہو گیا، جو بات پوشیدہ تھی‘ وہ کھل گئی۔ تو واقعی میں برادر زادہ ہے۔ یہ سارا گورکھ دھندا اس لیے کیا تھا کہ مجھے تحقیق کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ تو وہی اس رات میری بیٹی کے ساتھ سویا تھا۔
یہ تحقیق مجھے اس وقت تک نہیں ہوئی جب تک تو نے مکان کو اور اپنی پگڑی اور پاجامے کو‘ اپنے دیناروں کو اور اس کاغذ کو جو تو نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اور اس کاغذ کو جو تیرے باپ نے لکھا تھا جو میرا بھائی تھا‘ پہچان نہ لیا کیونکہ میں نے تجھے کبھی نہ دیکھا تھا اور تجھے پہنچانتا نہ تھا۔ میں تیری ماں کو بصرے سے اپنے ساتھ لیتا آیا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اس سے لپٹ گیا اور رو نے لگا۔
جب بدرالدین حسن نے چچا کی باتیں سنیں تو اسے سخت تعجب ہوا اور وہ اپنے چچا کے گلے سے لپٹ گیا اور مارے خوشی کے رونے لگا۔ اب وزیر نے اس سے کہا کہ یہ ساری باتیں اس وجہ سے ہوئیں جو میرے تیرے والد کے درمیان پیش آئی تھی۔ یہ کہہ کر اس نے وہ سارا ماجرا بیان کر دیا اور یہ کہ اس کا باپ کیوں بصرے گیا۔ اب وزیر نے عجیب کو بلوایا اور جب اس کے باپ نے اسے دیکھا تو کہنے لگا کہ یہی وہ لڑکا ہے‘ جس نے مجھے پتھر مارا تھا۔
وزیر نے کہا کہ یہ تیرا بیٹا ہے۔ یہ سن کر وہ اس سے لپٹ گیا۔ اتنے میں اس کی ماں آئی اور اس سے لپٹ گئی اور اس کے جانے کے بعد سارا واقعہ بیان کیا اور اس نے بھی اپنی ماں سے اپنی ساری سرگزشت بیان کی‘ اور سب نے دوبارہ ملنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ جب وزیر شمس الدین کو آئے ہوئے دو روز ہو گئے تو وہ سلطان کے پاس گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے اس کے آگے زمین کو بوسہ دیا اور شاہانہ شان کے مطابق اسے سلام کیا۔
سلطان خوش ہو گیا اور اس کے چہرے پر بشاشت آگئی اور اسے اپنے پاس بلایا اب وزیر نے اپنے سفر کا سارا قصہ اس سے بیان کیا۔ سلطان نے کہا کہ شکر ہے خدا کا تجھے اپنے ارادے میں کامیابی ہوئی‘ تُو تو صحیح و سالم اپنے اہل و عیال کے پاس واپس آیا۔ میں تیرے برادر زادے حسن البصری کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ کل اسے دربار میں حاضر لائیو۔ شمس الدین نے کہا کہ انشاء اللہ تیرا غلام کل ضرور حاضر ہوگا۔
یہ کہہ کر وہ آداب بجا لایا اور چلا گیا۔ گھر آ کر اس نے اپنے برادر زادے سے کہا کہ سلطان تیری ملاقات کا مشتاق ہے۔ حسن نے کہا کہ غلام اپنے آقا کا فرمانبردار ہے۔ الغرض وہ اپنے چچا شمس الدین کے ساتھ سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب اس کے سامنے پہنچا تو بہترین اور مکمل ترین طریقے سے سلام بجا لایا۔ سلطان نے مسکرا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ اپنے چچا شمس الدین کے قریب بیٹھ گیا۔
بادشاہ نے اس کا نام پوچھا‘ اس نے کہا کہ تیرا حقیر ترین غلام حسن البصری کہلاتا ہے اور وہ دن رات تیرے لیے دعا کرتا ہے۔ سلطان کو اس کی باتیں پسند آئیں‘ اس نے چاہا کہ اس کے علم و ادب کا امتحان کرے اور اس سے کہنے لگا کہ تل کی تعریف تجھے کچھ یاد ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں‘ اور یہ اشعار پڑھے:
”جب میں اپنے محبوب کو یاد کرتا ہوں تو میرے آنسوؤں کا تار بندھ جاتا ہے اور میں زور زور سے چلانے لگتا ہوں۔
اس کے ایک تل سے جو خوبصورتی اور رنگ آنکھ کی پتلی یا دل کے سیاہ نقطے کی طرح ہے۔“
بادشاہ کو یہ دونوں شعر بہت پسند آئے اور اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ تیرے باپ پر رحم کرے اور تیری گویائی میں برکت دے! پھر اس نے دو شعر پڑھے:
”جو لوگ تل کو مشک کے دانے سے تشبیہ دیتے ہیں ان کی بات پر تعجب مت کر بلکہ اس چہرے پر تعجب کر جس میں سارا حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور ایک دانے کی بھی کمی بیشی نہیں ہے۔

بادشاہ مارے خوشی کے جھومنے لگا اور کہا کہ اور کہہ‘ خدا تیری عمر زیادہ کرے! اس نے کہا:
”تیرے رخسار کا تل ایسا ہے جیسا کہ یاقوت پر مشک کا نقطہ۔ اے میرے دل کے نقطے اور اس کی خوراک مجھے اپنے وصال سے خوش کر اور سخت دل مت ہو۔“
بادشاہ نے کہا کہ اے حسن خوب کہا اور تکمیل کو پہنچا دیا۔ اچھا یہ بتا کہ لغت میں خال کتنے معنوں میں استعمال ہوتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ خدا بادشاہ کو سلامت رکھے‘ اٹھاون معنوں اور بعض کہتے کہ پچاس معنوں میں۔
بادشاہ نے کہا کہ تُو سچ کہتا ہے۔ اچھا یہ بتا کہ تجھے حسن کی تفصیل معلوم ہے۔ اس نے کہا کہ جی ہاں۔ چہرے کا حسن صباحت کہلاتا ہے۔ رنگ کا وضاء ت‘ ناک کا جمال‘ آنکھوں کا حلاوت‘ منہ کا ملاحت‘ زبان کا ظرافت‘ قد کا رشاقت‘ عادت و اطوار کا لیاقت اور باتوں کا حسن کمال ہے۔
بادشاہ یہ سن کر خوش ہوگیا اور اس سے محبت کرنے لگا اور اس سے کہا کہ اس مثل کے کیا معنی ہیں کہ شریح لومڑی سے زیادہ چالاک ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت خدا تجھے کامرانی دے! طاعون کے زمانے میں شریح نجف گیا اور جب وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوتا تو ایک لومڑی اس کے سامنے آکر اس کی نقل اتارتی اور اس کی توجہ نماز کی طرف سے ہٹ جاتی۔
جب اس طرح کئی دن گزرے تو اس نے ایک روز اپنی قمیض اتار کر ایک لکڑی پر ٹانگی اور اس کی دونوں آستینیں باہر نکال کراس پر اپنی پگڑی رکھ دی اور اس کے بیچ پٹکا باندھ لیا اور اس لکڑی کو اس جگہ کھڑا کر دیا جہاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا۔ اب لومڑی اپنی عادات کے مواقف آئی اور اس کے سامنے کھڑی ہوگئی اور شریح نے پیچھے سے آکر اسے پکڑ لیا۔ یہی وجہ ہے اس مثل کی۔

جب سلطان نے حسن البصری کا بیان سنا تو اس کے چچا شمس الدین سے کہنے لگا کہ یہ تیرا برادر زادہ ادب کے فن میں کامل ہے اور میرے خیال میں اس کی نظیر مصر میں ناپید ہے۔ اس پر حسن البصری اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اس کے آگے زمین کو بوسہ دیا اور اپنے آقا کے سامنے غلاموں کی طرح بیٹھ گیا۔ سلطان کو حسن البصری کی زبان دانی پر بے حد خوشی ہوئی اور اس نے اسے ایک نفیس خلعت عطا کی اور اس کی حالت بہتر کرنے کے لیے ایک عہدہ اس کے سپرد کر دیا۔
حسن البصری اٹھا اور زمین کو بوسہ دیا اور دعا مانگی کہ خدا اس کی عزت ہمیشہ قائم رکھے‘ اور اپنے چچا کے ساتھ جانے کی اجازت مانگی اور بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔ اب چچا بھتیجے نکل کر گھر آئے اور ان کے سامنے کھانا لایا گیا اور جو کچھ خدا نے اس کو دیا تھا انہوں نے کھایا‘ کھانے سے فارغ ہوکر حسن اپنی بیوی ست الحسن کے پاس گیا اور جو کچھ اسے بادشاہ کے دربارمیں پیش آیا تھا کہہ سنایا۔
اس نے کہا کہ وہ تجھے ضرور اپنا ندیم بنائے گا اور تیری تنخواہ میں اضافہ کرے گا اور تجھے اور زیادہ تحفے دے گا کیونکہ خدا کے فضل سے تو سورج کی مانند ہے اور سمندر یا خشکی میں جہاں کہیں بھی ہوگا‘ اپنے کمال کی روشنی پھیلائے گا۔ اس نے کہا کہ میں بادشاہ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے دل میں میری محبت اور زیادہ ہو جائے۔
اس نے کہا کہ تیرا ارادہ درست ہے۔ جا اور اچھی طرح سوچ سمجھ کر لکھ اور اپنے کلام میں عقل و حکمت کی باتیں بیان کر اور مجھے یقین ہے کہ سلطان کو بہت پسند آئے گا۔
جب وہ قصیدہ لکھ چکا تو اسے اپنے چچا کے ایک غلام کے ہاتھ سلطان کے پاس بھیجا۔ بادشاہ اسے پڑھ کر بہت خوش ہوا اور اسے حاضرین کے سامنے پڑھا اور انہوں نے اس کی بڑی تعریف کی۔ اب بادشاہ نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور جب وہ آیا تو بادشاہ نے کہا کہ تو آج سے میرا ندیم ہے۔
اور تیری پرانی تنخواہ کے علاوہ میں تیرے لیے اور ایک ہزار دینار مشاہرہ مقرر کرتا ہوں۔ حسن البصری اٹھا اور اس نے اس کے آگے تین بار زمین کو بوسہ دیا اور کہا کہ خدا تیری عزت ہمیشہ قائم رکھے اور تیری عمر میں برکت دے! اب حسن البصری کی قدر و منزلت بڑھتی گئی اور اس کا شہرہ دور دراز ملکوں میں پہنچا اور اس نے مرتے دم تک اپنے چچا اور اہل و عیال کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی بسر کی۔

جب ہاروں الرشید نے جعفر کے منہ سے یہ کہانی سنی تو وہ حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ ان کہانیوں کو ضرور سونے کے پانی سے لکھ۔ یہ کہہ کر اس نے غلام کو چھوڑ دیا اور حکم دیا کہ جوان کو ہر مہینے اتنا دیا جائے کہ اس کی زندگی عیش و عشرت سے گزرے اور اسے اپنے پاس سے ایک لونڈی عطا کی اور اسے اپنا ندیم بنایا۔ لیکن یہ کہانی درزی اور کبڑے اور یہودی اور خانساماں اور عیسائی کی کہانی سے زیادہ عجیب نہیں ہے۔
بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا کہانی ہے:
درزی اور کبڑے اور یہودی اور خانساماں اور عیسائی کی کہانی
شہرزاد نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔ پرانے زمانے میں چین کے شہر میں ایک درزی رہتا تھا جو بڑا فضول خرچ تھا اور کھیل کو د کا شائق اور وہ اور اس کی بیوی اکثر کھیل تماشے دیکھنے جایا کرتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ صبح کے وقت گھر سے نکلے اور شام کے قریب لوٹے تو راہ میں ایک کبڑے کو دیکھا جس کی صورت دیکھ کر مصیبت زدہ ہنس پڑے اور غمگین کا رنج و الم دور ہو جائے۔
درزی اور اس کی بیوی اس کا مذاق اُڑانے لگے اور پھر انہوں نے اس سے کہا کہ ہمارے ساتھ چل کہ آج کی رات بیٹھ کر مئے نوشی کریں۔ اس نے اسے منظور کر لیا اور ان کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ درزی بازار گیا‘ اور رات تو ہو چکی تھی‘ اور اس نے تلی ہوئی مچھلیاں اور روٹی اور نیبو اور میٹھا منہ کرنے کے لیے مٹھائی خریدی۔ آکر مچھلیاں کبڑے کے آگے رکھ دیں اور سب کھانے لگے‘ اب درزی کی بیوی نے مچھلی کا ایک بڑا ٹکڑا لے کر اس کبڑے کے منہ میں دے دیا اور اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر لیا اور کہنے لگی کہ اسے ایک بار ایک ہی سانس میں نگل جا‘ میں تجھے چبانے نہ دوں گی ۔
کبڑا اسے نگل گیا‘ اس میں ایک موٹا سا کانٹا تھا جو اس کے حلق میں چبھ گیا اور وہ مر گیا۔ اب شہرزاد کو صبح ہوتی ہوئی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی‘ جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles