ChhabeesveeN Raat - Article No. 1675

ChhabeesveeN Raat

چھبیسویں رات - تحریر نمبر 1675

وہ میری حالت دیکھ کر بہت غمگین ہوئی اور اس نے اپنا سارا مال میرے نام کر دیا اور گواہوں کو بلا کر میرے ساتھ نکاح کیا

جمعہ 16 فروری 2018

جب چھبیسویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ۔۔۔ جوان سوداگر نے عیسائی سے کہا کہ میں اندر جا کر بیٹھا ہی تھا کہ وہ لڑکی آ پہنچی اور اس کے سر پر ایک تاج تھا جس میں موتی اور جواہرات جڑے ہوئے تھے اور اس کے چہرے پر غازہ ملا ہوا تھا اور مصنوعی تل جڑے ہوئے تھے۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ مسکرانے لگی اور مجھ سے لپٹ گئی اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور منہ میرے منہ پر رکھ دیا اور میری زبان چوسنے لگی اور میں اس کی زبان چوسنے لگا۔

اس نے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ تو میرے پاس آیا ہے! میں نے کہا کہ میں تیرا غلام ہوں۔ اس نے کہا مرحبا اہلاً و سہلاً، خدا کی قسم جس دن سے میں نے تجھے دیکھا ہے نہ نیند میں مزا آتا ہے نہ کھانے میں۔ میں نے کہا کہ میرا بھی یہی حال ہے۔ اب ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اور میں شرم کی وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھا۔

(جاری ہے)

تھوڑی دیر بعد دستر خوان بچھایا گیا اور اس پر بہترین کھانے چنے گئے مثلاً کلچے اور تلا ہوا حلوہ، خالص شہد میں ڈوبا ہوا اور بھنی ہوئی مرغی۔

ہم دونوں نے کھانا کھایا اور پھر لوگ سلیبچی اور لوٹا لائے اور میں نے اپنے ہاتھ دھوئے اور ان کو گلاب اور مشک کے پانی سے معطر کیا۔ اب ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ وہ مجھ سے اپنا درد بیان کرتی تھی اور میں اس سے اپنا، اس کی محبت میرے دل میں گھر کر چکی تھی اور مجھے اپنے مال و دولت کی بالکل پرواہ نہ رہی۔ اب ہم نے کھیلنا اور ہاتھا پائی اور بوسہ بازی شروع کی، یہاں تک کہ رات ہوگئی اور کنیزیں کھانا اور شراب لائیں اور وہ بالکل اپنے آپے سے باہر تھی، آدھی رات تک ہم شراب پیتے رہے اور پھر بچھونے پر جا کر لیٹ گئے اور میں اس کے ساتھ صبح تک ہم بستر رہا اور ایسی رات میں نے عمر بھر نہیں گزاری تھی۔
جب صبح ہوئی تو میں اٹھا اور میں نے اس کے لیے فرش کے نیچے وہ رومال ڈال دیا جس میں دینار بندھے ہوئے تھے اور جانے کے لیے اس سے رخصت ہوا اور وہ رونے لگی اور کہتی تھی کہ اے میرے پیارے آقا‘ یہ پیارا چہرہ میں پھر کب دیکھوں گی؟ میں نے جواب دیا کہ آج میں پھر تیرے پاس آؤں گا۔ جب میں باہر نکلا تو دیکھا کہ گدھے والا‘ جو مجھے کل لایا تھا‘ میرا انتظار کر رہا ہے۔
میں سوار ہو کر اس کے ساتھ چل دیا اور خان مسرور پہنچ کر اتر پڑا اور گدھے والے کو آدھا دینار دے کر کہا کہ مغرب کے وقت پھر آئیو، اس نے کہا بہت خوب، اب میں ناشتہ کر کے اپنے کپڑوں کے دام وصول کرنے گیا اور وہاں سے لوٹ کر میں نے اس لڑکی کے لیے میمنہ تلا اور کچھ شیرینی اپنے ساتھ لی اور حمال کو بلا کر یہ چیزیں اس کی ٹوکری میں رکھ دیں اور اجرت دے کر اس لڑکی کے گھر روانہ کر دیا۔
شام تک میں کام کاج میں مشغول رہا، مغرب کے وقت گدھے والا آیا اور میں نے پچاس دینار اپنے رومال میں باندھے اور اس کے گھر پہنچ گیا اور دیکھا کہ انہوں نے مر مر کو مانج کر خوب صاف کیا اور پیتل کے برتنوں کو جلا دی ہے اور قندیلوں کی مرمت کرکے ان میں موم بتیاں جلائی ہیں اور کھانوں کو چن رکھا اور شراب کو چھان رکھا ہے۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو اپنے دونوں ہاتھ میرے گلے میں ڈال دئیے اور کہنے لگی کہ تُو نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔
اب ہمارے آگے دستر خوان لایا گیا اور ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔ اس کے بعد کنیزوں نے دستر خوان بڑھایا اور شراب پیش کی اور ہم نے پینا شروع کیا۔ پیتے پیتے آدھی رات ہو گئی تو ہم اٹھ کر سونے کے کمرے میں گئے اور صبح تک ہم بستر رہے۔ جب صبح ہوئی تو میں اٹھا اور دستور کے مواقف اسے پچاس دینار دئیے اور وہاں سے روانہ ہو گیا، باہر میں نے گدھے والے کو دیکھا اور سوار ہو کر سرائے پہنچا۔
تھوڑی دیر سونے کے بعد میں اٹھا اور شام کا کھانا تیار کیا۔ میں نے کالی مرچوں کے ساتھ چاول پکائے اور اس پر اخروٹ اور بادام جمائے اور قلقاس کی جڑیں تلیں اور میوے اور نقل اور عطریات لے کر لڑکی کے گھر روانہ کر دیا اور میں نے سرائے جاکر پچاس دینار رومال میں باندھے اور اسی طرح گدھے پر سوار ہو کر حویلی پہنچا اور اندر گیا اور کھا پی کر صبح تک ہم بستر رہا۔
پھر اٹھ کر میں نے رومال ڈال دیا اور دستور کے مواقف سوار ہو کر سرائے چلا گیا۔
ایک مدت تک یہ حالت رہی یہاں تک کہ ایک رات جب میں سویا اور صبح کو اٹھا تو نہ میرے پاس کوئی دینار تھا اور نہ درہم۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ سارا شیطانی کام تھا۔ اب میں سرائے سے نکل کر بین القصرین کی سڑک پر گیا اور چلتے چلتے باب زویلہ پہنچا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ لوگوں کا بڑا مجمع ہے اور اس بھیڑ کی وجہ سے دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔
اتفاقاً اس بھیڑ میں ‘میں نے ایک سپاہی سے ٹکر کھائی اور میرا ہاتھ اس کی جیب پر جا پڑا اور میں نے ٹٹولا تو اس کی جیب میں ایک تھیلی معلوم ہوئی اور میرا ہاتھ اس کے بالکل قریب تھا، میں نے وہ تھیلی اس کی جیب سے نکال لی۔ اب سپاہی کو اپنی جیب ہلکی معلوم ہوئی تو اس نے اپنا ہاتھ جیب پر ڈالا اور اس کو خالی پا کر میری طرف متوجہ ہوا اور اپنا ڈنڈا اٹھا کر میرے سر پر مارا۔
میں زمین پر گر پڑا اور لوگ میرے گرد جمع ہوگئے اور سپاہی کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کہنے لگے کہ تو نے اسے محض اس وجہ سے مارا ہے کہ اس کا دھکا تجھے لگا، سپاہی نے انہیں ڈانٹ کر کہا کہ یہ مردود چور ہے، اتنے میں ہوش آیا اور میں نے لوگوں کو کہتے سنا کہ یہ جوان حسین ہے، اس نے کچھ نہیں چرایا اور بعض اس کی تصدیق اور بعض تکذیب کرتے تھے، بہت قیل و قال کے بعد لوگوں نے مجھے کھینچا تاکہ مجھے اس سے چھڑا لیں لیکن اتفاق سے اسی وقت شہر کا حاکم مع پیش کاروں اور پیادوں کے، دروازے میں داخل ہوا، دیکھا کہ میرے اور سپاہی کے گرد لوگ جمع ہیں۔
یہ دیکھ کر حاکم نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ سپاہی نے کہا کہ اے امیر‘ واللہ یہ شخص چور ہے، اس نے میری جیب میں سے نیلی تھیلی نکال لی ہے جس میں بیس دینار تھے جب کہ میں بھیڑ میں تھا۔ حاکم نے سپاہی سے پوچھا کہ تیرے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں، حاکم نے پیش کار کو پکارا اور اس نے آکر مجھے گرفتار کر لیا اور میری بے عزتی تو ہو ہی چکی تھی حاکم نے اس سے کہا کہ اسے ننگا کر۔
جب مجھے ننگا کیا گیا تو میرے کپڑوں میں وہ تھیلی ملی‘ اور حاکم نے اسے کھولا اور دینار گنے تو سپاہی کے کہنے کے مطابق بیس ہی دینار پائے گئے، اس پر حاکم کو طیش آ گیا اور اس نے چلا کر پیش کاروں سے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے لڑکے سچ کہہ کہ تو نے یہ تھیلی چرائی ہے؟ میں نے سر جھکا لیا اور اپنے دل میں کہا کہ اگر میں کہتاہوں کہ میں نے چرائی تو مصیبت میں پھنستا ہوں، اب میں نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہاں‘ میں نے لی ہے۔
جب حاکم نے میری بات سنی تو اسے تعجب ہوا اور اس نے گواہ بلوائے اور انہوں نے میرے اقرار کی گواہی دی۔ یہ ساری باتیں باب زویلہ میں پیش آئیں۔ اب حاکم نے جلاد کو حکم دیا کہ میرا داہنا ہاتھ کاٹ ڈالے اور اس نے کاٹ ڈالا، اس پر سپاہی کا دل پسیجا اور اس نے میری سفارش حاکم سے کی اور حاکم مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور لوگ میرے آس پاس جمع رہے اور انہوں نے مجھے ایک پیالہ شراب پینے کو دی، سپاہی نے وہ تھیلی میرے حوالے کر دی اور کہنے لگا کہ تو حسین جوان ہے‘ تو چور نہیں ہوسکتا، یہ کہہ کر سپاہی مجھے چھوڑ کر چلتا ہوا اور تھیلی میرے پاس رہنے دی۔
اب میں وہاں سے روانہ ہوا اور اپنے ہاتھ کو اپنے کپڑے سے لپیٹ کر عبا کے اندر چھپا لیا مگر میری حالت دگرگوں ہورہی تھی اور میرا رنگ اس واقعے سے پیلا پڑگیا تھا اب میں وہاں سے گرتا پڑتا حویلی گیا اور مجھ سے سیدھا کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا اورآخر میں فرش کے اوپر گر پڑا۔ لڑکی نے دیکھا کہ میرا رنگ فق ہے اور پوچھا کہ تجھے کیا تکلیف ہے اور تیری حالت کیوں متغیر ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میرا سر دکھتا ہے اور طبیعت ذرا خراب ہے، اس پر اسے بڑی پریشانی ہوئی اور کہنے لگی کہ اے میرے آقا‘ میرا دل مت دکھا، بیٹھ اور اپنا سر اونچا کر اور کہہ کہ آج تجھ پر کیا گزری؟
کیونکہ تیرے چہرے سے مصیبت ظاہر ہوتی ہے۔
میں نے کہا کہ مجھے چپ رہنے دے۔ اس پر وہ رونے لگی اور اس نے کہا کہ ہاں اب تیری غرض پوری ہو چکی ہے کیوں کہ تو پہلے کی طرح آج نہیں‘ میں چپ تھا اور وہ باتیں کرتی جاتی تھی اور میں جواب نہ دیتا تھا‘ یہاں تک کہ رات ہوگئی اور وہ میرے لیے کھانا لائی، میں نے کھانے سے انکار کیا کیونکہ میں ڈرتا تھا کہ کہیں وہ یہ نہ دیکھ لے کہ میں بائیں ہاتھ سے کھاتا ہوں، میں نے کہا کہ اس وقت میرا جی کھانے کو نہیں چاہتا اس نے کہا کہ بیان کر کہ آج تجھ پر کیا گزری ہے اور تو کیوں مغموم اور پریشان خاطر ہے؟میں نے جواب دیا کہ ٹھہر جا‘میں ابھی تجھ سے بیان کرتا ہوں۔

اب اس نے میرے آگے شراب پیش کی اور کہا کہ لے کیونکہ اس سے تیرا غم دور ہوجائے گا، پی اور اپنا قصہ بیان کر۔ میں نے کہا کہ کیا مجھے بتانا پڑے گا؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں‘ میں نے کہا کہ اگر بے بتائے چارہ نہیں تو مجھے اپنے ہاتھ سے پلا، اس نے ایک پیالہ بھرا اور خود چڑھا گئی اور اسے دوبارہ بھر کر مجھے دیا اور میں نے بائیں ہاتھ سے لے لیا اور میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں زار زار رونے لگا۔
اس پر بھی وہ زور زور سے چلانے اور مجھ سے پوچھنے لگی کہ تیرے رونے کا سبب کیا ہے؟ میرے دل میں آگ لگی ہوئی ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ تو نے پیالہ بائیں ہاتھ سے لیا؟ میں نے کہا کہ میرے ہاتھ میں ایک پھوڑا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاتھ نکال۔ میں پھوڑے کو چیر کر اچھا کر دوں گی۔ میں نے کہا کہ ابھی چیرنے کا وقت نہیں آیا ہے اس لیے مجھے پریشان مت کر، میں فی الحال اپنا ہاتھ نہیں نکال سکتا۔
یہ کہہ کر میں پیالہ چڑھا گیا اور وہ مجھے برابر پلاتی رہی یہاں تک کہ مجھے نشہ چڑھ گیا اور میں بیٹھے بیٹھے سو گیا، اب اس نے دیکھا کہ میرا بازو بغیر ہاتھ کے ہے اور اس سے ادھر ادھر ٹٹولا تو دیکھا کہ میرے پاس اشرفیوں کی ایک تھیلی ہے، یہ دیکھ کر وہ اتنی غمگین ہوئی کہ جس کی کوئی حد نہیں اور میری وجہ سے صبح تک غم زدہ رہی۔
جب میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ اس نے میرے لیے یخنی تیار کی ہے اور وہ یخنی میرے آگے لائی تو میں نے دیکھا کہ چار مرغی کے چوزوں کی یخنی ہے اور وہ میرے پینے کے لیے شراب لائی، کھا پی کر میں نے تھیلی نیچے ڈال دی اور چاہتا تھا کہ چل دوں۔
اتنے میں وہ کہنے لگی کہ کہاں جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جہاں میں روز جاتا ہوں۔ اس نے کہا کہ مت جا، بیٹھ۔ میں بیٹھ گیا اور وہ کہنے لگی کہ تیری محبت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو نے اپنا سارا مال صرف کر دیا اور اپنا ہاتھ کھو بیٹھا، میں تجھے اپنے اوپر گواہ بناتی ہوں اور اصلی گواہ تو خدا ہے کہ میں تجھے ہرگز نہ چھوڑوں گی اور تو ابھی دیکھ لے گا کہ سچ کہتی ہوں۔

یہ کہہ کر اس نے گواہ بلوائے اور جب وہ آئے تو اس نے ان سے کہا میرا نکاح نامہ اس جوان کے ساتھ لکھو اور اس بات کی گواہی لکھو کہ میں مہر لے چکی ہوں۔ انہوں نے میرا نکاح نامہ اس کے ساتھ لکھ دیا، پھر اس نے کہا کہ اس بات کی بھی گواہی تحریر کرو کہ اس صندوق میں جتنا مال ہے اور میرے جتنے غلام اور باندیاں ہیں وہ سب اس جوان کی ملکیت ہیں، انہوں نے یہ بھی لکھ کر گواہی ثبت کر دی اور میں نے ملکیت قبول کر لی اور وہ لوگ اپنی اجرت لے کر چل دئیے، اب وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک کمرے میں لے گئی اور وہاں لے جا کر مجھے کھڑا کر دیا اور ایک بڑا صندوق کھول کر مجھ سے کہا کہ دیکھ اس صندوق میں کیا ہے؟ میں نے دیکھا تو اس میں رومال بھرے ہوئے تھے، اس نے کہا کہ یہ تیرا مال ہے جو میں نے تجھ سے لیا ہے، جب تو مجھے رومال میں پچاس دینار باندھ کر دیتا تھا تو میں اسے لپیٹ کر اس صندوق میں ڈال دیتی تھی، اپنا مال لے کیونکہ اب وہ تیری طرف لوٹ آیا ہے۔
آج میرے دل میں تیری عزت بہت زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ میری وجہ سے قضا و قدر نے تیرا داہنا ہاتھ کٹوا دیا ہے اور میں اس کا بدلہ نہیں دے سکتی۔ اگر میں جان بھی دے دوں تو کم ہے اور پھر بھی تیرا قرضہ میرے اوپر رہے گا، اب اس نے مجھ
سے کہا کہ اپنے مال پر قبضہ کر میں نے اس کے صندوق کا مال اپنے صندوق میں منتقل کیا اور اپنا مال اور اس کا مال جو میں نے اسے دیا تھا ایک کر دیا، اب میرے دل کو فرحت ہوئی اور میرا غم دور ہو گیا، میں نے اٹھ کر اسے بوسہ دیا۔
اس نے کہا کہ تو نے میری محبت میں اپنا ہاتھ نذر کر دیا، میں کس طرح اس کا بدلہ تجھے دے سکتی ہوں، اگر میں اپنی جان قربان کر دوں تو کم ہے اور اس سے تیرا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی ساری دولت کا ہبہ نامہ میرے نام لکھ دیا حتیٰ کہ بدن کے کپڑوں اور زیوروں اور سارے سامان کا۔ اس رات وہ میرے غم کی وجہ سے بالکل نہ سوئی اور میں نے اپنا سارا ماجرا اس سے بیان کیا اور تمام رات اس کے ساتھ گزار دی۔

ابھی ایک مہینہ نہ گزرا ہوگا کہ وہ کمزور ہونا شروع ہو گئی اور مرض بڑھتا گیا اور پچاسویں دن وہ آخرت کی طرف کوچ کر گئی، میں نے اس کی تجہیز و تکفین کر کے اسے دفن کیا اور قرآن ختم کرائے اور اس کے اوپر بہت سا مال خیرات کیا، جب میں قبر سے لوٹا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس کا بے حد مال اور املاک اور جاگیریں ہیں، منجملہ ان کے تلوں کا ایک ذخیرہ جس میں سے میں نے کچھ تیرے ہاتھ بیچا ہے اور ان دنوں تیرے پاس نہ آنے کی وجہ یہی تھی کہ میں باقی ذخیرے کے بیچنے میں مشغول تھا اور اب تک میں قیمت وصول کرنے سے فارغ نہیں ہوا ہوں۔
اب جو کچھ میں تجھ سے کہنے والا ہوں اس کو رد مت کیجیو، میں نے تیرا نمک کھایا ہے اور جو قیمت تلوں کی تیرے ذمے باقی ہے‘ وہ میں تیری نذر کرتا ہوں، یہ ہے سبب میرے داہنے ہاتھ کے کٹنے اور بائیں ہاتھ سے کھانے کا۔ میں نے کہا کہ یہ تیرا احسان ہے اور تیری بزرگی کی دلیل ہے۔ اب اس نے مجھ سے کہا کہ کیا تو یہ منظور کرے گاکہ میرے ساتھ میرے ملک کو چلے۔
میں نے قاہرہ اور سکندریہ کا بہت سا تجارت کا مال خریدا ہے، تو میرے ساتھ چل۔ اس نے کہا کہ اچھا، اور دوسرے مہینے کے شروع کا وعدہ کیا اور میں اور وہ جوان تمہارے اس ملک میں پہنچے۔ جوان نے اپنا تجارتی مال بیچ کر اس کے داموں سے تمہارے ملک کا سامان خریدا اور مصر چلا گیا اور میری قسمت میں یہ لکھا تھاکہ میں کل رات یہاں ٹھہروں اور پردیس میں مجھ پر مصیبت آئے۔ اے بادشاہ کیا یہ قصہ کبڑے کے قصے سے زیادہ عجیب و غریب نہیں ہے! بادشاہ نے کہا کہ نہیں میں سب کو پھانسی دئیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles