Chothi Raat - Article No. 1509

Chothi Raat

چوتھی رات - تحریر نمبر 1509

اے جلیل القدر بادشاہ! بزرگوں کا قول ہے کہ جو کوئی انجام کو نہیں سوچتا‘ زمانہ اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ بادشاہ ٹھیک کارروائی نہیں کر رہا

پیر 25 ستمبر 2017

جب چوتھی رات ہوئی تو اس کی بہن نے کہا کہ بہن‘ اگر تجھے نیند نہ آتی ہو تو اپنی کہانی پوری کر دے۔ اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ ماہی گیر نے دیو سے کہا کہ جب تک میں تجھے خود اپنی آنکھوں سے اس کے اندر نہ دیکھ لوں‘ ہرگز مجھے یقین نہیں آ سکتا۔ دیو نے اپنے آپ کو جنبش دی اور دھواں بن کر سمندر کے اوپر پھیل گیا۔ پھر یکجا ہو کر آہستہ آہستہ لٹیا میں داخل ہونے لگا‘ یہاں تک کہ سارے کا سارا دھواں اس کے اندر سما گیا۔

ماہی گیر فوراً آگے بڑھا اور سیسے کی مہر شدہ ڈاٹ لے کر لٹیا کے منہ پر لگا دی اور دیو سے پکار کر کہا کہ مانگ کون سی موت مرنا چاہتا ہے۔ خدا کی قسم میں تجھ کو اس سمندر میں پھینک دوں گا اور یہاں اپنے لیے ایک گھر بناﺅں گا اور کسی کو اس جگہ مچھلیاں نہ مارنے دوں گا اور کہوں گا کہ اس میں ایک دیو ہے اور جو کوئی اسے نکالے گا‘ اس سے وہ کہے گا کہ مانگ کون سی موت مرنا چاہتا ہے اور کس طرح قتل ہونا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

جب دیو نے ماہی گیر کی باتیں سنیں اور اپنے آپ کو اندر پایا اور نکلنا چاہا اور نہ نکل سکا‘ کیونکہ حضرت سلیمان کی مہر اسے نکلنے نہ دیتی تھی اور اسے یقین ہو گیا کہ ماہی گیر نے مجھے دھوکے سے بند کیا ہے تو اس نے کہا کہ اے ماہی گیر‘ میں تو تیرے ساتھ مذاق کرتا تھا۔ ماہی گیر نے کہا کہ اے سب سے زیادہ رذیل اور ناپاک اور کمینے دیو، تو جھوٹا ہے۔
اب ماہی گیر لٹیا کو لے کر سمندر کی طرف بڑھا تو دیو نے کہا کہ ہائیں! بائیں! تو یہ کیا کرتا ہے؟ ماہی گیر نے کہا کہ ہاں ہاں وہ خبیث گڑگڑانے لگا اور خوشامد کرنے لگا اور اس نے کہا‘ اے ماہی گیر‘ تو میرے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں تجھے سمندر میں پھینک دوں گا اور اگر تو اٹھارہ سو سال اور اس میں رہے تو میں تجھے رہنے دوں گا‘ یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔
اب میں تجھ سے ہرگز نہ کہوں گا کہ ”مجھے زندہ رہنے دے‘ خدا تجھے سلامت رکھے! اور مجھے قتل نہ کرنا‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا تجھے قتل کر ڈالے۔“ اور تو میری بات نہ مانے اور میرے ساتھ بے وفائی کرے۔ اب خدا نے مجھے تیرے اوپر قابو دیا ہے اور اب میں تیرے ساتھ بے وفائی کرتا ہوں۔ دیو نے کہا کہ اگر تو مجھے کھول دے تو میں تیرے ساتھ بھلائی کروں گا۔
ماہی گیر نے کہا کہ تو جھوٹا ہے‘ اے مردود میری اور تیری مثال ایسی ہے جیسے یونان بادشاہ کے وزیر اور دوبان حکیم کی۔ دیو نے کہا کہ یونان بادشاہ کا وزیر اور دوبان حکیم کون ہیں اور ان کا کیا قصہ ہے؟
یونان بادشاہ کے وزیر کی کہانی
ماہی گیر نے کہا کہ اے دیو‘ سن! اگلے زمانے میں فارس اور روم کا ایک بادشاہ تھا۔ اس کا نام تھا یونان۔
اس کے پاس بے حد مال و دولت اور لاﺅ لشکر تھا۔ وہ بڑے دبدبے والا تھا اور اس کے خراج گزار بہت سارے تھے۔ لیکن اسے کوڑھ کی بیماری تھی اور حکیم اور طبیب اس کے علاج سے عاجز آ چکے تھے۔ وہ بہت سی دواﺅں اور سفوف اور مالشوں کا استعمال کر چکا تھا لیکن کسی سے فائدہ نہ ہوا اور کوئی طبیب اسے اچھا نہ کر سکا۔ ایک بار یونان بادشاہ کے دارالسلطنت میں ایک بڑا اور بوڑھا حکیم آیا۔
اس کا نام دوبان حکیم تھا۔ اس نے یونانی‘ فارسی‘ رومی‘ عربی اور سریانی کتابوں کا ماطالعہ کیا تھا اور طب اور نجوم اور ان کے اصول و قواعد میں بڑا ماہر تھا اور ان کے نفع و نقصان سے بخوبی واقف تھا اور مفید مضر نباتات اور جڑی بوٹیوں کی پہچان میں بڑی دسترس رکھتا تھا۔ فلسفی تھا اور طباعت وغیرہ کے ہر پہلو سے واقف۔
جب یہ حکیم شہر میں آیا اور کچھ دنوں وہاں رہا تو اس نے سنا کہ بادشاہ کو کوڑھ کی بیماری ہے اور سارے حکیم اور طبیب اس کے علاج سے عاجز آ چکے ہیں۔
جب حکیم کو اس کی خبر پہنچی تو وہ رات بھر سوچنا رہا اور جب صبح ہوئی اور روشنی پھیلی تو اس نے اپنے بہترین کپڑے پہنے اور یونان بادشاہ کے پاس پہنچا اور اس کے سامنے زمین کو بوسہ دیا اور کہا کہ خدا تیری عزت آبرو اور دولت ہمیشہ قائم رکھے اور بہترین تقریر کی اور اپنا تعارف کرایا۔ اس کے بعد کہا کہ بادشاہ سلامت‘ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے بدن میں کوئی مرض ہے۔
اور بہت سے طبیب اس کے دور کرنے سے عاجز آ گئے ہیں۔ جب یونان بادشاہ نے یہ سنا تو اسے تعجب ہوا اور اس نے پوچھا کہ آخر پھر کس طرح علاج ہوگا؟ قسم ہے خدا کی اگر تو میرا مرض دور کر دے تو میں تجھے پشت ہا پشت تک دولت مند بنا دوں گا اور تجھے اپنا ہم پیالہ و ہم نوالہ بناﺅں گا۔ پھر بادشاہ نے اسے خلعت عطا کیا اور اسے انعام و اکرام سے سرفراز کیا اور اس سے کہا کہ کیا تو مجھے بے دوا بے مالش اچھا کر دے گا؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں! بادشاہ کو اس پر اور تعجب ہوا اور اس نے حکیم سے کہا کہ اے حکیم جو علاج تو کرنا چاہتا ہے وہ کس روز اور کس وقت ہوگا۔
بیٹا ذرا جلدی کر! اس نے کہا کہ بسروچشم‘ کل ہو جائے گا۔
یہ کہہ کر وہ شہر میں آیا اور ایک مکان کرائے پر لیا اور اس میں اپنی کتابیں اور دوائیں اور جڑی بوٹیاں رکھیں۔ پھر دواﺅں اور جڑی بوٹیوں سے ایک پولو کا بلا بنایا اور اسے اندر سے خالی رکھا اور اس کا ایک دستہ بنایا اور اپنے علم کی بنا پر پولو کی گیند۔ جب وہ سب چیزیں بنا چکا تو دوسرے روز بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دربار میں پہنچ کر اس کے سامنے زمین کو بوسہ دیا اور کہا کہ آپ سوار ہو کر میدان میں نکلئے اور اس گیند اور بلے سے پولو کھیلئے۔
بادشاہ کے ساتھ ساتھ سارے امرا اور وزرا اور شرفا ہو لیے۔ جوں ہی یہ سب میدان میں جمع ہوئے تو دوبان حکیم وہاں پہنچا اور بادشاہ کو بلا دے کر کہنے لگا کہ اسے اس طرح پکڑئیے اور میدان میں بڑھئے اور ہاتھوں کو خوب جھونک دے کر گیند پر بلا ماریئے، یہاں تک کہ آپ کے ہاتھ اور سارا بدن پسینے پسینے ہو جائے۔ اس طرح سے دوا ہتھیلیوں میں سے ہو کر جسم میں سرایت کرے گی۔
جب آپ کھیل چکیں اور دوا سرایت کر چکی ہو تو محل واپس جائیے اور حمام میں جا کر نہائیے اور سو رہئے بس۔ آپ اچھے ہو جائیں گے۔
یہ سن کر یونان بادشاہ نے حکیم کے ہاتھوں سے بلا لے لیا اور اسے اپنے ہاتھوں میں خوب زور سے پکڑا اور گھوڑے پر سوار ہوا اور گیند کو اپنے آگے پھینکا اور خود اس کے پیچھے دوڑا اور پاس پہنچ کر اسے زور سے مارا اور بلے کو مضبوط پکڑے رہا۔
اس طرح وہ گیند کو مارتا اور اس کے پیچھے دوڑتا اور پھر مارتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ دونوں ہتھیلیاں اور سارا بدن پسینے پسینے ہوگیا اور دوا دستے میں ہو کر سرایت کر گئی۔ جب دوبان حکیم کو یقین آگیا کہ دوا سارے بدن میں سرایت کر چکی ہے ۔تو اس نے کہا کہ اب آپ محل میں تشریف لے جائیے اور فوراً حمام کیجیے۔ یونان بادشاہ فوراً واپس گیا اور حکم دیا کہ اس کے لیے حمام خالی کیا جائے۔
جب حمام خالی ہوچکا تو فراشوں نے اس میں فوراً فرش بچھایا اور غلام حاضر ہوئے اور کپڑے لائے۔ بادشاہ حمام میں داخل ہوا اور دل کھول کر نہایا اور وہیں حمام کے اندر کپڑے بدلے اور وہاں سے نکلا اور گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے محل میں آیا اور سو گیا۔
یہ تو بادشاہ کا حال ہوا۔ اب دوبان حکیم کا ماجرا سنئے! وہ اپنے گھر آیا اور سو رہا۔ جب صبح ہوئی تو وہ بادشاہ کے یہاں گیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔
بادشاہ نے اندر بلا لیا۔ وہ اندر آیا اور بادشاہ کے سامنے زمین کو بوسہ دیا اور اس کے لیے تشبیہ یہ اشعار گا کر پڑھے:
”جب بزرگیاں تیری طرف منسوب کی جاتی ہیں تو ان کا دماغ آسمان پر چڑھ جاتا ہے اور اگر کبھی کسی دوسرے کی طرف منسوب کی جائیں تو انکار کر دیں گی۔“
”تیرا چہرہ ایسا ہے کہ بھیانک سے بھیانک چیز کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے۔
خدا کرے کہ تیرا چہرہ ہمیشہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا رہے‘ خواہ زمانے کا چہرہ کتنا غضبناک کیوں نہ ہو۔“
”تو نے اپنے فضل و کرم سے مجھ پر وہ احسان کئے ہیں جو بادل پہاڑیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔“
”تو نے اپنا مال نیکی کرنے میں اس قدر خرچ کیا ہے کہ بالآخر تو بلندی کے اعلیٰ زینے پر پہنچ گیا ہے۔“
جب وہ یہ اشعار پڑھ چکا تو بادشاہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے پہلو میں بیٹھنے کو جگہ دی اور بہترین خلعت عطا کئے۔

جب بادشاہ حمام سے نکلا تھا اور اپنے بدن پر نظر ڈالی تھی تو کوڑھ کا کوئی اثر باقی نہ تھا بلکہ اس کا جسم سفید چاندی کی طرح صاف تھا۔ بادشاہ اس پر خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور اس کے دل کو بڑی خوشی ہوئی۔ جب صبح ہوئی اور وہ دربار میں آیا اور تخت پر بیٹھا تو وزیر اور ملک کے شرقا ادھر ادھر کھڑے ہوئے اور دوبان حکیم داخل ہوا۔ جب بادشاہ نے اسے دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا اور عمدہ عمدہ کھانے لائے گئے اور اسے اپنے ساتھ کھلایا اور دن بھر اسے اپنی ہمراہی میں رکھا۔

جب رات ہونے کو آئی تو اس نے دوبان حکیم کو دو ہزار دینار دئیے اور بہت سے خلعت اور اس کے علاوہ اور بھی بہت انعام و اکرام کیا اور اس کو اپنا خاص گھوڑا سواری کے لیے دیا اور وہ اپنے گھر واپس گیا۔ یونان بادشاہ اس کے اس علاج پر سخت تعجب کرتا اور کہتا کہ اس شخص نے میرا علاج بیرونی طریقے سے کیا اور تیل سے مالش تک نہ کی۔ خدا کی قسم‘ یہ بڑی حکمت کا کام ہے۔
ایسے شخص کے ساتھ جتنا انعام و اکرام کیا جائے، کم ہے۔ بادشاہ نے اسے اپنا رفیق اور دوست بنا لیا۔ اس نے رات خوشی خوشی گزاری کیونکہ اس کے بدن سے بیماری دور ہوگئی تھی اور وہ بالکل تندرست ہو گیا تھا۔ جب صبح ہوئی تو یونان بادشاہ باہر نکلا اور شاہی کرسی پر بیٹھا اور ملک کے رﺅسا دست بستہ کھڑے ہوئے اور وزرا اور امرا اس کے داہنے بائیں بیٹھے۔
اس وقت اس نے دوبان حکیم کو یاد کیا۔ وہ آیا اور اس کے سامنے زمین کو بوسہ دیا۔ بادشاہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اپنے پہلو میں جگہ دی اور اس کے ساتھ کھانا کھایا اور دعا مانگی کہ خدا اس کی زندگی زیادہ کرے اور اسے خلعت عطا کئے اور انعام دیا اور رات تک اس کے ساتھ بات چیت کرتا رہا۔ پھر اس نے حکم دیا کہ اسے اور پانچ خلعت اور ایک ہزار دینار دئیے جائیں۔
حکیم بادشاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوا گھر واپس آیا۔ جب صبح ہوئی تو بادشاہ اپنے دربار میں آیا۔ امراء وزرا اور خدام اس کے ارد گرد کھڑے ہوئے۔ راوی کہتا ہے کہ بادشاہ کا ایک وزیر تھا جو نہایت بدصورت اور کمینہ اور کنجوس اور حاسد تھا اور حسد کرنے میں اسے بڑا مزہ آتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ نے دوبان حکیم کو اپنا مقرب بنایا ہے اور اسے اس قدر انعام دئیے ہیں تو اس کے دل میں حسد کی آگ بھڑکنے لگی اور وہ اسے نقصان پہنچانے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔
کیونکہ ضرب المثل ہے کہ کوئی جسد نہیں جس میں حسد نہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظلم ہر شخص کے اندر پایا جاتا ہے۔ فرق محض اتنا ہے کہ طاقتور اسے ظاہر کر دیتا ہے اور کمزور اسے چھپائے رکھتا ہے۔ الغرض وزیر یونان بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے آگے زمین کو بوسہ دیا اور کہنے لگا کہ جہاں پناہ‘ میں نے آپ ہی کی نیکیوں کے اندر پرورش پائی ہے اور میں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔
اگر میں اسے اپنے دل میں چھپائے رکھوں تو حرام زادہ ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو کہوں۔ بادشاہ کو یہ سن کر پریشانی ہوئی اور وہ کہنے لگا کہ آخر وہ کون سی نصیحت ہے؟ وزیر نے کہا کہ اے جلیل القدر بادشاہ! بزرگوں کا قول ہے کہ جو کوئی انجام کو نہیں سوچتا‘ زمانہ اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ بادشاہ ٹھیک کارروائی نہیں کر رہا وہ اپنے ایسے دشمن پر جو اس کے ملک کا ستیاناس کرنا چاہتا ہے انعام و اکرام کر رہا ہے اور اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آتا ہے اور اسے بہت بڑا مرتبہ دے رکھا ہے اور اپنا مقرب بنایا ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ کہیں بادشاہ کو نقصان نہ پہنچے۔ بادشاہ بہت گھبرایا اور اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے پوچھا کہ تیرا گمان کس طرف ہے اور تو کس کی طرف اشارہ کر رہا ہے؟ وزیر نے کہا کہ اگر آپ سو رہے ہوں تو جاگ جائیے۔ میرا اشارہ دوبان حکیم کی طرف ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ لعنت ہو تجھ پر! وہ تو میرا دوست ہے اور میں اسے سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں کیونکہ اس نے میرا علاج ایک ایسی دوا سے کیا جسے میں نے محض ہاتھ میں لیا اور بیماری جاتی رہی۔
اس بیماری کے علاج سے تمام حکیم عاجز آ چکے تھے۔ اس کا ثانی اس زمانے میں نہیں‘ نہ دنیا کے مشرق میں نہ مغرب میں۔ اس کے متعلق تو ایسی بات کہتا ہے! میں آج ہی سے اس کا روزینہ اور تنخواہ مقرر کئے دیتا ہوں۔ ہر مہینے اسے ایک ہزار دینار دیا کروں گا۔ اگر میں اسے اپنے ملک کا بھی ساجھے دار بنا لوں تو کم ہے۔ میں خوب سمجھتا ہوں کہ تو محض حسد کی وجہ سے یہ باتیں کرتا ہے۔ جیسے سندباد بادشاہ کے ساتھ پیش آیا ہے۔
شہر زاد نے یہاں تک بیان کیا تھا کہ اسے صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles