PacheesveeN Raat - Article No. 1673

PacheesveeN Raat

پچیسویں رات - تحریر نمبر 1673

جب درزی کی بیوی نے کبڑے کو مچھلی کا بڑا سا لقمہ دیا تو اس کی قضا آ چکی تھی اور وہ فورا مر گیا

بدھ 24 جنوری 2018

جب پچیسویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔ جب درزی کی بیوی نے کبڑے کو مچھلی کا بڑا سا لقمہ دیا تو اس کی قضا آ چکی تھی اور وہ فوراً مر گیا۔ درزی نے کہا کہ لاحول ولا قوة الا باللہ اس کی موت اس طرح ہمارے ہاتھوں لکھی ہوئی تھی۔ درزی کی بیوی نے کہا کہ اب دیر کیسی! اس کے شوہر نے کہا کہ کیا کیا جائے؟ اس نے جواب دیا کہ اٹھ اور اپنی گود میں لے اور اس کے اوپر ایک ریشمی رومال ڈال اور چل۔

میں تیرے آگے چلوں گی اور تو پیچھے پیچھے آئیو۔ رات تو ہے ہی۔ اگر کوئی پوچھے تو کہیو کہ یہ میرا بیٹا ہے اور یہ اس کی ماں اور ہم دونوں اسے حکیم کے پاس لے جارہے ہیں تاکہ اس کی نبض دیکھے۔ درزی یہ سن کر اٹھ کھڑا ہوا اور کبڑے کو گود میں اٹھا کر چل دیا۔ اس کی بیوی کہتی جاتی تھی کہ بیٹا خدا تجھے تندرستی دے، تیرے کہاں درد ہوتا ہے؟ اور چیچک تیرے کس جگہ نکلی ہے؟ جو کوئی انہیں راہ میں ملتا تو وہ کہتے کہ ہم بیمار بچے کو لیے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح وہ حکیم کے گھر کا پتہ پوچھتے چلے جارہے تھے اور لوگوں نے انہیں ایک یہودی حکیم کے گھر پہنچا دیا۔ انہوں نے دستک دی اور ایک کالی لونڈی نے آکر دروازہ کھولا اور دیکھا کہ ایک شخص بچے کو لیے کھڑا ہے اور اس کی بیوی ساتھ ہے۔ لونڈی نے پوچھا کہ کیا ہے۔ درزی کی بیوی نے جواب دیا کہ ہم ایک بچے کو لائے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکیم جی اسے دیکھیں۔
یہ چوتھائی دینار لے اور اپنے آقا کو دے اور اس سے کہہ کہ اتر کر میرے بیٹے کو دیکھ لے کیونکہ وہ بیمار ہے۔ لونڈی اوپر گئی اور درزی کی بیوی دروازے کے اندر جا کر اپنے شوہر سے کہنے لگی کہ کبڑے کو یہاں لا کر چھوڑ دے اور ہم یہاں سے اپنی جان لے کر بھاگ چلیں۔ درزی نے کبڑے کو دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا کر دیا اور اپنی بیوی کو لے کر وہاں سے چلتا ہوا۔

اب لونڈی کا قصہ سنئے! وہ یہودی کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ دروازے پر ایک شخص ہے‘ جس کے ساتھ ایک بیمار عورت ہے، انہوں نے مجھے ربع دینار دیا ہے کہ تجھے دوں اور تُو اُتر کر اس کی نبض دیکھے اور نسخہ لکھ دے۔ جب یہودی نے وہ ربع دینار دیکھا تو خوش ہو گیا اور اٹھ کر فوراً اندھیرے میں نیچے اترا اور اترتے ہی اس کا پاؤں کبڑے پر پڑا اور وہ گر گیا کیونکہ وہ مردہ تو تھا ہی۔
یہودی کہنے لگا کہ عزیز کی دہائی۔ دہائی موسیٰ اور دس حکام کی! دہائی ہارون اور یوشع بن نون کی! میں ہی نے اس بیمار کو گرا کر مار ڈالا! اب میں اس مردے کو کس طرح باہر نکالوں! یہ کہہ کر اس نے مردے کو لادا اور گھر کے اندر گیا اور اپنی بیوی سے سارا ماجرا بیان کیا۔ بیوی نے اس سے کہا کہ یہاں ٹھہرنے سے کیا فائدہ! اگر تو صبح تک یونہی ٹھہرا رہا تو ہم دونوں کی جان جائے گی۔
چل ہم دونوں اسے چھت پر لے چلیں اور اپنے مسلمان پڑوسی کے گھر میں پھینک دیں۔
یہ پڑوسی سلطان کے باورچی خانے کا خانساماں تھا اور وہ بہت سا روغن اور چربی اپنے گھر لاتا اور بلیاں اور چوہے اسے آکر کھاتے اور جب رات ذرا زیادہ ہو جاتی تو چھتوں پر سے کتے آتے اور اسے کھینچ کر لے جاتے۔ اس طرح سے جو چیزیں وہ گھر لاتا‘ جانور اسے بہت نقصان پہنچاتے۔
اب یہودی اور اس کی بیوی کبڑے کو لے کر چھت پر گئے اور اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر اسے نیچے اتار دیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا کر دیا اور گھر واپس چلے گئے۔ انہوں نے ابھی کبڑے کو اتارا ہی تھا کہ خانساماں گھر آیا اور دروازہ کھولا اور ایک شمع جلا کر گھر میں داخل ہوا اور دیکھا کہ روشن دان کے نیچے ایک کونے میں کوئی کھڑا ہے۔ خانساماں نے کہا کہ واہ! واللہ کیا خوب ہے! ہماری چیزیں چرانے والا ایک انسان ہے! اب وہ اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا۔
یہ گوشت اور چربی تو لے جاتا ہے۔ میں اب تک اس خیال میں تھا کہ بلیاں اورکتے لے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے میں نے محلے کے تمام کتے اور بلیاں مار ڈالی ہیں اور ان کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ چھتوں پر سے اترنے والا تو ہے! یہ کہہ کر اس نے ایک بڑا ہتھوڑا لیا اور اسے چھپا کر لایا اور کبڑے کے پاس جا کر اس کے سینے پر مارا۔ اب اس نے دیکھا کہ وہ مر گیا تو اسے بہت افسوس ہوا اور کہنے لگا کہ لاحول ولا قوة الا باللہ اور ڈرا کہ کہیں مجھ پر کوئی مصیبت نہ آ جائے اور کہنے لگا کہ خدا لعنت بھیجے روغن اور چربی پر جس کی وجہ سے اس شخص کی موت میرے ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی۔
اب اس نے اس کی طرف غور سے نظر کی تو دیکھا کہ وہ کبڑا ہے اور کہنے لگا کہ کیا تیرے لیے کبڑا ہونا ہی کافی نہ تھا کہ تو چوری بھی کرتا ہے اور گوشت اور روغن چراتا ہے، اے ستار میری پردہ پوشی کر۔ یہ کہہ کر اس نے اسے اپنے کاندھے پر لادا اور چونکہ رات آخری تھی‘ اس لیے اسے قریب کے بازار میں لے گیا اور نکڑ کے پاس ایک دکان سے لگا کر کھڑا کر دیا اور اسے وہاں چھوڑ کر چلتا ہوا۔
اتنے میں وہاں ایک عیسائی پہنچا جو سلطانی سند یافتہ دلال تھا۔ وہ نشے میں چور حمام جارہا تھا کیونکہ وہ نشے میں خیال کر رہا تھا کہ صبح کی اذان کا وقت قریب ہے۔ وہ جھومتاہوا چلا جاتا تھا کہ کبڑے کے قریب پہنچا اور اس کے آگے پیشاپ کرنے بیٹھ گیا۔ اب اس نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہاں ایک شخص کھڑا ہوا ہے۔ اسی شام کو کوئی شخص اس کی پگڑی لے کر بھاگا تھا۔
جب اس نے کبڑے کو وہاں کھڑا ہوا دیکھا تو اس کو یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ بھی اس کی پگڑی نہ لے بھاگے۔ لہٰذا اس نے کبڑے کی گردن پر ایک مکا مارا اور وہ زمین پر گر پڑا۔ اب عیسائی نے چلا کر بازار کے چوکیدار کو آواز دی اور نشے کی زیادتی کی وجہ سے کبڑے پر چڑھ بیٹھا اور اسے گھونسے مارنے لگا اور گلا گھوٹنے لگا۔ جب چوکیدار وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ عیسائی ایک مسلمان کے سینے پر سوار ہے اور اسے مکے مار رہا ہے۔
اس پر چوکیدار نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ عیسائی نے جواب دیا کہ یہ شخص میری پگڑی لے کر بھاگنے آیا ہے۔ چوکیدار نے کہا کہ اٹھ اس کے اوپر سے‘ اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ چوکیدار آگے بڑھا اور دیکھا کہ وہ مردہ ہے۔ اس پر اس نے کہا کہ کیا خوب! عیسائی اور مسلمان کو قتل کرے!
اب چوکیدار نے عیسائی کو پکڑ کر اس کی مشکیں باندھیں اور اسے شہر کے حاکم کے گھر لے گیا۔
عیسائی اپنے دل میں کہتا تھا کہ یا مسیح‘ یا باکرہ مریم‘ یہ میرے ہاتھ سے کس طرح مارا گیا! ایک ہی مکے میں اس کا کام تمام ہو گیا! اب اس کا نشہ ہرن ہوگیا اور اسے ہوش آگیا اور دلال اور کبڑا اور عیسائی تینوں رات بھر حاکم کے گھر رہے۔ صبح کے وقت حاکم نکلا۔ اور حکم دیا کہ قاتل کو پھانسی دی جائے اور جلاد کو حکم دیا کہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ دیا جائے۔
اس نے عیسائی کے لیے تختے لگوائے اور اسے ان کے نیچے کھڑا کیا اور جلاد آیا اور اس نے عیسائی کی گردن میں رسی ڈالی اور قریب تھا کہ وہ اسے لٹکا دے کہ اتنے میں وہی خانساماں لوگوں کو چیرتا پھاڑتا پہنچا اور دیکھا کہ عیسائی پھانسی پر چڑھایا جارہا ہے اور لوگوں میں گھس پیٹھ کر جلاد سے کہنے لگا کہ رک جا‘ میں اس کا قاتل ہوں۔ حاکم نے پوچھا کہ تو نے اسے کیوں قتل کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں کل رات اپنے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ روشن دان سے اتر کر میری چیزیں چرا رہا ہے۔
اس پر میں نے اس کے سینے پر ایک ہتھوڑا مارا اور وہ مر گیا‘ اور میں اسے لاد کر بازار لے گیا اور اسے فلاں فلاں نکڑ پر کھڑا کر آیا۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ کیا میرے لیے یہ کافی نہیں کہ میں نے ایک مسلمان کو قتل کیا کہ ایک عیسائی بھی میری وجہ سے قتل ہو! میرے علاوہ کسی اور کو پھانسی پر مت چڑھا۔
جب حاکم نے خانساماں کی باتیں سنیں تو اس نے عیسائی دلال کو چھوڑ دیا اور جلاد سے کہا کہ خانساماں کو پھانسی پر چڑھا کیوں کہ وہ خود اقرار کرتا ہے۔
جلاد نے رسی عیسائی کے گلے سے نکال کر خانساماں کے گلے میں ڈال دی اور اسے تختے کے نیچے کھڑا کر دیا اور اسے لٹکانے ہی والا تھا کہ اتنے میں یہودی حکیم پہنچا اور لوگوں کو چیر پھاڑ کر زور زور سے کہنے لگا کہ ایسا مت کر‘ اسے میں نے قتل کیا ہے۔ رات میں اپنے گھر میں تھا کہ ایک مرد اور ایک عورت نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کے ساتھ یہ بیمار کبڑا تھا۔
انہوں نے میری خادمہ کو ربع دینار دیا اور خادمہ نے مجھے آکر واقعہ بیان کیا اور دام میرے حوالے کئے۔ اتنے میں وہ مرد اور عورت کبڑے کو مکان کے اندر لا کر زینے پر بٹھا کر چل دئیے تھے۔ میں اندھیرے میں اسے دیکھنے کے لیے اترا اور اس سے ٹکر لگی اور وہ زینے سے گر کر فوراً مر گیا۔ اب میں ا ور میری بیوی اسے لاد کر چھت پر لائے‘ اور اس خانساماں کا مکان میرے مکان سے لگا ہوا ہے‘ ہم نے اس کبڑے کو روشندان کی راہ سے خانساماں کے گھر میں اتار دیا‘ مگر وہ مردہ تھا اور جب خانساماں اپنے گھر آیا تو خیال کیا کہ یہ کوئی چور ہے اور اس پر ایک ہتھوڑا مارا اور زمین پر گر پڑا۔
اس لیے اسے گمان ہو اکہ اس نے اسے قتل کیا ہے۔ ایک مسلمان کا لا علمی میں قتل کرنا میرے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک دوسرے مسلمان کا خون جان بوجھ کر اپنی گردن پر لوں۔
جب حاکم نے یہودی کی باتیں سنیں تو اس نے جلاد سے کہا کہ خانساماں کو چھوڑ دے اور یہودی کو پھانسی پر چڑھا۔ جلاد نے اسے پکڑ کر اس کے گلے میں رسی ڈال دی۔
اتنے میں درزی پہنچا اور لوگوں کو چیرتا پھاڑتا جلاد سے کہنے لگا کہ رک جا‘ اس کا قاتل میں ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کل دن میں شیر تماشے کے لیے گیا ہوا تھا اور جب رات کو گھر واپس آرہا تھا تو دیکھا کہ یہ کبڑا نشے میں چور ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک ڈھپلی ہے اور وہ گا رہا ہے۔
میں اس کے پاس گیا اور اسے اپنے گھر لے آیا اور میں نے مچھلیاں خریدیں اور ہم جب کھانے بیٹھے تو میری بیوی نے ایک ٹکڑا مچھلی کا لیا اور اس کا لقمہ بنا کر اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ اس کا کچھ حصہ اس کے گلے میں اٹک گیا اور وہ فوراً مر گیا۔ اب میں اور میری بیوی یہودی کے گھر پہنچے اور ایک خادمہ نے آکر دروازہ کھولا اور ہم نے کہا کہ اپنے آقا سے جا کر کہہ کہ دروازے پر ایک مرد اور ایک عورت آئے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک بیمار ہے۔
تو آکر اسے دیکھ۔ یہ کہہ کرمیں نے اسے ربع دینار دیا اور وہ اپنے آقا کے پاس گئی۔ اب میں نے کبڑے کو لے کر زینے کے سرے پر ٹیک لگا کر کھڑا کر دیا اور میں اور میری بیوی چلتے ہوئے۔ جب یہ یہودی اترا تو اس کی ٹھوکر کبڑے کے لگی اور اس کو گمان ہوا کہ اسی کہ وجہ سے یہ مر گیا ہے۔ درزی نے یہودی سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ صحیح ہے ناں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں۔
اب درزی حاکم کی طرف مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ یہودی کو چھوڑ دے اور مجھے پھانسی چڑھا۔
جب حاکم نے اس کی باتیں سنیں تو اسے اس کبڑے کے معاملے میں سخت تعجب ہوا اور کہنے لگا کہ اس کو قلم بند کر لیا جائے۔ اب اس نے جلاد سے کہا کہ یہودی کو چھوڑ دے اور درزی کو پھانسی پر چڑھا کیونکہ وہ خود قتل کا اقرار کرتا ہے۔ جلاد نے اسے آگے بڑھایا اور کہنے لگا کہ میں تو تھک گیا ہوں‘ ایک کو آگے بڑھاتا اور دوسرے کو پیچھے ہٹاتا ہوں‘ اور پھانسی پر کوئی بھی نہیں چڑھتا۔
یہ کہہ کر اس نے درزی کے گلے میں رسی ڈال دی۔
یہ تو ان لوگوں کا قصہ ہوا۔ اب کبڑے کا حال سنئے۔ وہ سلطان کا مسخرہ تھا اور سلطان اس سے کبھی جدا نہ ہوتا تھا۔ جب کبڑا متوالا ہو گیاا ور بادشاہ کی خدمت میں اس رات حاضر نہ ہوا اور دوسرے دن دوپہر تک بھی نہ آیا تو بادشاہ نے درباریوں سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اے ہمارے آقا‘ شہر کے حاکم کو وہ مردہ ملا ہے اور اس نے قاتل کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا ہے لیکن جب حاکم قاتل کو پھانسی دینے نیچے اترا تو ایک دوسرا شخص پہنچا اور پھر ایک تیسرا اور سب کے سب یہی کہتے ہیں کہ سوائے میرے اور کسی نے اسے قتل نہیں کیا اور سب حاکم کو قتل کا سبب بتاتے ہیں۔
جب بادشاہ نے یہ باتیں سنیں تو اس نے حاجب کو آواز دی اور کہا کہ حاکم کے پاس جا کر ان سب کو یہاں لے آ۔ جب حاجب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ جلاد درزی کو پھانسی دینے جارہا ہے۔ حاجب نے کہا کہ ٹھہر جا اور حاکم کو بادشاہ کا پیغام پہنچایا اور کبڑے کو سواری پر لاد کر اور حاکم اور درزی اور عیسائی اور خانساماں کو ساتھ لے کر چل دیا۔ جب حاکم بادشاہ کے سامنے پہنچا تو اس نے زمین کو بوسہ دیا اور سارے لوگوں کو قصہ سنایا اور اسے دہرانے میں کوئی فائدہ نہیں۔
جب بادشاہ نے یہ قصہ سنا تو حیران رہ گیا اور اسے بڑی مسرت ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ اسے سونے کے پانی سے لکھا جائے۔ اب اس نے حاضرین سے پوچھا کہ تم میں سے کس نے اس کبڑے سے زیادہ عجیب و غریب قصہ سنا ہے۔ یہ سن کر عیسائی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ جہاں پناہ‘ اگر اجازت دے تو میں ایک اپنی سرگزشت بیان کروں جو کبڑے کے قصے سے زیادہ عجیب و غریب اور مضحکہ انگیز ہے۔
بادشاہ نے کہا کہ بیان کر اپنی سرگزشت۔
عیسائی دلال کی کہانی:
اس نے کہا کہ جہاں پناہ‘ جب میں اس ملک میں آیا تو تجارت کا مال لے کر آیا تھا۔ تقدیر مجھے یہاں لے آئی ہے۔ مگر میری پیدائش کی جگہ مصر ہے اور میں وہاں کے قبطیوں میں سے ہوں اور میری تعلیم و تربیت وہیں ہوئی ہے۔ میرا باپ دلال تھا۔ جب میں بالغ ہوا تو میرے باپ کا انتقال ہوگیا اور میں دلالی کرنے لگا۔
ایک روز میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک نہایت خوبصورت جوان آیا جو نہایت اچھے کپڑے پہنے ہوئے گدھے پر سوار تھا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو سلام کیا اور میں اس کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے ایک رومال نکالا‘ جس میں کچھ تل تھے اور کہنے لگا کہ ان تلوں کا فی اردب کیا بھاؤ ہے؟ میں نے کہا کہ سو درہم۔ اس نے کہا کہ حمالوں اور تولنے والوں کو لے کر خان الجوالی میں جو باب النصر میں ہے ‘ آ اور میں تجھے وہیں ملوں گا، یہ کہہ کر وہ مجھے چھوڑ کر چلتا ہوا اور مجھے وہ رومال دیتا گیا‘ جس میں تلوں کا نمونہ تھا۔
اب میں نے خریداروں کا چکر لگایا اور معلوم ہوا کہ ایک اردب کی قیمت ایک سو بیس درہم ہے اور میں چار حمال لے کر اس کے پاس گیا اور دیکھتا ہوں کہ وہ میری راہ دیکھ رہا ہے۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو مخزن کا دروازہ کھول کر اسے بالکل خالی کر دیا۔ جب تل تولے گئے تو پچاس اردب نکلے جن کی قیمت پانچ ہزار درہم ہوئی۔ جوان نے کہا کہ میں تجھے فی اردب دس درہم دلالی کے دوں گا۔
تُو اس کی قیمت وصول کرکے میرے چار ہزار پانچ سو درہم اپنے پاس جمع کر لیجو۔ جب میں اپنا سامان بیچ کر فارغ ہو جاؤں گا تو آکر تجھ سے اپنے دام لے جاوٴں گا۔ میں نے کہا کہ بہت خوب‘ اور اس کے ہاتھ چوم کر میں چلا گیا اور اس دن مجھے ایک ہزار پانچ سو درہم کا فائدہ ہوا۔
اب وہ ایک مہینے کے بعد پھر آیا اور کہنے لگا کہ درہم کہاں ہیں؟ میں نے اٹھ کر سلام کیا اور کہا کہ ہمارے یہاں کچھ کھانا کھا لے۔
لیکن اس نے نہ مانا اور کہا کہ درہم تیار رکھ‘ میں اس وقت جا رہا ہوں‘ پھر آکر تجھ سے لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں اٹھا اور اس کے درہم لایا اور اس کی راہ دیکھنے لگا۔ اب وہ ایک مہینے کے بعد لوٹا اور کہنے لگا کہ درہم کہاں ہیں؟ میں نے اٹھ کر سلام کیا اور کہا کہ کچھ کھانا کھا لے۔ لیکن اس نے انکار کیا اور کہا کہ درہم تیار رکھ میں اس وقت جا رہا ہوں‘ پھر آ کر تجھ سے لے جاؤں گا۔
یہ کہہ کر وہ چل دیا۔ میں اٹھا اور اس کے درہم لایا اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن وہ ایک مہینے تک نہ لوٹا۔ میں نے اپنے دل میں کہا یہ جوان بڑے دل والا ہے۔ اب ایک مہینے کے بعد وہ ایک خچر پر سوار آیا اور عمدہ پوشاک پہنے ہوئے تھا اور اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ ابھی حمام سے نکلا ہے کیونکہ اس کا چہرہ چاند کی طرح تھا اور رخسار سرخ تھے اور پیشانی چمک رہی تھی اور اس پر ایک تل عنبر کی ٹکیہ کی طرح تھا۔
جب میں نے اسے دیکھا تو اس کے ہاتھ چومے اور اس کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اسے دعا دی اور اس سے کہا کہ اے میرے آقا‘ تو اپنے درہم کیوں نہیں لے جاتا۔ اس نے کہا کہ جلدی کیا ہے! میں اپنے سامان سے فارغ ہو لوں تو آ کر تجھ سے لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلتا ہوا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ واللہ جب وہ اس مرتبہ آئے گا تو ضرور اس کی دعوت کروں گا کیونکہ میں نے اس کے درہموں سے تجارت کی اور بہت فائدہ اٹھایا ہے۔

جب سال تمام ہوا تو وہ آیا اور وہ پہلے سے زیادہ قیمتی پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اسے قسم دے کر کہا کہ میرے یہاں ٹھہر اور میری دعوت کھا۔ اس نے کہا کہ اس شرط سے کہ جو کچھ تو میرے اوپر خرچ کرے وہ میرے داموں میں سے ہو جو تیرے پاس ہیں۔ میں نے کہا کہ بہت خوب‘ اور میں نے اسے بٹھلایا اور کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ جن کی ضرورت تھی‘ لاکر اس کے آگے رکھیں اور کہا کہ بسم اللہ۔
وہ دستر خوان پر بڑھا اور بایاں ہاتھ بڑھایا اور میرے ساتھ کھانے لگا۔ اس پر مجھے تعجب ہوا۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے اس کا ہاتھ دھلایا اور اسے پونچھنے کے لیے تولیہ دیا اور اس کے سامنے کچھ شیرینی پیش کرنے کے بعد ہم دونوں باتیں کرنے لگے۔ اب میں نے اس سے کہا کہ اے میرے سردار‘ میرے دل سے ایک تکلیف دور کر اور مجھے بتا کہ تو نے بائیں ہاتھ سے کیوں کھانا کھایا؟ شاید تیرے داہنے ہاتھ میں کچھ
تکلیف ہے۔
جب اس نے مجھے یہ کہتے سنا تو اس نے آستین سے اپنا ہاتھ نکالا اور میں نے دیکھا کہ وہ کٹا ہوا ہے۔ بازو ہے‘ مگر ہاتھ ندارد۔ اس سے مجھے تعجب ہوا۔ اس نے کہا کہ تعجب مت کر اور اپنے دل میں یہ نہ کہہ کہ میں نے تیرے ساتھ غرور کی وجہ سے بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا۔ میرے دہنے ہاتھ کٹنے کی ایک عجیب و غریب وجہ ہے۔ میں نے کہا کہ وہ کیا؟
اس نے کہا کہ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں بغداد کا رہنے والا ہوں اور میرا باپ وہاں کے سب سے بڑے آدمیوں میں سے تھا۔
جب میں بڑا ہوا تو میں نے سیاحوں اور مسافروں اور سوداگروں سے مصر کے حالات سنے اور میرے دل سے یہ باتیں نہ نکلیں۔ یہاں تک کہ میرے باپ کا انتقال ہو گیا۔ اب میں نے بہت سا مال متاع لیا اور بغدادی اور موصلی کپڑے تجارت کے لیے تیار کئے اور سب کو بند کیا اور بغداد سے چل کھڑا ہوا اور خدا نے سلامتی کے ساتھ تمہارے شہر میں پہنچا دیا۔ یہاں پہنچ کر میں نے اپنے کپڑے خان مسرور میں اتارے اور اپنا ساز و سامان کھول کر سرائے میں داخل اور خادم کو چند درہم دئیے کہ کچھ کھانے کے لیے لے آئے۔
کھانا کھا کر میں ذرا سو گیا۔ جب نیند سے جاگا تو میں بین القصرین کی سڑک پر ٹہلنے چلا گیا۔ وہاں سے لوٹ کر میں نے رات گزار دی اور جب صبح ہوئی تو میں نے کپڑوں کی ایک گٹھٹری کھولی اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ میں کسی بازار میں جا کر مول تول دریافت کروں گا۔ اس لیے میں نے کچھ کپڑے لے کر ایک غلام کے سر پر لادے اور چلتے چلتے قیصریہ جرجس پہنچا۔
یہاں مجھے دلال ملے کیونکہ انہیں میرے آنے کا علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کپڑے لے کر آواز لگائی لیکن کوئی خریدار خرید کی قیمت دینے پر راضی نہ ہوا۔ اس پر مجھے سخت رنج ہوا۔ اب دلالوں کے چودھری نے مجھ سے کہا کہ اے میرے آقا‘ میں تجھے ایک ترکیب بتاتا ہوں جس سے تجھے فائدہ ہوگا اور وہ ترکیب یہ وہی ہے جو اور سوداگر کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ تو اپنا مال میعاد پر ادھار بیچ اور بیع نامہ کاتب سے لکھوا کر اور گواہ کی گواہی لے کر صراف کے حوالے کر دے اور ہر جمعرات اور پیر کو دام وصول کر لیا کر۔
اس طرح تجھے ہر درہم پر دو درہم بلکہ زیادہ کا فائدہ ہوگا۔ باقی وقت میں مصر اور نیل کی سیر کیا کر۔
میں نے کہا کہ یہ رائے معقول ہے۔ اب میں دلالوں کو ساتھ لے کر سرائے میں گیا۔ اور وہ کپڑے لاد کر قیصریہ لائے اور میں نے انہیں بیچا اور ان سے بیع نامہ لکھوا کر صراف کے حوالے کر دیا اور اس سے رسید لے کر سرائے واپس گیا اور کئی روز تک بیٹھا رہا اور ہر روز ایک پیالے شراب کا ناشتہ کرتا تھا اور کل مہینے کے لیے چوزے کا گوشت اور مٹھائی جمع کر رکھی‘ یہاں تک کہ دوسرا مہینہ آ پہنچا جو دام وصول کرنے کا مہینہ تھا۔
میں ہر جمعرات اور پیر کو قیصریہ جا کر سوداگروں کی دکانوں پر بیٹھ جاتا اور عصر کے بعد تک صراف اور کاتب سوداگروں سے دام وصول کر کے لاتے جاتے، میں ان کو گنتا اور مہر لگا کر سرائے لے جاتا۔
ایک روز پیر کو یہ واقعہ پیش آیا کہ میں حمام کرکے سرائے میں آیا اور اپنی جگہ پہنچ کر ایک پیالے شراب کا ناشتہ کیا اور سو گیا۔ جو سو کر اٹھا تو میں نے مرغی کا گوشت کھایا اور عطر لگا کر ایک سوداگر کی دکان پر پہنچا جس کا نام بدرالدین البستانی تھا۔
جب اس نے مجھے دیکھا تو مرحبا کہا اور میرے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ یہاں تک کہ بازار کھلا اور دکان پر ایک عورت آئی جس کی چال میں لچک تھی اور جو مٹکتی ہوئی چلتی تھی۔ اس کے ساتھ بہت سی کنیزیں تھیں اور اس کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ جب اس نے اپنی نقاب اٹھائی تو میری نظر اس کی کالی کالی آنکھوں پر پڑی۔ اس نے بدرالدین کو سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا اور ٹھہر کر اس سے باتیں کرنے لگا۔
جب میں نے اس کی باتیں سنیں تو میرا دل اس پر آ گیا۔ اس نے بدرالدین سے کہا کہ تیرے پاس کوئی ٹکڑا کپڑے کا ہے‘ جس پر سچے کلابتوں کا کام ہو؟ اس نے ایک ٹکڑا ان ٹکڑوں میں سے نکالا جو اس نے مجھ سے خریدا تھا اور اسے اس عورت کے ہاتھ ایک ہزار دو سو درہم میں بیچا۔ اس نے سوداگر سے کہا کہ میں اس ٹکڑے کو اپنے ساتھ لیے جاتی ہوں اور گھر پہنچ کر تجھے دام بھیج دوں گی۔
سوداگر نے جواب دیا کہ اے میری آقا‘ یہ ممکن نہیں ہے۔ کپڑے کا مالک یہ بیٹھا ہوا ہے اور مجھے اس کی ایک قسط ادا کرنی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ تف ہو تجھ پر! میں ہمیشہ تجھ سے تھان کے تھان بغیر ایک درہم دیے لے جایا کرتی ہوں اور دوسروں سے زیادہ مہنگا خریدتی ہوں اور دام بھیج دیتی ہوں۔ اس نے کہا کہ یہ درست ہے مگر میں آج قیمت لینے پر مجبور ہوں۔
یہ سن کر اس نے کپڑا اس کے سینے پر دے پٹکا اور کہنے لگی کہ تم لوگ کسی کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ یہ کہہ کر وہ چل دی۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ میری جان بھی اس کے ساتھ جا رہی ہے اور میں نے اٹھ کر اسے روک لیا اور کہنے لگا کہ اے میری آقا‘ میرے اوپر مہربانی کر اور میری طرف قدم رنجہ فرما۔ وہ لوٹ آئی اور مسکرا کر کہنے لگی کہ میں تیری خاطر لوٹی ہوں اور دکان پر میرے سامنے بیٹھ گئی۔

میں نے بدرالدین سے کہا کہ اس ٹکڑے کی قیمت تیرے ذمے کتنی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک ہزار ایک سو درہم۔ میں نے کہا کہ اور تیرا نفع سو درہم۔ ایک ورق کاغذ مجھے دے تاکہ میں اس کی رسید تجھے دے دوں۔ یہ کہہ کر میں نے وہ ٹکڑا کپڑے کا اس سے لے لیا اور اسے اپنی دستخطی رسید دے دی۔ یہ ٹکڑا میں نے اس عورت کے حوالے کیا اور اس سے کہا کہ اسے لے جا۔ اگر تیرا جی چاہے تو آئندہ بازار کے دن اس کی قیمت لیتی آئیو اور اگر تو منظور کرے تو یہ میری طرف سے تیری دعوت ہے۔
اس نے کہا کہ خدا تجھے نیک بدلہ دے اور میرا سارا مال تجھے عطا کرے اور تجھے میرا شوہر بنائے۔ اللہ نے اس کی دعا قبول کی۔ اب میں نے اس سے کہا کہ اے میری آقا‘ یہ ٹکڑا تیری نذر ہے اور ایک ایسا ٹکڑا‘ مجھے ایک نظر اپنا چہرہ دکھا دے۔ جب میں نے ایک نظر بھر کر اس کی طرف دیکھا تو میرے دل میں ہزاروں آرزوئیں آنے لگیں اور میں اس کے عشق میں مبتلا ہو گیا اور مجھے اپنے دل پر قابو نہ رہا، اب اس نے اپنی نقاب گرا دی اور کپڑے کا ٹکڑا لے لیا اور کہنے لگی کہ اے میرے آقا‘ مجھے اپنے دل سے نہ بھلائیو۔

یہ کہہ کر وہ چل دی اور میں عصر کے بعد تک قیصریہ میں بیٹھا رہا اور میں دیوانہ وار تھا کیونکہ عشق کا تسلط میرے اوپر ہو چکا تھا۔ محبت نے مجھے یہاں تک مجبور کیا کہ میں اٹھا اور میں نے تاجر سے اس کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا کہ یہ بڑی امیر ہے اور ایک بڑے امیر کی بیٹی ہے‘ اس کا باپ فوت ہو چکا ہے اور اس نے بہت مال اور دولت چھوڑی ہے۔ اب میں اس سے رخصت ہو کر سرائے میں آیا اور میرے آگے رات کا کھانا پیش کیا گیا۔
مگر میرا دھیان اسی میں لگا ہوا تھا اور میں نے بالکل کھانا نہ کھایا۔ پھر میں سونے کے لیے لیٹ گیا مگر بالکل نیند نہ آئی اور صبح تک میں جاگتا رہا۔ صبح کو اٹھ کر میں نے کپڑے بدلے اور ایک پیالہ شراب کا پیا اور تھوڑا سا ناشتہ کیا اور اسی سوداگر کی دکان پر گیا اور اسے سلام کر کے اس کے پاس بیٹھ گیا۔ کل کے وقت پر وہ عورت پھر پہنچی اور اس کا لباس کل سے بھی زیادہ نفیس تھا اور اس کے ساتھ ایک لونڈی تھی، اس نے بدرالدین کو چھوڑ کر مجھے سلام کیا اور ایسی پیاری آواز سے‘ جس سے زیادہ میٹھی اور دلکش میں نے کبھی نہ سنی تھی۔
کہنے لگی کہ کسی کو میرے ساتھ بھیج کہ وہ ایک ہزار سو درہم کپڑے کی قیمت لے آئے۔
میں نے کہا کہ ایسی جلدی کیا ہے! اس نے جواب دیا کہ خدا تیری جدائی نصیب نہ کرے! یہ کہہ کر اس نے مجھے دام دے دئیے اور ہم دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔
اب میں نے اس کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا اور وہ سمجھ گئی کہ میں اس کے وصال کا خواہاں ہوں۔ اس پر وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور مجھے چھوڑ کر چل دی۔
میرا دل تو اس سے پھنسا ہوا تھا ہی‘ میں بھی بازار کے باہر تک اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ اتنے میں ایک لونڈی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اے میرے آقا‘ میری مالکہ تجھ سے باتیں کرنا چاہتی ہے۔ مجھے تعجب ہوا اور میں نے کہا کہ یہاں مجھے کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ لونڈی نے جواب دیا کہ اے میرے آقا‘ تو کتنی جلدی میری مالکہ کو بھول گیا‘ جو آج فلاں تاجر کی دکان پر تھی۔
اب میں اس کے ساتھ صراف کی دکان پر گیا اور جونہی اس نے مجھے دیکھا وہ مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگی کہ اے میرے آقا پیارے‘ تو میرے دل میں سما گیا ہے اور میں تیری محبت میں گرفتار ہو چکی ہوں اور جس وقت سے میں نے تجھ کو دیکھا ہے‘ مجھ پر کھانا پینا اور سونا حرام ہو گیا ہے۔ میں نے کہا کہ میری حالت اس سے دگنی خراب ہے اور شکایت سے گزر چکی ہے۔

اس نے کہا کہ اے میرے پیارے‘ یا تو مجھے اپنے گھر لے چل ورنہ میرے گھر آ۔ میں نے کہا میں پردیسی ہوں اور سوائے سرائے کے میرے اور کوئی جگہ نہیں۔ اگر تو مہربانی کرے تو تیرے گھر چلیں۔ اس نے کہا کہ بہت خوب لیکن آج جمعرات ہے، آج کچھ نہیں ہو سکتا لیکن کل نماز کے بعد۔ نماز پڑھ کر تو اپنے گدھے پر سوار ہو جیو اور حبانیہ کا پتہ پوچھیو، وہاں پہنچ کر برکات النقیب کی حویلی دریافت کیجو جو ابو اشامہ کے نام سے موسوم ہے۔
بس وہیں میں رہتی ہوں۔ دیر مت کیجو کیونکہ میں تیرا انتظار کروں گی۔ اب میں اور بھی زیادہ خوش ہو گیا۔
ہم دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہوئے اور میں سرائے واپس گیا‘ جہاں میں مقیم تھا۔ اور رات بھر جاگتے گزاری اور جب صبح نمودار ہوئی تو مجھے اس کا یقین نہ آتا تھا۔ بہرحال میں اٹھا اور کپڑے بدلے اور عطر لگایا اور ایک رومال میں پچاس دینار باندھ کر مسرور کی سرائے سے باب زویلہ گیا۔
وہاں پہنچ کر میں نے ایک گدھا سواری کے لیے لیا اور گدھے والے سے کہا کہ مجھے حبانیہ پہنچا دے۔ وہ فوراًروانہ ہو گیا اور ذرا سی دیر میں ایک سڑک پر پہنچا، جس کا نام درب المنقری تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ گلی کے اندر جا کر نقیب کی حویلی دریافت کر۔ وہ جاتے ہی واپس آیا اور کہنے لگا کہ اُتر۔ میں نے کہا کہ تُو حویلی آگے آگے چل اور کل یہیں سے آ کر مجھے لے جائیو۔
اس نے کہا بسم اللہ‘ اور میں نے اسے سونے کا ربع دینار دیا اور وہ لے کر چل دیا۔
اب میں نے دروازے پر دستک دی تو دو چھوٹی لڑکیاں باہر نکلیں‘ جن کے سینے ابھرے ہوئے تھے اور جو ابھی باکرہ تھیں اور چاند کی طرح خوبصورت۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اندر آ‘ ہماری آقا تیرا انتظار کر رہی ہے۔ تیرے آنے کی خوشی میں وہ رات بھی نہیں سوئی ہے۔
اب میں حویلی میں داخل ہوا جس میں سات محرابی دروازے اور چاروں طرف کھڑکیاں تھیں، جو ایک باغ کی طرف کھلتی تھیں، جس میں رنگ برنگ کے میوے تھے اور نہریں بہہ رہی تھیں اور چڑیاں چہچہا رہی تھیں، کمرہ اتنا سفید تھا کہ اس میں آدمی اپنا چہرہ دیکھ سکتا تھا‘ اور چھت پر سونے کا کام تھا اور لاجورد کے بیل بوٹے بنے ہوئے تھے ، جن کی تعریف نہیں کی جاسکتی اور جن کے دیکھنے سے آنکھیں چکا چوند ہوتی تھیں۔
اس کا فرش رنگ برنگ مرمر کا تھا اور اس کے بیچ میں ایک حوض تھا اور حوض کے کنارے موتی اور جواہرات کی چڑیاں تھیں۔ اثاث البیت میں قالین اور رنگ برنگ ریشم اور تخت تھے۔ جب میں وہاں داخل ہوا تو بیٹھ گیا۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles