PandharveeN Raat - Article No. 1590

PandharveeN Raat

پندرہویں رات - تحریر نمبر 1590

کشتی میں سے دس غلام اترے جن کے پاس لوہے کے بیلچے تھے، وہاں سے چل کر وہ جزیرے کے وسط میں آئے اور زمین کھودنے لگے

بدھ 15 نومبر 2017

جب پندرہویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تیسرے قلندر نے لڑکی سے کہا‘ در آنحالیکہ لوگوں کی مشکیں بندھی ہوئی تھیں اور غلام تلواریں لیے ان کے سر پر کھڑے تھے‘ کہ میں نے خدا کا نام لیا اور اس سے دعا مانگی اور اس کے سامنے گڑگڑایا اور پہاڑ کے کھدے ہوئے زینوں کو پکڑ کر لٹک گیا۔ میں ابھی پہاڑ پر تھوڑا ہی چڑھنے پایا تھا کہ خدا کے حکم سے ہوا رک گئی اورمجھے چڑھنے میں آسانی ہوگئی۔

میں خوش ہوکر پہاڑ کے اوپر چڑھ گیا۔ وہاں ایک ہی راستہ تھا جو گنبد کو جاتا تھا۔ میں اپنی سلامتی پر بے حد خوش تھا۔ اور گنبد میں داخل ہوگیا اور وضو کرکے دو رکعت شکرانے کی نماز ادا کی کہ خدا نے مجھے صحیح و سلامت پہنچا دیا۔ پھر میں گنبد کے نیچے سوگیا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اے خضیب کے بیٹے‘ جب تو نیند سے جاگیو تو اپنے پاﺅں کے نیچے کھودیو۔

(جاری ہے)

وہاں تجھے ایک پیتل کی کمان اور تین سیسے کے تیر ملیں گے جن کے اوپر طلسم کے الفاظ لکھے ہوئے ہوں گے۔ ان تیروں اور کمان کو لے کر اس سوار پر نشانہ لگائیو جو گنبد کے اوپر ہے۔ اس طرح تو لوگوں کو اس بری بلا سے نجات دے گا۔ جب تو سوار پر تیر چلائے گا تو وہ سمندر میں گر پڑے گا اور کمان تیرے پاس گر پڑے گی۔ کمان کو اسی جگہ گاڑ دیجیو جہاں وہ پہلے تھی۔
جب تو اس سے فارغ ہو جائے گا تو سمندر امڈ کر پہاڑ کے برابر ہو جائے گا اور اس میں سے ایک بجرا نکلے گا جس پر پیتل کا ایک آدمی ہوگا‘ مگر وہ نہیں جس کو تو نے مار کر گرایا ہوگا‘ اور آدمی تیرے پاس آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ایک چپو ہوگا۔ تو اس کے ساتھ کشتی میں بیٹھ جائیو مگر خدا کا نام نہ لیجیو۔ وہ کشتی کھئیے گا اور دس دن تیرے ساتھ سفر کرنے کے بعد تجھے سلامتی کے سمندر میں پہنچا دے گا۔
وہاں پہنچنے پر تجھے لوگ ملیں گے جو تجھے تیرے شہر میں پہنچا دیں گے۔ مگر یہ ساری باتیں اسی وقت ہوں گی جب تو خدا کا نام نہ لے گا۔ اب میں نیند سے جاگا اور مارے خوشی کے اٹھ کھڑا ہوا اور جو کچھ ہاتف نے کہا تھا وہ کیا۔ سوار کو تیر مار کر گرا دیا اور وہ سمندر میں گر پڑا اور کمان میرے پاس گر پڑی۔ کمان کو لے کر میں نے گاڑ دیا۔ اب سمندر میں ہیجان اٹھا اور وہ بلند ہوکر پہاڑ کے برابر آگیا اور مجھ تک پہنچ گیا۔
ابھی ایک لمحہ نہ گرزنے پایا تھا کہ میں نے سمندر میں ایک بجرا دیکھا جو میری طرف آرہا تھا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ جب وہ بجرا میرے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس میں پیتل کا ایک آدمی ہے اور اس کے سینے پر سیسے کی ایک تختی آویزاں ہے جس پر اسما اور طلسمات لکھے ہوئے ہیں۔ میں بجرے میں سوار ہوگیا اور چپ تھا اور بالکل بولتا نہ تھا۔ اس شخص نے کھینا شروع کیا اور ایک دن کھینا دوسرے دن‘ پھر تیسرے دن یہا ں تک کہ پورے دس دن ہو گئے۔
اب میں نے نظر آٹھائی تو سلامتی کے جزیرے دکھائی دیئے۔ میں بہت خوش ہو گیا اور مارے خوشی کے خدا یاد آگیا۔ میں نے خدا کا نام لیا اور لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہا، میرا یہ کہنا تھا کہ بجرے نے مجھے پانی میں الٹ دیا اور لوٹ کر سمندر کی طرف چلتا ہوا۔ مجھے تیرنا آتا تھا اور میں دن بھر رات تک تیرتا رہا یہاں تک کہ میری بانہیں رہ گئیں اور کاندھوں نے جواب دے دیا اور میں تھک گیا اور سوائے موت کے اور کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا۔
میں نے شہادت کا کلمہ پڑھا کیونکہ مجھے موت کا یقین آچکا تھا۔
اب ہوا کی زیادتی کی وجہ سے سمندر میں تلاطم اٹھا اور ایک لہر قلعے کی طرح بلند ہوئی اور اس نے مجھے اٹھا کر پھینک دیا اور میں خشکی پر جا پڑا جیسا کہ خدا کو منظور تھا۔ خشکی میں پہنچ کر میں نے اپنے کپڑے نچوڑنے اور رطوبت دور کرکے ان کو زمین پر پھیلا دیا اور میں سوگیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے کپڑے پہنے اور اٹھ کر دیکھنے لگا کہ کہاں جاﺅں۔
اتنے میں میری نظر ایک نشب زمین پر پڑی اور میں اس کے پاس جا کر چاروں طرف چکر لگانے لگا۔ اب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جہاں میں ہوں وہ محض ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اور چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ جب ایک مصیبت سے نجات پاتا ہوں تو اس سے بڑی دوسری مصیبت میں پھنس جاتا ہوں۔ ابھی میں اپنے بارے میں سوچ ہی رہا تھا اور موت کی آرزو کررہا تھا کہ مجھے دور سے ایک کشتی دکھائی دی جس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور جو اسی جزیرے کی طرف آرہی تھی جس میں میں تھا۔
میں اٹھا اور ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اب کشتی کنارے آلگی اور اس میں سے دس غلام اترے جن کے پاس لوہے کے بیلچے تھے۔ وہاں سے چل کر وہ جزیرے کے وسط میں آئے اور زمین کھودنے لگے۔ کھودتے کھودتے وہ ایک طبق پر پہنچے اور اس کو اٹھایا اور اس کا دروازہ کھول کر وہ کشتی کی طرف لوٹ آئے۔ وہاں سے وہ روٹیاں اور آٹا اور مکھن اور شہد اور بھیڑیں بکریاں اور باقی تمام خانہ داری کی چیزیں لائے۔
غلام اسی طرح کشتی میں آتے جاتے اور غار میں اترتے رہے یہاں تک کہ کشتی کا سارا سامان غار میں لے آئے۔ اس کے بعد پھر غلام بہترین پوشاکیں لے کر نکلے اور ان کے ساتھ ایک بہت بوڑھا شخص تھا جس میں اب کچھ باقی نہ رہا تھا کیونکہ زمانہ اس کو خوب پیس چکا تھا اور اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا‘ گویا کہ وہ مرنے کے قریب تھا۔ وہ ایک نیلی گدڑی پہنے ہوئے تھا جو ہوا سے ادھر ادھر ہلتی جاتی تھی۔
یہ بوڑھا ایک لڑکے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھا جو حسن و جمال اور کمال کے قالب میں ڈھلا ہوا تھا اور اس کی خوب صورتی ضرب المثل ہو سکتی تھی۔ وہ ایک ہری ٹہنی کی مانند تھا اور اپنے حسن کی وجہ سے ہر دل پر جادو کرسکتا اور اپنی آن بان سے ہر عقل کو سلب کرسکتا تھا۔
اے مالکہ چلتے چلتے وہ سب لوگ طبق تک پہنچے اور کم و بیش ایک پہر تک غائب رہے۔
اس کے بعد غلام بوڑھے کے ساتھ باہر نکلے لیکن ان کے ساتھ وہ لڑکا نہ نکلا۔ انہوں نے طبق کے دروازے کو پہلے کی طرح بند کر دیا اور کشتی میں بیٹھ کر میری نظر سے غائب ہوگئے۔ جب وہ چل دیئے تو میں اٹھا اور درخت کے نیچے اترا اور غار کے پاس گیا اور مٹی کھود کر وہاں سے ہٹائی اور اپنے آپ کو دلاسا دیتا رہا یہاں تک کہ ساری مٹی ہٹ گئی اور طبق کھل گیا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا اور چکی کے پاٹ کے سوراخ کے برابر تھا۔
جب میں نے اسے اٹھایا تو اس کے نیچے پتھر کا ایک گول زینہ نظر آیا۔ مجھے اس پر تعجب ہوا اور میں زینے زینے اتر کر سب سے نیچی پیڑی تک پہنچ گیا۔
وہاں میں نے ایک نہایت صاف ستھرا مکان دیکھا جس میں طرح طرح کے فرش اور ریشمیں قالین بچھے ہوئے تھے اور وہی لڑکا ایک بلند دیوان پر ایک گاﺅ تکیہ لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پنکھا تھا اور اس کے سامنے خوشبوئیں اور پھول کھلے ہوئے تھے اور وہ اکیلا تھا۔
جب اس نے مجھے دیکھا تو اس کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ میں نے سلام کیا اور کہا کہ اطمینان رکھ اور ڈر مت‘ تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچنے کا۔ میں بھی تیری طرح انسان ہوں اور بادشاہ زادہ، قمست مجھے تیرے پاس لے آئی ہے کہ تیری تنہائی میں تیرا دل بہلاﺅں۔ بتا تو سہی کہ تیرا قصہ کیا ہے کہ تو تنہا زمین کے نیچے رہتا ہے۔ جب اسے یقین آگیا کہ میں بھی اسی کی جنس سے ہوں تو وہ خوش ہوگیا اور اس کے چہرے کی زردی جاتی رہی اور مجھے اپنے قریب بٹھا کر کہنے لگا کہ بھائی‘ میرا قصہ عجیب و غریب ہے اور وہ یہ ہے کہ میرا باپ ایک جوہری سوداگر ہے جس کا بڑا بیوپار ہے اور جس کے کالے اور سفید غلام سوداگر اس کا مال کشتیوں میں بھر کر دور دراز ملکوں میں تجارت کرتے ہیں اور ان کے ہمراہ اونٹ اور بے شمار مال رہتا ہے۔
لیکن اس کے کوئی اولاد نہ ہوتی تھی۔ ایک روز اس نے خواب میں دیکھا کہ اس کے ایک لڑکا پیدا ہوگا مگر وہ زیادہ نہ جئے گا۔ جب میرا باپ صبح کو اٹھا تو وہ رونے اور چلانے لگا۔ دوسری رات کو میری ماں کے حمل رہ گیا اور باپ نے حمل کی تاریخ لکھ لی۔
جب دن پورے ہوچکے تو میں پیدا ہوا۔ میرا باپ بہت خوش تھا اوراس نے لوگوں کو دعوتیں دیں اور غریبوں اور فقیروں کو کھانا کھلایا کیونکہ میں اس کے بڑھاپے کی اولاد تھا۔
باپ نے منجموں اور زائچہ کھینچنے والوں اور بڑے بڑے حکیموں اور تاریخ دانوں اور جنم پترا بنانے والوں کو بلوایا۔ انہوں نے میری پیدائش کا جنم پترا تیار کیا اور کہا کہ تیرا بیٹا پندرہ سال جئے گا۔ اس عمر میں اس کی لکیر میں ایک رخنہ پایا جاتا ہے، اگر وہ اس سے نکل گیا تو بہت بڑی عمر پائے گا۔ اس کی موت کا سبب یہ ہوگا کہ ہلاکت کے سمندر میں ایک مقناطیس کا پہاڑ ہے جس پر پیتل کا ایک سوار اور ایک گھوڑا ہے‘ سوار کے سینے پر ایک تختی آویزاں ہے۔
جب یہ سوار اپنے گھوڑے پر سے گر پڑے گا تو اس کے پچاس دن کے بعد تیرا بیٹا مر جائے گا اور اس کا قاتل وہی شخص ہوگا جس نے سوار کو مار گرایا ہوگا۔ وہ ایک بادشاہ ہے جس کا نام عجیب بن خضیب ہے۔ یہ سن کر میرے باپ کو بڑا رنج ہوا۔ اس نے میری تعلیم و تربیت کی اور بہت اچھی طرح سے کی یہاں تک کہ میں پندرہ سال کا ہوا۔ دس دن ہوئے کہ میرے باپ کو خبر ملی کہ سوار سمندر میں گر پڑا ہے اور جس شخص نے اس کو گرایا ہے اس کا نام عجیب ہے اور وہ بادشاہ خضیب کا بیٹا ہے، میرا باپ ڈرا کہ کہیں قتل نہ ہو جاﺅں اس لیے اس نے مجھے اس جگہ لا کر رکھا ہے۔
بس یہ ہے میرا قصہ اور میری تنہائی کی وجہ۔
جب میں نے اس کا قصہ سنا تو میں حیران رہ گیا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ میں ہی تو وہ شخص ہوں جس نے یہ سب کیا ہے‘ مگر میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میں کبھی اس کو قتل نہ کروں گا۔ اس کی طرف مخاطب ہوکر میں نے کہا کہ اے دوست تکلیفیں اور اذیتیں اب کافی پہنچ چکی ہیں۔ خدا نے چاہا تو آئندہ نہ تجھے رنج پہنچے گا اور نہ غم اور نہ تشویش ہوگی۔
میں تیرے پاس رہوں گا اور تیری خدمت کروں گا اور ان مخصوص دنوں میں تیری رفاقت کرنے کے بعد میں اپنی راہ لوں گا۔ تو میرے ساتھ چند غلام کر دیجیو جو مجھے میرے شہر تک پہنچا آئیں۔ اس کے بعد میں رات تک اس کے ساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا۔ جب رات ہوئی تو میں اٹھا اور ایک بڑی موم بتی جلائی اور قندیلیوں کو ٹھیک کیا۔ پھر ہماری نظر کھانے پر پڑی اور ہم نے کھانا کھایا اور بیٹھ گئے۔
اس کے بعد میں اٹھا اور مجھے کچھ شیرینی نظر آئی اور ہم نے اسے کھایا اور بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ ختم ہوگیا اور وہ لڑکا سو گیا۔ میں نے اسے چادر اڑھا دی اور خود بھی جا کر سو رہا۔ جب سویرا ہوا تو میں اٹھا اور تھوڑا پانی گرم کیا اور اسے آہستہ سے جگایا۔ جب وہ جاگ پڑا تو میں اس کے پاس گرم پانی لایا۔ اس نے منہ ہاتھ دھویا اور کہا کہ اے جوان‘ خدا تجھے نیک بدلہ دے۔
خدا کی قسم جب میں اپنی موجودہ حالت سے صحیح و سلامت نکل جاﺅں گا۔ اور اس شخص سے بچ جاﺅں گا جس کا نام عجیب بن خضیب ہے تو میں اپنے باپ سے کہہ کر تجھے بہت انعام دلواﺅں گا لیکن اگر میں مر گیا تو خدا تجھے سلامت رکھے۔ میں نے کہا کہ خدا وہ دن نہ کرے کہ تجھے نقصان پہنچے اور خدا کرے کہ میری موت تجھ سے پہلے آئے۔ اس کے بعد میں نے کچھ کھانا پیش کیا اور ہم دونوں نے کھایا۔

پھر میں نے اس کے لیے خوشبو سلگائی اور وہ خوش ہوگیا اور میں نے چوسر بنائی اور ہم دونوں نے کھیلنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد ہم نے کچھ مٹھائی کھائی اور رات تک کھیلتے رہے۔ جب رات ہوئی تو میں نے اٹھ کر چراغ جلائے اور کھانا سامنے لا کر رکھا اور ہم بیٹھ کر باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ تھوڑی رات رہ گئی اور لڑکے کو نیند آ گئی۔ میں نے اسے چادر اڑھا دی اور خود بھی جا کر سو رہا۔

اے میری مالکہ، میں رات دن اس کے ساتھ رہتا تھا اور اس کی محبت میرے دل میں جاگزیں ہوگئی تھی اور میرا رنج و غم جاتا رہا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ منجم جھوٹے ہیں۔ خدا کی قسم‘ میں اسے قتل نہ کروں گا۔ انتالیس دن اور انتالیس راتیں میں اس کی خدمت کرتا رہا اور اس کا ساتھ نہ چھوڑا اور اس سے بات چیت کرتا رہا۔ چالیسویں دن لڑکے نے خوش ہو کر کہا کہ بھائی الحمداللہ کہ موت سے بچ گیا۔
یہ تیری اور تیرے آنے کی برکت ہے۔ میں خدا سے دعا مانگتا ہوں کہ وہ تجھے تیرے وطن پہنچا دے۔ لیکن بھائی‘ ذرا میرے لیے پانی گرم کر دے تاکہ میں غسل کروں اور اپنا بدن دھوﺅں۔ میں نے کہا بسروچشم اور بہت سا پانی گرم کر کے اس کے پاس لے آیا اور اس کے بدن کو ابٹن سے خوب دھویا اور مالش کی اور اس کی خدمت کی اور اس کے کپڑے بدلے اور اس کے لیے اونچا پلنگ بچھایا جس پر وہ آکر لیٹ گیا اور حمام کی تکان کی وجہ سے سو گیا۔
جب وہ جاگا تو اس نے کہا کہ بھائی‘ ہمارے لیے ایک تربوز کاٹ اور مصری گھول کر اس پر ڈال۔ میں نعمت خانہ میں گیا تو دیکھا کہ وہاں ایک نہایت خوب صورت تربوز ایک تشت کے اوپر رکھا ہوا ہے۔ میں نے لڑکے کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ اے میرے آقا‘ تیرے پاس چھری نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ کیا میرے سرہانے اس اونچے طاق پر رکھی ہے۔ میں جلدی میں اٹھا اور چھری کو اس کا پھل پکڑ کر اٹھا لیا اور الٹا پھرا۔
لیکن میرا پاﺅں پھسلا اور میں ہاتھ میں چھری لیے لڑکے کے اوپر گر پڑا۔ چھری نے جلد وہ کام تمام کر دیا جو ازل میں لکھا گیا تھا۔ چھری لڑکے کے دل میں گھس گئی اور وہ فوراً مر گیا۔ جب وہ مر چکا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ میں ہی اس کا قاتل ہوں تو میں زور سے رونے چلانے اور منہ پیٹنے لگا اور کپڑے پھاڑ ڈالے اور کہا کہ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اے مسلمانو‘ جو رخنہ منجموں اور حکیموں کے کہنے کے مواقف لڑکے پر چالیس دن کے بعد آنے والا تھا اس میں ابھی ایک دن باقی تھا اور اس پری جمال کی موت میرے ہاتھوں لکھی ہوئی تھی۔
کاش کہ میں اس سے پہلے تربوز نہ کاٹتا۔ انہیں کا تو نام مصیبتیں اور تکلیفیں ہے‘ لیکن خدا جس کام کو مقدر کر دیتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles