SolhveN Raat - Article No. 1600

SolhveN Raat

سولہویں رات - تحریر نمبر 1600

لڑکیوں نے کہا لے ہم تجھے محل کی کنجیاں دیتے ہیں۔ اس محل میں یہ چالیس مخزن ہیں ان میں سے انتالیس دروازوں کو کھولیو‘ مگر خبردار اس چالیسویں دروازے سے دور رہیو‘ ورنہ ہم میں مفارقت ہو جائے گی

منگل 21 نومبر 2017

جب سولہویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔عجیب نے لڑکی سے کہا کہ جب مجھے یقین آگیا کہ میں ہی اس کا قاتل ہوں تو میں اٹھا اور زینے پر چڑھ کر باہر نکلا اور مٹی کو اس جگہ پرڈال دیا۔ اب میری نظر سمندر پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی کشتی پانی کاٹتی ہوئی خشکی کی طرف چلی آرہی ہے۔ میں ڈرا اور دل میں کہنے لگا کہ وہ لوگ ابھی یہاں پہنچ جائیں گے اور لڑکے کو قتل کیا ہوا پائیں گے اور سمجھ جائیں گے کہ میں نے ہی اسے قتل کیا ہے اور وہ مجھے ضرور مار ڈالیں گے۔

اس لیے میں ایک اونچے درخت کے پاس گیا اور اس کے اوپر چڑھ کر پتوں میں چھپ گیا۔ ابھی درخت پر چڑھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ غلام مع اس بوڑھے کے جو لڑکے کا باپ تھا‘ کشتی سے نیچے اتر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ لڑکا سو رہا ہے اور حمام کے اثر سے اس کے چہرے پر رونق ہے اور وہ صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے ہے اور چھری اس کے سینے میں گڑی ہوئی ہے تو وہ چلانے اور رونے اور اپنا منہ پیٹنے اور قاتل پر لعنت بھیجنے اور ہلاکت کی بددعا دینے لگے۔

(جاری ہے)

بڈھا بڑی دیر تک بے ہوش پڑا رہا، یہاں تک کہ غلاموں کو گمان ہوا کہ وہ بیٹے کے مرنے کے بعد زندہ نہیں رہنے کا۔ انہوں نے لڑکے کو اس کے کپڑوں میں لپیٹا اور اس کے اوپر ریشمی لنگی ڈال دی اور کشتی کی طرف روانہ ہوگئے اور بوڑھا ان کے پیچھے چلا۔ جب اس نے اپنے بیٹے کو لمبا لیٹا ہوا دیکھا تو وہ زمین پر گر پڑا اور سر پر خاک ڈالنے اور منہ پر طمانچے مارنے لگا اور داڑھی نوچنے لگا اور جوں جوں وہ اپنے بیٹے کے قتل ہونے کا خیال کرتا تھا اس کی گریہ و زاری اور بڑھتی جاتی تھی۔
یہاں تک کہ وہ پھر بے ہوش ہوگیا۔ اب ایک غلام جا کر ایک ٹکرا ریشم کے کپڑے کا لے آیا اور انہوں نے بوڑھے کو اس پر وہیں لمبا لٹا دیا‘ جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا اور خود اس کے سرہانے بیٹھ گئے۔ یہ ساری باتیں ہورہی تھیں اور میں اوپر درخت پر بیٹھا یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا اور میرے سر سے پہلے میرا دل بوڑھا ہوگیا تھا کیونکہ میں نے اس قدر درد و الم سہے تھے۔

اے میری مالکہ مغرب کے قریب تک پیر مرد بے ہوش پڑا رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے لڑکے کو دیکھا اور یہ کہ اس پر کیا گزری اور آخر وہی ہوا جس سے وہ ڈر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ اپنے منہ اور سر ہر طمانچے مارنے لگا۔ پھر اس نے ایک آہ بھری اور روح جسم سے نکل گئی۔ غلام آقا آقا پکار کر چلانے اور اپنے سر پر خاک ڈالنے اور زیادہ زور زور سے رونے لگے۔
پھر انہوں نے اپنے آقا کو کشتی میں لے جا کر اس کے بیٹے کے پہلو میں لٹا دیا اور کشتی کا لنگر اٹھا کر میری نظر سے غائب ہوگئے۔ اب میں درخت سے اتر کو طبق کے نیچے گیا اور جوان کا بار بار خیال کرتا اور اس کی باتوں کو یاد کرتا تھا۔ اے میری مالکہ‘ اس کے بعد میں طبق سے باہر نکلا اور دن بھر جزیرے کا چکر لگاتا اور رات کو تہہ خانے میں اتر جاتا تھا۔
اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا اور میں دیکھتا تھا کہ جزیرے کے پچھم کی طرف سمندر اتر رہا اور اس طرف پانی کم ہورہا ہے اور تلاطم جاتا رہا ہے۔ پورے ایک مہینے کے بعد سمندر اس طرف بالکل اتر گیا۔ میں خوش ہوگیا اور مجھے بچنے کا یقین آچلا۔ اب میں اٹھا اور جو تھوڑی سی نمی رہ گئی تھی اس میں گھس کر اصلی خشکی پر پہنچ گیا۔ وہاں میں نے ریت کے ایسے تودے دیکھے جن میں اونٹ کا پاﺅں بھی گھٹنے تک دھنس جائے۔
میں نے ہمت کرکے وہ ریت قطع کی تو مجھے دور سے ایسی آگ چمکتی ہوئی دکھائی دی جو گویا بہت تیزی سے جل رہی تھی۔ میں اس کی طرف چل کھڑا ہوا اور مجھے امید تھی کہ شاید مجھے خوشی حاصل ہو۔ جب میں چلتے چلتے آگ کے قریب پہنچا تو دیکھا وہ ایک محل ہے‘ جس کا دروازہ پیتل کا ہے اور جب سورج چمکتا ہے تو وہ دور سے آگ کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ میں اسے دیکھ کر خوش ہوگیا اور آکر دروازے کے سامنے بیٹھ گیا۔
ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دس جوان نفیس کپڑے پہنے اور ان کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی میرے سامنے آیا۔ لیکن سب کے سب جوان بائیں آنکھ سے کانے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کہ اور یہ کہ سب کے سب ایک آنکھ سے کانے ہیں مجھے سخت حیرانی ہوئی۔ جب ان کی نظر مجھ پر پڑی تو انہوں نے سلام کیا اور میرا حال اور ماجرا پوچھا۔ میں نے ان سے ساری سرگزشت اور جو جو مصیبتیں مجھ پر گزری تھیں بیان کردیں۔

وہ لوگ میرا قصہ سن کر حیران ہوگئے اور مجھے محل کے اندر لے گئے۔ وہاں محل کے صحن میں میں نے دس تخت پڑے ہوئے دیکھے، جن کے گدے اور لحاف سب نیلے تھے۔ ان تختوں کے بیچ میں ایک چھوٹا تخت بچھا ہوا تھا اور اس کے اوپر جو بھی چیزیں تھیں وہ بھی مثل دوسرے تختوں کے نیلی تھیں۔ جب ہم محل میں داخل ہوئے تو ہر جوان اپنے اپنے تخت پر چڑھ گیا اور وہ بوڑھا اس چھوٹے تخت پر جو اور تختوں کے درمیان میں تھا، بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اے جوان اس محل میں قیام کر لیکن ہمارا حال اور ہمارے کانے ہونے کی وجہ مت پوچھ۔
۔ یہ کہہ کر وہ بوڑھا ہر ایک کے سامنے ایک برتن میں کھانا اور ایک میں شراب لایا اور علیٰ ہذا لقیاس میرے سامنے بھی۔ اس کے بعد وہ سب بیٹھ گئے اور میرا حال اور ماجرا پوچھنے لگے۔ میں نے ان سے سارا قصہ بیان کیا۔ یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا۔ اب جوانوں نے کہا کہ اے پیرو مرد تو نے ابھی تک ہمارا روزینہ ہمیں پیش نہیں کیا حالانکہ اس کا وقت آچکا ہے۔
اس نے کہا کہ بسروچشم اور وہ اٹھ کر محل کی ایک کوٹھڑی میں گیا اور تھوڑی دیر غائب رہنے کے بعد واپس آیا اور اس کے سر پر دس سینیاں تھیں اور ہر سینی پر نیلے کپڑے کا سرپوش پڑا ہوا تھا۔ اس نے ہر جوان کے سامنے ایک ایک سینی پیش کی اور دس موم بتیاں جلا کر ایک ایک سینی پر رکھ دی۔ جب اس نے سرپوش اٹھائے اور اس کے نیچے سینیوں میں راکھ اور کچھ کوئلہ اور ہانڈی کی کالک رکھی ہوئی دکھائی۔
سب نے اپنی اپنی آستینیں چڑھا لیں اور رونے پیٹنے اور چہرہ کالا کرنے اور کپڑے پھاڑنے اور طمانچے مارنے اور سینہ پیٹنے لگے اور کہا کہ ہم لوگ آرام سے زندگی بسر کررہے تھے لیکن ہماری فضول باتوں نے بیٹھے بٹھائے ہمیں مصیبت میں ڈال دیا۔ صبح تک وہ یہی بار بار کہتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو بوڑھا اٹھا اور ان کے لیے پانی گرم کیا۔ انہوں نے منہ ہاتھ دھویا اور پرانے کپڑے بدل کر نئے کپڑے پہنے۔

اے میری سرتاج جب میں نے یہ دیکھا تو میری عقل دنگ ہوگئی اور میں حیران پریشان ہوگیا اور میرے دل میں ایک آگ سی بھڑکنے لگی۔ یہاں تک کہ جو کچھ مجھ پر گزری تھی‘ میں وہ سب بھول گیا، اب میں زیادہ چپ نہ رہ سکا۔ اور ان کی طرف مخاطب ہوکر ان سے پوچھنے لگا کہ خوشی اور چہل پہل کے بعد یہ تم نے کیا کیا؟ تم تو خدا کے فضل سے بڑے سمجھدار لوگ ہو اور ایسی باتیں تو پاگل کیا کرتے ہیں، میں عزیز ترین چیز کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ تم اپنا قصہ اور اپنی آنکھیں پھوٹنے اور چہروں کو راکھ اور کالک سے کالا کرنے کی وجہ بتاﺅ۔

انہوں نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ اے نوجوان اپنی جوانی کے دھوکے میں مت آ اور اپنا سوال واپس لے لے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ اٹھا اور بوڑھے نے کچھ کھانا پیش کیا۔ جب ہم کھانا کھا چکے اور برتن بڑھائے جا چکے تو وہ سب بیٹھ کر باتیں چیتیں کرنے لگے۔ یہاں تک کہ رات ہوگئی اور بوڑھے نے اٹھ کر موم بتیاں اور قندیلیں جلائیں اور ہمارے سامنے کھانا پیش کیا۔
اس سے فارغ ہو کر ہم لوگ باتیں اور شراب نوشی کرنے لگے۔ یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی اور جوانوں نے بوڑھے سے کہا کہ ہمارا روزینہ ہمیں دے کیونکہ اب سونے کا وقت آگیا ہے۔ بوڑھا اٹھا اور سینیاں لایا جن میں کالی ریت تھی اور انہوں نے پھر وہی کیا جو پہلی رات کیا تھا۔ اس طرح سے میں نے ان کے ساتھ ایک مہینہ گزارا اور وہ ہر روز رات کو اپنا چہرہ کالا کرتے اور پھر دھوتے اور کپڑے بدلتے تھے۔
اس وجہ سے میں سخت حیران تھا اور میری پریشانی یہاں تک بڑھ گئی کہ کھانا پینا بند ہوگیا۔ بالآخر میں نے ان سے کہا کہ اے جوانو کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ میرا رنج و الم دور ہو اور تم اپنا چہرہ کالا کرنے کی وجہ بتا دو؟ انہوں نے جواب دیا کہ بہتر ہے کہ ہم اپنا راز فاش نہ کریں۔ میں ان کے معاملے میں حیران تھا اور میرا کھانا پینا بند تھا۔ آخرکار میں نے ان سے کہا کہ تمہیں ان باتوں کا سبب بتانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے تجھے تکلیف پہنچے گی اور تو بھی ہماری طرح ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ تمہیں ضرور بتانا پڑے گا ورنہ تم مجھے چھوڑ دو کہ میں سفر کرکے اپنے اہل و عیال کے پاس چلا جاﺅں اور ان باتوں کے دیکھنے سے مجھے تکلیف نہ ہو۔ مظل ہے کہ تم سے دوری بہتر ہے کیونکہ جو چیز آنکھ نہیں دیکھتی اس سے قلب کو تکلیف نہیں پہنچتی۔
یہ کہہ کر وہ ایک مینڈھا لائے اور اسے ذبح کیا اور اس کی کھال کھینچی اور مجھ سے کہنے لگے کہ یہ کھال لے اور اس کے اندر داخل ہوکر اسے اپنے اوپر سی لے۔
جب تو یہ کرچکے گا تو ایک پرندہ تیرے پاس آئے گا جس کا نام رخ ہے۔ وہ تجھے اٹھا کر ایک پہاڑ پر اتار دے گا۔ پھر تو کھال کو پھاڑ کر باہر نکل آئیو۔ پرندہ تجھ سے ڈر کر بھاگ جائے گا اور تجھے اکیلا چھوڑ دے گا۔ آدھے دن چلنے کے بعد تجھے اپنے سامنے ایک عجیب المنظر محل دکھائی دے گا‘ اس میں داخل ہو جائیو۔ بس تیرا مطلب حاصل ہوگیا۔ ہمارے منہ سیاہ کرنے اور ہماری آنکھیں پھوٹنے کا یہی سبب ہے کہ ہم اس محل میں داخل ہوئے تھے۔
اگر ہم خود اپنی وارداتیں تجھ سے بیان کریں تو اس کی تفصیل بہت طول کھینچے گی کیونکہ ہر ایک کی بائیں آنکھ پھوٹنے کی ایک الگ کہانی ہے۔
یہ سن کر میں خوش ہوگیا اور جیسا انہوں نے مجھ سے کہا تھا میں نے ویسا ہی کیا اور وہ پرندہ مجھے لے جاکر اس پہاڑ پر اتار آیا۔ اس محل میں چالیس نوعمر لڑکیاں تھیں جو چاند کی طرح خوبصورت تھیں اور جن کے دیکھنے سے کبھی سیری نہ ہوتی تھی۔
جوں ہی انہوں نے مجھے دیکھا‘ وہ یک زبان ہوکر کہنے لگیں کہ اھلا و سھلا و مرحبا اے ہمارے آقا، ہم ایک مہینے سے تیری راہ دیکھ رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ اس شخص کو یہاں لایا جو ہمارے قابل ہے اور جس کے ہم قابل ہیں۔ اب انہوں نے مجھے ایک بلند دیوان پر بٹھایا اور کہنے لگیں کہ آج کے دن تو ہمارا مالک اور حکمران ہے اور ہم سب تیری لونڈیاں ہیں اور فرمانبردار۔
ہم پر اپنا حکم چلا۔ ان کا یہ حال دیکھ کر مجھے سخت اچنبھا ہوا۔ پھر وہ کھانا لائیں اور ہم سب نے مل کر کھایا۔ پھر وہ میرے لیے شراب لائیں اور میرے آس پاس بیٹھ گئیں۔ اب ان میں سے پانچ لڑکیاں اٹھیں اور انہوں نے چٹائی بچھائی اور اس کے اردگرد بہت سی خوشبوئیں اور پھل اور نقل لاکر جمع کیا اور شراب حاضر کی اور ہم سب پینے بیٹھ گئے۔ اب انہوں نے ایک سارنگی لے کر گانا بجانا شروع کیا اور جام و سبو کا دور چلنے لگا۔
مجھ پر ایسی مسرت طاری ہوئی کہ دنیا بھر کے غم غلط ہوگئے اور میں اپنے دل میں کہنے لگا کہ واقعی عیش و عشرت اس کا نام ہے اور میں نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا یہاں تک کہ سونے کا وقت آگیا۔ اب انہوں نے کہا کہ ہم میں سے جسے تو چاہے کہ وہ تجھ سے ہم بستر ہو‘ اسے ساتھ لے جا۔ میں نے ان میں سے ایک کو اپنے ساتھ لیا جس کا چہرہ خوبصورت‘ آنکھیں سرمگیں‘ بال کالے کالے‘ اگے کے دانت کشادہ‘ ادائیں مکمل‘ بھوئیں ملی ہوئی تھیں۔
وہ گویا ایک نازک شاخ یا خوشبودار ٹہنی تھی جس کو دیکھ کر عقل حیران و پریشان ہو جاتی تھی۔ میں اٹھا اور اس کے ساتھ رات بھر رہا۔ اس سے زیادہ حسین عورت میں نے عمر بھر نہ دیکھی تھی۔ جب صبح ہوئی تو وہ مجھے حمام لے گئیں اور غسل دیا اور بہترین کپڑے پہنائے اور کھانا پیش کیا اور ہم نے کھایا اور شراب پیش کی اور ہم نے پی۔ رات ہونے تک ہمارے درمیان جام کا دور چلتا رہا۔
اب میں نے ان میں سے ایک اور لڑکی پسند کی جو سر تا پا حسن کی دیوی تھی اور جس کا جسم پھول کی طرح نرم تھا۔ میں اس کے ساتھ رہا اور صبح تک وہ رات ایسی گزاری کہ کبھی نہ گزری تھی۔
قصہ مختصر‘ اے میری آقا‘ میں نے ان کے ساتھ ایک سال نہایت عیش و آرام میں گزارا، جب سال ختم ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ کاش ہماری ملاقات تجھ سے نہ ہوئی ہوتی۔
لیکن اگر تو ہمارے کہنے پر چلے تو اس میں تیری بھلائی ہے۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگیں اور میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ آخر بات کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بادشاہ زادیاں ہیں اور برسوں سے یہاں رہتی ہیں۔ صرف چالیس دن کے لیے ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک سال یہاں ساتھ رہ کر کھاتے پیتے اور مزے اڑاتے اور خوشیاں مناتے اور پھر چلے جاتے ہیں۔
بس ہمارا یہی دستور ہے۔ اس لیے ڈر ہے کہ ہمارے چلے جانے کے بعد تو ہماری عدول حکمی کرے گا۔ لے ہم تجھے محل کی کنجیاں دیتے ہیں۔ اس محل میں یہ چالیس مخزن ہیں ان میں سے انتالیس دروازوں کو کھولیو‘ مگر خبردار اس چالیسویں دروازے سے دور رہیو‘ ورنہ ہم میں مفارقت ہو جائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ ہماری جدائی کا باعث ہے تو میں اسے ہرگز نہ کھولوں گا۔
اب ان میں سے ایک لڑکی آگے بڑھی اور مجھے گلے لپٹا کر رونے لگی۔ جب میں نے اسے روتے دیکھا تو کہا کہ میں اسے ہرگز نہ کھولوں گا‘ اور اس سے رخصت ہوا۔ وہ سب وہاں سے نکل کر اڑ گئیں اور میں محل میں اکیلا بیٹھا رہ گیا۔ جب شام قریب ہوئی تو میں پہلا مخزن کھول کر اس میں داخل ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہاں جنت کے مانند ایک مکان اور اس میں ایک باغ ہے‘ جس کے درخت ہرے بھرے اور پھل پکے ہوئے اور چڑیاں گاتی ہوئی اور پانی بہتا ہوا ہے۔
میرا دل اسے دیکھ کر باغ باغ ہوگیا اور میں درختوں کے درمیان چہل قدمی کرنے اور پھول سونگھنے اور چڑیوں کے راگ سننے لگا جو یکتا اور زبردست خدا کی تسبیح کررہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ سیبوں کا رنگ سرخی مائل زرد ہے۔ پھر میری نظر بہیوں پر پڑی جن کی خوشبو کے آگے مشک اور عنبر مات تھے۔ پھر مجھے خوبانیاں دکھائی دیں جن کو دیکھ کر آنکھوں میں تروتازگی ہوتی تھی اور جو نرم یا قوت کی طرح خوبصوررت تھیں۔

اس کے بعد میں اس مکان سے نکلا اور مخزن کا دروازہ بند کر دیا جیسا کہ پہلے تھا‘ جب دوسرا دن ہوا تو میں نے دوسرا مخزن کھولا اور اس میں داخل ہوا، وہاں میں نے ایک بہت بڑا میدان دیکھا‘ جس میں بہت سے کھجور کے درخت تھے اور ایک نہر بہہ رہی تھی۔
جس کے کنارے گلاب اور چنبیلی اور سدابہار اور نسرین اور نرگس اور تلسی کے درخت فرش کی طرح بچھے ہوئے تھے۔
جب ان خوشبودار پھولوں پر ہوا چلتی تو خوشبوﺅں کو ادھر ادھر منتشر کرتی تھی۔ ان چیزوں سے مجھے بے حد مسرت پہنچی اور میں اس مکان سے باہر آیا اور مخزن کا دروازہ بند کردیا جیسا کہ پہلے تھا۔ پھر میں نے تیسرے مخزن کا دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک بارہ دری ہے‘ جس کا فرش سنگ مرمر اور قیمتی معدنیات اور کمیاب پتھروں کا ہے اور اس میں صندل اور عود کے پنجرے ٹنگے ہوئے ہیں۔
جن میں بھانت بھانت کی چڑیاں بیٹھی گا رہی ہیں۔ مثلاً بلبل‘ فاختائیں شحروریں‘ قمریاں اور نوبیاں۔ یہ دیکھ کر میرا دل کھل گیا اور غم غلط ہوگیا۔ اس مکان میں میں صبح تک سوتا رہا، پھر میں نے چوتھے مخزن کا دروازہ کھولا اور اس میں ایک بڑا مکان دیکھا‘ جس میں چالیس مخزن تھے اور ان سب کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ میں ان کے اندر گیا اور وہاں ایسے ایسے موتی اور یاقوت اور زبرجد اور زمرد اور دوسرے قیمتی جواہرات دیکھے جن کی تعریف سے زبان قاصر ہے۔
یہ دیکھ میری عقل دنگ رہ گئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ چیزیں تو شہنشاہوں کے خزانے میں بھی نہ ہوں گی۔ یہ دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہوگیا اور غم غلط۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں اب اپنے زمانے کا بادشاہ ہوں اور یہ سارا مال خدا کے فضل سے میرا ہی ہے اور چالیس لڑکیاں میرے قبضے میں ہیں‘ جن کا سوائے میرے اور کوئی نہیں۔
اسی طرح میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تھا۔
یہاں تک کہ انتالیس روز گزر گئے اور اس مدت میں‘ میں سارے مخزن کھول چکا تھا اور وہی ایک باقی رہ گیا تھا‘ جس کا دروازہ کھولنے سے انہوں نے منع کیا تھا۔
لیکن اے میری آقا! میرا دل اسی مخزن میں اٹکا رہا جو ان چالیس مخزنوں کا آخری تھا۔ اور یہ میری بدبختی تھی کہ مجھے شیطان نے مجبور کیا کہ اسے کھولوں اور میں ضبط نہ کرسکا‘ اگرچہ معیاد کا ایک روز باقی تھا۔
میں مذکورہ مخزن کے پاس گیا اور اس کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہو ہی گیا۔ وہاں مجھے ایسی خوشبو آئی کہ اس سے پہلے میں نے کبھی نہ سونگھی تھی۔ اس خوشبو نے مجھے متوالا کر دیا اور میں ایک پہر تک بے ہوش پڑا رہا۔ جب ہوش آیا تو میں اپنا دل مضبوط کرکے مخزن کے اندر چلا گیا اور دیکھا کہ اس کے فرش پر زعفران اور سونے کی قندیلیں اور ایسی خوشبوئیں رکھی ہوئی ہیں جن میں مشک اور زعفران کی بو پھوٹ رہی ہے۔
اور میں نے دو عود سوز دیکھے جن میں سے ہر ایک میں عود اور عنبر اور میٹھی میٹھی خوشبوئیں بھری ہوئی تھیں‘ جس سے سارا مکان معطر تھا اور وہاں اے میری آقا! میں نے ایک مشکی گھوڑا دیکھا جو اندھیری رات کی طرح کالا تھا۔ اس کے سامنے سفید بلور کی ایک ناند رکھی ہوئی تھی جس کے اندر چھلے ہوئے تل تھے اور اسی کی طرح ایک دوسری ناند جس میں مشک آمیز گلاب کا پانی تھا۔
گھوڑا بندھا ہوا تھا اور اس پر لگام چڑھی ہوئی تھی اور کاٹھی سرخ سونے کی تھی۔ اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس میں ضرور کوئی راز ہے۔ میں نے اسے باہر نکالا اور اس پر سوار ہوگیا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ٹلا۔ پھر میں نے اپنے پاﺅں اس کے سینے پر مارے لیکن وہ پھر بھی نہ ہلا۔ اب میں نے چابک لے کر اسے مارنا شروع کیا۔
جب اس کو مار کر احساس ہوا تو ایسی زور سے ہنہنانے لگا جیسے کہ کان پھوڑنے والی بجلی اور اس نے اپنے دونوں بازو کھولے اور مجھے لے کر اڑا اور ایک پہر تک ہوا میں نظروں سے غائب ہوگیا اور ایک چھت پر پہنچ کر مجھے اپنی پیٹھ سے اتار دیا اور اپنی دم اس طرح مجھ پر ماری کہ میری بائیں آنکھ پھوٹ کر میرے چہرے پر سے لنڈکتی ہوئی گر گئی۔ جب میں چھت سے اترا تو میں نے انہیں دس کانوں کو وہاں پایا۔
انہوں نے کہا کہ تجھے ہم نہ مرحبا کہتے ہیں اور نہ اھلا و سھلا۔ میں نے کہا کہ دیکھو میں بھی تمہاری طرح ہوگیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم مجھے کالک کی سینی دو تاکہ اس سے میں اپنا چہرہ کالا کروں اور مجھے اپنی ہمراہی میں قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم‘ ہم تیرے ساتھ ہرگز نہ بیٹھیں گے۔ نکل جا یہاں سے! جب انہوں نے مجھے اپنے پاس سے نکال دیا اور میں بہت تنگ دل ہوا اور سوچنے لگا کہ دیکھنا چاہیے کہ ابھی اور تقدیر میں لکھا ہے۔
تو میں وہاں سے غمگین اور روتا ہوا چل دیا اور چپکے چپکے کہنے لگا کہ میں آرام سے زندگی بسر کر رہا تھا لیکن میری فضول باتوں نے بیٹھے بیٹھے مجھے مصیبت میں ڈال دیا۔ یہ کہہ کر میں نے اپنی داڑھی مونچھ مونڈ ڈالی اور ملک ملک کا چکر لگاتا رہا اور خدا نے میری قسمت میں سلامتی لکھی تھی‘ یہاں تک کہ آج شام کو بغداد پہنچا اور دیکھا کہ یہ دونوں حیران و پریشان کھڑے ہیں۔
میں نے انہیں سلام کیا اور کہا کہ میں پردیسی ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم پردیسی ہیں اور ہم تینوں قلندر یکساں بائیں آنکھ سے کانے تھے۔ اے میری آقا! یہ ہے سب میری داڑھی منڈانے اور آنکھ پھوٹنے کا۔ لڑکی نے کہا کہ آداب بجا لا اور چلتا ہو۔ میں نے کہا کہ واللہ جب تک ان لوگوں کا قصہ نہ سن لوں‘ میں یہاں سے نہیں ٹلنے کا۔
اب لڑکی نے خلیفہ اور جعفر اور مسرور کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ اب تم لوگ اپنا قصہ سناﺅ۔
جعفر آگے بڑھا اور اس نے وہی قصہ بیان کیا جو داخل ہوتے وقت دروازہ کھولنے والی سے بیان کیا تھا۔ جب لڑکی نے اس کی باتیں سنیں تو کہا کہ تم میں سے بعضوں کی خاطر تمہاری بھی جان بخشی کی جاتی ہے۔ اب سب لو گ باہر باہر آئے اور چلتے چلتے بازار تک پہنچے، خلیفہ نے قلندروں سے کہا کہ اے لوگو‘ اس وقت تم کہاں جاﺅ گے کیونکہ ابھی تک پو نہیں پھوٹی؟ انہوں نے جواب دیا کہ واللہ‘ اے میرے آقا‘ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ کہاں جائیں۔
خلیفہ نے ان سے کہا کہ چلو آج کی رات ہمارے ساتھ گزارو اور جعفر سے کہا کہ انہیں لے جا اور کل میر ے سامنے حاضر کرنا کہ ہم سارا ماجرا لکھ لیں۔ جعفر نے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور خلیفہ اپنے محل میں چلا گیا اور اس رات اسے بالکل نیند نہیں آئی۔ جب صبح ہوئی تو وہ حکومت کی کرسی پر بیٹھا اور جب سارے اراکین جمع ہو چکے تو وہ جعفر کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا‘ کہ تینوں لڑکیوں اور دونوں کتیوں اور قلندروں کو میرے سامنے حاضر کر۔
جعفر اٹھا اور ان سب کو حاضر کیا۔ لڑکیاں نقاب ڈالے ہوئے داخل ہوئیں اور جعفر نے ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم تمہیں معاف کرتے ہیں کیونکہ تم نے پہلے ہمارے ساتھ احسان کیا ہے اور ہم کو پہچانا نہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم اس وقت اس شخص کے سامنے کھڑی ہو جو بنی عباس کا پانچوں خلیفہ ہارون الرشید ہے اور جو بھائی ہے موسیٰ الہادی بن المہدی محمد بن ابی جعفر المنصور بن محمد کا بھائی ہے السفاح بن محمد کا۔
اس لیے جو کچھ کہو سچ کہو۔ جب لڑکیوں نے جعفر کی زبان سے امیر المومنین کا حکم سنا تو بڑی لڑکی آگے بڑھی اور کہنے لگی کہ اے امیر المومنین میرا قصہ ایسا ہے کہ اگر سوئیوں سے آنکھوں کے گوشوں پر لکھا جائے تو وہ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت کا باعث ہوگا اور نصیحت پکڑنے والوں کے لیے نصیحت۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی‘ جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles