StaeesweN Raat - Article No. 1676

StaeesweN Raat

ستائیسویں رات - تحریر نمبر 1676

جب میں گھر لوٹا تو اس کے عشق میں بدمست تھا، لوگ رات کا کھانا لائے لیکن میں نے ایک نوالے سے زیادہ نہ کھایا کیونکہ میں اس کے حسن و جمال کو یاد کر رہا تھا

جمعرات 1 مارچ 2018

جب ستائیسویں رات ہوئی تواس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔ جب چین کے بادشاہ نے کہا کہ میں تم کو پھانسی دئیے بغیر نہ چھوڑوں گا تو خانساماں چین کے بادشاہ کے آگے آیا اور کہنے لگا کہ اگر تو اجازت دے تو میں تجھ سے اپنی ایک واردات بیان کروں جو اسی زمانے میں پیش آئی ہے قبل اس کے کہ میں نے اس کبڑے کو دیکھا اور اگر وہ اس شخص کی کہانی سے زیادہ عجیب ہو تو ہم سب کی جان بخشی کر دینا۔


بادشاہ نے کہا کہ اچھا!
خانساماں کی کہانی:
اس نے کہا کہ کل رات کو میں بعض اشخاص کے ساتھ تھا‘ جو قرآن ختم کر رہے تھے اور فقیہ لوگ وہاں جمع تھے، جب پڑھنے والے پڑھ کر فارغ ہوئے تو دستر خوان بچھایا گیا اور منجملہ کھانوں کے زیرہ گوشت لایا گیا اور ہم نے آگے بڑھ کر زیرہ گوشت کھانا شروع کیا۔

(جاری ہے)

مگر ہم میں سے ایک نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اس کے کھانے سے انکار کیا۔

ہم نے اسے قسم دی کہ کھا اور اس نے قسم کھائی کہ میں ہرگز نہ کھاؤں گا۔ جب ہم نے زیادہ اصرار کیا تو اس نے کہا کہ میرے ساتھ زبردستی مت کرو۔
اس کے کھانے سے جو کچھ مجھ پر گزر چکی ہے‘ وہ کافی ہے۔ اب ہم نے کہا کہ تجھے خدا کی قسم بتا کہ تو زیرہ گوشت کیوں نہیں کھاتا۔ اس نے کہا کہ اگر تم مجبور کرتے ہو کہ میں زیرہ گوشت کھاؤں تو بغیر اس کے نہیں کھا سکتا کہ اول چالیس بار اپنے ہاتھ صابن سے دھوؤں اور چالیس بار سوڈے سے اور پھر چالیس بار خوشبو سے۔
یہ تمام ایک سو بیس بار ہوئے۔ اس پر میزبان نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ وہ پانی جو جو چیزیں اس نے مانگی ہیں، لائیں، اب وہ جوان شاد و ناشاد بیٹھ گیا اور اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ بڑھایا اور زیرہ گوشت میں لقمہ ڈبو کر کھانے لگا مگر معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے اوپر جبر کر کے کھا رہا ہے، ہمیں اس پر نہایت تعجب ہوا کیونکہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
ہم نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کٹا ہوا ہے اور وہ محض چار انگلیوں سے کھا رہا ہے۔ ہم نے کہا کہ خدا کے لیے یہ تو بتا کہ تیرے انگوٹھے پر کیا گزری کہ وہ ایسا ہو گیا؟ آیا وہ پیدائشی اسی طرح ہے یا اس پر کوئی حادثہ گزرا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اے میرے بھائیو یہی ایک انگوٹھا نہیں بلکہ دوسرے ہاتھ اور دونوں پاؤں کے انگوٹھوں کا بھی یہی حال ہے لیکن جب تک تم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھو گے تمہیں یقین نہیں آئے گا۔

یہ کہہ کر اس نے دوسرا ہاتھ دکھایا اور وہ بھی داہنے ہاتھ کی طرح تھا، اسی طرح دونوں پاؤں بغیر انگوٹھوں کے تھے، سب نے اس کی یہ حالت دیکھی تو ہمیں اور بھی تعجب ہوا اور ہم نے کہا کہ اب ہم بے صبری کے ساتھ منتظر ہیں کہ تو اپنا ماجرا اور انگوٹھوں کے کٹنے کا سبب اور ایک سو بیس مرتبہ ہاتھ دھونے کی وجہ بیان کرے۔ اس نے کہا کہ اچھا سنو میرے باپ کا شمار بڑے سوداگروں میں تھا اور وہ خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں بغداد کا سب سے بڑا سوداگر تھا لیکن مے خوری کا اور سارنگی اور دوسرے باجے سننے کا بڑا شوق تھا، جب وہ فوت ہوا تو اس نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا۔
بہرحال میں نے اس کی تجہیز و تکفین کی اور قرآن ختم کرائے اور کئی دن رات اس کے سوگ میں رہا، جب میں نے اس کی دکان کھولی تو دیکھا کہ سامان تو بہت کم ہے مگر اس پر قرضے بہت سے ہیں، میں نے قرض خواہوں کو دلاسہ دیا اور ان کی خاطر جمعی کی اور میں ہفتہ وار خرید و فروخت کرکے قرض خواہوں کو دیتا تھا۔ ایک مدت تک ایسا کرنے کے بعد میں نے سارے قرضے ادا کر دئیے اور اب میری پونجی دن رات بڑھنے لگی۔

ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک ایک لڑکی پہنچی، جس سے زیادہ حسین میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی، وہ زیوروں اور پوشاک سے بنی سنوری ہوئی تھی اور خچر پر سوار تھی اور ایک غلام اس کے پیچھے پیچھے تھا، قیصریہ پہنچ کر اس نے خچر روکا اور اندر آئی، اور ایک غلام اس کے پیچھے پیچھے آیا۔ غلام نے کہا کہ اے میری سردار، یہاں سے جلد چل اور کسی کو خبر مت کر، کہیں ایسا نہ ہو کہ شورش برپا ہو جائے، یہ کہہ کر اس نے سامنے سے اوٹ کر لی اور وہ سوداگروں کی دکانیں دیکھنے لگی اور دیکھا کہ سوائے میرے اور کسی نے دکان نہیں کھولی ہے۔
اب وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور غلام اس کے پیچھے پیچھے تھا اور آکر میری دکان پر بیٹھ گئی اور مجھے سلام کیا، اس سے زیادہ میٹھی میٹھی اور پیاری باتیں میں نے کبھی نہیں سنی تھیں۔
اب اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی تو میں نے دیکھا کہ وہ چاند کی طرح خوبصورت ہے، میں نے ایک نظر بھر کرا سے دیکھا ہی تھا کہ ہزاروں تمنائیں میرے دل میں آنے لگیں اور میں اس کے عشق میں گرفتار ہوگیا اور بار بار اس کی طرف دیکھنے لگا۔

اس نے کہا کہ اے جوان ‘تیرے پاس عمدہ قسم کے کپڑے ہیں، میں نے جواب دیا کہ اے میری سردار تیرا غلام غریب آدمی ہے، لیکن ذرا ٹھہر جا کہ اور سوداگر اپنی دکانیں کھول لیں۔ اس وقت جو کچھ تجھے درکار ہوگا میں لے آؤں گا، اب ہم دونوں باتیں کرنے لگے اور میں اس کی محبت میں غرق تھا، یہاں تک کہ سوداگروں نے اپنی دکانیں کھولیں اور میں اٹھا اور جو کچھ درکار تھا لے آیا، اس سارے سامان کی قیمت پانچ ہزار درہم تھی، اس نے اسے خادم کے حوالے کر دیا اور دونوں قیصریہ سے باہر چلے گئے وہاں اس کا خچر آیا اور وہ سوار ہوگئی اور مجھ سے یہ بھی نہ کہا کہ وہ کہاں سے آئی ہے اورمجھے پوچھتے شرم آئی، اب سوداگر میرے پیچھے پڑے اور میں نے پانچ ہزار درہم کی ہنڈی لکھ دی۔

جب میں گھر میں لوٹا تو اس کے عشق میں بدمست تھا، لوگ رات کا کھانا لائے لیکن میں نے ایک نوالے سے زیادہ نہ کھایا کیونکہ میں اس کے حسن و جمال کو یاد کر رہا تھا۔ پھر میں نے سونے کا ارادہ کیا مگر نیند نہ آئی، ایک ہفتے تک میری یہ حالت رہی، اب سوداگروں نے اپنے داموں کا مطالبہ کیا اور میں نے ان سے دوسرے ہفتے تک صبر کرنے کی درخواست کی، ایک ہفتے کے بعد وہ خچر پر سوار آئی اور اس کے ساتھ ایک خادم اور دو غلام تھے، اس نے مجھے سلام کیا اور کہنے لگی کہ اے میرے آقا کپڑوں کی قیمت ادا کرنے میں دیر ہوگئی، صراف کو بلا اور دام لے، صراف آیا اور خادم نے دام نکال کر دیے۔
میں نے دام لیے اور ہم دونوں باتیں کرنے لگے، یہاں تک کہ بازار کھلا اور اس نے کہا کہ میرے لیے فلاں فلاں چیز لے آ۔ میں سوداگروں سے وہ چیزیں لے آیا جو اس نے کہی تھیں، وہ انہیں لے کر چل دی اور قیمت کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ جب وہ چلی گئی تو میں سخت پریشان ہواکیونکہ جو چیزیں اس نے لی تھیں اس کی قیمت ایک ہزار دینار تھی، جب وہ میری نظر سے غائب ہوگئی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کوئی محبت سی محبت ہے کہ اس نے مجھے پانچ ہزار درہم ادا کئے اور ایک ہزار دینار کا سامان لے گئی، اب میں ڈرا کہ دوسرے سوداگروں کا مال لینے کی وجہ سے میں غریب ہو جاؤں گا اور دل میں کہنے لگا کہ سوداگر تو مجھ ہی کو جانتے ہیں یہ عورت چال باز معلوم ہوتی ہے اوروہ مجھے اپنے حسن و جمال کے فریب میں لے آئی اور مجھے کم مایہ دیکھ کر میرا مذاق اڑاتی ہے اور میں نے اس کے مکان کا پتہ تک نہیں پوچھا۔

میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا اور اسے گئے ایک مہینے سے زیادہ ہوچکا تھا کہ سوداگروں نے مطالبہ شروع کردیا اور مجھے اتنا تنگ کیا کہ میں نے مجبور ہوکر سارا گھر بار بیچنے کے لیے ان کے سامنے پیش کردیا اور اپنی تباہی کا تہیہ کرلیا اور سوچ میں آکر بیٹھ گیا کہ اتنے میں وہ بازار کے دروازے پر اتری اور میرے پاس پہنچی جب میں نے اسے دیکھا تومیرا سارا تفکر جاتا رہا اور میرا غم غلط ہوگیا اور میرے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگی پھر اس نے کہا کہ صراف کو بلا اور اپنے دام تول کرلے لے، اس نے ان کپڑوں کے دام مجھے دئیے جو وہ لے گئی تھی اور مجھ سے باتیں کرنے لگی اور میں مارے خوشی اور فرحت کے مرا جاتا تھا اب اس نے مجھ سے پوچھا کہ تیری بیوی ہے؟میں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ کسی عورت سے جان پہچان تک نہیں یہ کہہ کر میں رونے لگا اور اس نے پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے؟میں نے جواب دیا کہ خیریت ہے اس کے بعد میں چند دینار نکال کر خادم کو دئیے اور اس سے کہا کہ میری سفارش کرے وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ وہ تجھ سے بڑھ کر تجھ پر عاشق ہے جو کپڑے اس نے تجھ سے خریدے ہیں ان کی ضرورت اسے بالکل نہیں بلکہ محض تیری محبت کی وجہ سے اس نے یہ کام کیا تو اپنا ارادہ اس پر ظاہر کر کیونکہ وہ تیری بات کو نہیں ٹالنے کی۔
جب میں نے خادم کو دینار دئیے تھے تو وہ دیکھ رہی تھی۔اب میں آکر اس کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اپنے غلام کو صدقہ دے اور جو وہ کہتا ہے اسے قبول کر لے اب میں نے اپنا دل کھول کر اس کے آگے رکھ دیا اوراس نے منظور کرلیااور خادم سے کہا کہ تو میرا پیغام اسے پہنچا دیجیو اورمجھ سے کہا کہ خادم جس طرح کہے اسی طرح کیجیو یہ کہہ کر اٹھی اور چل دی۔

اب میں نے جاکر سوداگروں کو دام دیے بلکہ کچھ زیادہ لیکن پھر اس کی خبر نہ ملنے کی وجہ سے مجھے سخت پریشانی ہوئی اورمیں نے رات بھر جاگتے گزار دی۔ کچھ دنوں بعد اس کا خادم میرے پاس آیا اور میں نے اس کی تعظیم کی اور اس سے لڑکی کا حال پوچھا اس نے جواب دیاکہ وہ بیمارہے میں نے کہا کہ اس کا قصہ مجھے تفصیل کے ساتھ بتا۔ اس نے کہاکہ اس لڑکی کو خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ نے پالا ہے اور وہ اس کی ایک کنیز ہے۔
اس نے باہر آنے جانے کی اجازت اپنی ملکہ سے مانگی ہے اور وہ اسے مل گئی ہے اور وہ زبیدہ کی خزانچی ہے اس نے اپنی مالکہ سے تیرا ذکر کیا تھا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اس کی شادی تیرے ساتھ کردے۔مگر مالکہ نے جواب دیا کہ جب تک کہ میں اس مرد کو دیکھ نہ لوں نہ کروں گی اگر وہ بھی تیری طرح خوبصورت ہوگا تو میں تیری شادی اس کے ساتھ کروں گی۔اب ہم تجھے محل میں لے جانا چاہتے ہیں۔
اگر تجھے اندر پہنچنے میں کامیابی ہوگئی تو تیری شادی اس کے ساتھ ہوجائے گی اور اگر راز فاش ہوگیا تو میری گردن ماردی جائے گی۔ اب بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں تیرے ساتھ چلوں گا خواہ میرا وہی حال کیوں نہ ہو جو تو نے بیان کیا ہے۔ خادم نے کہا کہ آج رات مسجد میں جاکر نماز پڑھیو اور وہیں رہیو اس مسجد میں جو زبیدہ نے دجلے کے کنارے بنوائی ہوئی ہے۔
میں نے کہا کہ بسروچشم۔ جب رات ہوئی تو اس مسجد میں گیا اور وہاں نماز پڑھ کر سو گیا۔ جب تڑکا ہوا تو میں نے دیکھاکہ دو خادم ایک بجرے میں آئے اور ان کے ساتھ خالی صندوق تھے۔ وہ ان صندوقوں کو مسجد میں رکھ کر چلے گئے۔ مگر ان میں سے ایک نے ذرا توقف کیا اور میں نے غور سے دیکھا تو یہ وہی خادم تھا جو میرے اور اس لڑکی کے درمیان میانجی بنا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہی لڑکی جو میری دوست تھی میرے پاس آئی جب وہ میرے سامنے پہنچی تو میں اٹھ کھڑاہوا اور اسے گلے سے لگالیا اور وہ مجھے بوسے دینے اور رونے لگی۔
تھوڑی باہم گفتگو کرنے کے بعد اس نے مجھے لے جا کر صندوق میں بٹھا دیا اور اسے بند کر دیا، اس کے بعد وہ خادم کی طرف بڑھی جس کے ساتھ بہت سا سامان تھا، اس کو لے کر اس نے ان صندوقوں میں بھرا اور ان کو ایک ایک کرکے بند کر دیا، جب سب صندوق بھر چکے تو انہوں نے انہیں بجرے میں رکھ دیا اور زبیدہ کے محل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب مجھے بڑی فکر ہوئی اور میں دل میں کہنے لگا کہ میری شہوت نے مجھے تباہ کر دیا اور معلوم نہیں وہ ملے گی بھی یا نہیں! یہ کہہ کر میں صندوق کے اندر رونے لگا اور خدا سے دعا مانگتا تھا کہ وہ مجھے اس مصیبت سے رہائی دے۔
اب وہ لوگ صندوقوں کے ساتھ باب الخلیفہ پر پہنچے، جن میں سے ایک صندوق میں میں تھا اور ان نوکروں کی جماعت سے گزر کر جو حرم کی حفاظت اور اس کی پردہ داری کرتے تھے، ایک بڑے خادم تک پہنچے۔ اس نے نیند سے چونک کر زور سے کہا کہ ان صندوقوں میں کیا ہے؟ لڑکی نے کہا کہ ان میں زبیدہ بیگم کا سامان بھرا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ ایک ایک کر کے کھول تاکہ میں دیکھوں کہ ان میں کیا ہے؟ لڑکی نے کہا کہ تو کیوں کھولنا چاہتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ تو زیادہ باتیں مت بنا۔
تجھے یہ صندوق کھولنے پڑیں گے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پہلا ہی صندوق جو اس نے کھولنا چاہا، اس میں، میں تھا، یہ دیکھ کر میرے ہوش جاتے رہے اور مارے ڈر کے میں نے پیشاب کر دیا اور پیشاب صندوق سے بہنے لگا۔ اس پر لڑکی نے پیہرے دار سے کہا کہ اے پہرے دار، تو مجھے تباہ کر دے گا اور خود بھی تباہ ہوگا کیونکہ تو نے دس ہزار دینار کا مال خراب کر دیا ہے۔
اس صندوق میں رنگین کپڑے ہیں اور چار من زم زم کا پانی اور وہ پانی بھی کھل گیا ہے، اور ان کپڑوں کے اوپر بہنے لگا ہے جو صندوق میں ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کا رنگ خراب ہو جائے گا۔ یہ سن کر پہرے دار نے کہا کہ اپنے صندوق لے کر دور ہو، خدا تجھ پر لعنت بھیجے! اب خادم میرا صندوق لے کر جلدی سے روانہ ہوئے اور دوسرے صندوقوں کے ساتھ جا کر شامل ہوگئے۔
یہ لوگ ابھی جا ہی رہے تھے کہ میں نے کسی کو کہتے سنا کہ ہائے افسوس! خلیفہ! خلیفہ! جب میں نے یہ سنا تو میری روح بدن سے نکل گئی اور میں نے وہ کلمہ پڑھا جس سے کسی کو پشیمانی نہیں ہوتی: لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم یہ مصیبت میں نے خود خریدی ہے۔ اب میں نے خلیفہ کو لڑکی سے کہتے سنا کہ لعنت ہو تجھ پر! تیرے ان صندوقوں میں کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے صندوقوں میں زبیدہ بیگم کے کپڑے ہیں۔
خلیفہ نے کہا کہ انہیں کھول کر مجھے دکھا۔ جب میں نے سنا کہ میرے مرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ وللہ آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ہے۔ لیکن اگر میں اس سے بچ گیا تو اس سے شادی کروں گا۔ اس میں کلام نہیں اور اگر میرا راز فاش ہو گیا تو میری گردن مار دی جائے گی۔ میں اشھد ان لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پڑھنے لگا۔
اب شہرزادکو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی، جس کی اسے اجازے ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles