Ajeeb Faisla - Article No. 1747

Ajeeb Faisla

عجیب فیصلہ - تحریر نمبر 1747

امیر المومینن حضرت علی کا عہد خلافت ہے۔ ایک نوجوان گھبرایا ہوا اور یہ کہتا ہوا کہ اے امیر المومنین مجھ میں اور میری ماں میں فیصلہ فرمایئے۔

بدھ 15 اگست 2018

نوجوان سیدنا علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر عرض کی کہ اے امیر المومنین ! میری ماں نے نو ماہ تک مجھے شکم میں رکھا پھر وضع کے بعد دوسال تک مجھے دودھ پلایا جب میں جوان ہو گیا تو اس نے مجھے گھر سے نکال دیا اور میری فرزندی سے انکار کر بیٹھی اور اب کہتی ہے کہ وہ اسے پہچانتی بھی نہیں۔
امیر المومنین: تیری والدہ کہاں ہے؟
نو جوان : فلاں قبیلہ کے فلاں مکان میں رہتی ہے۔


امیرالمومنین : اس نوجوان کی ماں کو میرے پاس لایا جائے۔
آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور فوراََ اس عورت کو اس کے چار بھائیوں اور چالیس مصنوعی گواہوں سمیت لایا گیا جو اس بات کی قسم کھاتے تھے کہ یہ عورت اس نوجوان کو جانتی بھی نہیں بلکہ یہ نو جوان جھوٹا اور ظالمانہ دعویٰ کر رہا ہے ۔ اس کا مطلب اس بات کہنے سے یہ ہے کہ وہ اس عورت کو اس کے قبیلے میں ذلیل کرے۔

(جاری ہے)

حالانکہ اس عورت کا ابھی نکاح ہی نہیں ہوا پھر یہ بچہ کہاں سے جنتی۔ یہ تو اس وقت تک پاک دامن ہے۔
امیر المومنین: اے نوجوان !تو کیا کہتا ہے؟
نوجوان: اے امیر المونین!خدا کی قسم یہ میری ماں ہے اس نے مجھے جنا اور دودھ پلایا اور پھر گھر سے نکال دیا۔ امیر المومنین : اے عورت ! یہ لڑکا کیا کہتا ہے؟
عورت: اے مومنوں کے سردار! مجھے خدا کی قسم ! نہ میں اسے پہچانتی ہوں اور نہ یہ جانتی ہوں کہ کن لوگوں میں سے ہے؟یہ مجھے خواہ امخواہ ذلیل کرنا چاہتا ہے میں ایک قریشی لڑکی ہوں اور ابھی تک کنواری ہوں۔

امیر المومنین: تو کیا اس معاملہ میں تیرے پاس گواہ ہیں؟
عورت : ہاں !یہ ہیں، اس کے بعد فوراََ چالیس گواہ قسم کھانے والے آگے بڑھے۔ جنہوں نے قسمیں کھا کر عورت کے حق میں گواہی دے دی اور نو جوان کو جھوٹا بتا دیا۔
امیر المومنین: اچھا تو آج میں تمہارے درمیان ایسا فیصلہ نافذ کروں گا جس کو مالک عرش بالائے عرش پسند فرمائے گا۔ کیوں اے عورت تیرا کوئی ولی ہے ؟
عورت: کیوں نہیں؟یہ میرے بھائی ہیں۔

امیر المومنین: (اس کے بھائیوں سے مخاطب ہو کر)کیا میرا حکم تمہارے لیے اور تمہاری بہن کے لیے قابل قبول ہوگا؟
چاروں بھائی: ہاں ہاں! کیوں نہیں!امیر المومنین جو فرمائیں ہمیں منظور ہے۔
امیر المومنین : میں خدا کو اور حاضرین کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے بلا شک اس عورت کو اس نو جوان کے ساتھ بیاہ دیا چار سو نقد درہموں کے مہر پر۔ اے قنبر! جاؤ اپنے مال میں سے میرے پاس چار سو درہم لاؤ۔
قنبر نے فوراََ تعمیلِ حکم کی اور ان درہموں کو نوجوان کے ہاتھ میں رکھ دیا۔
امیر المومنین: اے نو جوان ! ان درہموں کو اپنی عورت کی گود میں ڈال دے ۔ اور جاؤ اب میرے پاس اس حالت میں آنا کہ تجھ میں نہانے کا اثر ہو۔ (یعنی مباشرت و غسل کے حاضر ہونا)
نو جوان : یہ ارشاد سن کر اٹھا اور درہم عورت کی گود میں ڈال دیئے۔
عورت: (چلا کر) اے امیر المومنین! جہنم جہنم !! کیا آ پ یہ چاہتے ہیں کہ آپ مجھے میری فرزند سے بیاہ دیں ۔
بخدا یہ میرا فرزند ہے۔۔۔۔ میرے بھائیوں نے ایک کمینے آدمی سے میرا عقد کر دیا تھا جس سے میں نے یہ فرزند جنا پھر جب یہ بالغ ہوا تو بھائیوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کی فرزندی سے انکار کر دوں اور اسے گھر سے نکال دوں۔ بخدا یہ میرا لختِ جگر ہے۔
امیر المومنین : اچھا جاؤ اپنے فرزند کو اپنے گھر لے جاؤ۔

Browse More Urdu Literature Articles