Ameer Kabul Ka Aik Faisla - Article No. 1759

Ameer Kabul Ka Aik Faisla

امیر کابل کا ایک فیصلہ - تحریر نمبر 1759

ضلع پشاور کے دوشر اکتی اس غرض سے کابل گئے تا کہ وہاں گوشت کی تجارت کریں ۔قلیل عرصہ میں انہوں نے دوتین ہزار روپیہ کمالیا اور اپنے وطن واپس آنے کا ارادہ کیا ۔دونوں شراکتی اپنے منافع کی رقم ساتھ لے کر اپنے وطن کی طرف چل پڑے

ہفتہ 1 ستمبر 2018

ضلع پشاور کے دوشر اکتی اس غرض سے کابل گئے تا کہ وہاں گوشت کی تجارت کریں ۔قلیل عرصہ میں انہوں نے دوتین ہزار روپیہ کمالیا اور اپنے وطن واپس آنے کا ارادہ کیا ۔دونوں شراکتی اپنے منافع کی رقم ساتھ لے کر اپنے وطن کی طرف چل پڑے ۔جلال آباد کی قریب پہنچ کر انہوں نے ایک نابینا گدا گر کو دیکھا ۔جوراستہ کے کنارے ایک بڑے درخت کے نیچے یہ صدا لگارہا ”افسوس گردشِ دوراں نے سب کچھ چھین لیا حتیٰ کہ آنکھوں کی نظر بھی چھین لی ۔

کیا ہی اچھا ہو اگر پھر ایک مرتبہ ہتھیلی پر روپیہ رکھنے کا موقع میسر آجائے ۔“باربار وہ گدا گریہی جملے دھرا تا تھا ۔دونوں شراکتی اس کے قریب پہنچ گے ۔اور گدا گرسے دریافت کیا بھائی ! تم زمانے کی گردش سے نالاں کیوں ہو ؟نابینا گد ا گرنے کہا میں اس علاقے میں ممتاز حیثیت کا مالک تھا ۔

(جاری ہے)

میری بہت سی جائیدا د تھی ۔لیکن قسمت نے یوں پلٹا کھایا کہ میری آنکھوں کی بینائی بھی ساتھ لیتی گئی ۔

مجھے اس بات کا بہت شوق ہے کہ اس مفلسی کی حالت میں اگر اپنا نہیں تو دوسروں کا کمایا ہوا نقد روپیہ ان ہاتھوں میں لمحہ بھر کے لئے رکھ کر اپنے دل کو تسکین دے لوں ۔یہ تھا ما جرا جوگدا گرنے ان کو سنایا ۔انہوں نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے مناسب سمجھا کہ یہ ایک نابینا گدا گر ہے جائے گا کہاں ؟اپنے روپوں کی تھیلی اس کو ایک لمحہ کے لئے دینے میں کیا حرج ہے ۔
اس کے دل میں اگر یہی خواہش ہے تو وہ بھی پوری ہوجائے ۔ایک نے روپوں کی وہ تھیلی گداگر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ”لو بھائی فقیر ! اپنی تمنا پوری کرلو۔“گداگرنے تھیلی لیتے ہوئے ان کا شکریہ اداکیا ۔تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہا ۔”بھائی گدا گر! اب ہم کو ہماری روپوں کی یہ تھیلی واپس کردو ۔لیکن گداگر نے کمال سنجیدگی سے جواب دیا ۔
تھیلی ! تھیلی! کیسی تھیلی ؟واپس کیسے ؟دوسرے ساتھی نے گد اگر سے کہا ”مذاق مت کرو ۔تھیلی جلدی واپس کر دو ہمیں دورجانا ہے ۔مگر گداگر نے تھیلی واپس کرنے سے انکار کردیا ۔شراکتی حیران ہوئے کہ عجیب مصیبت میں پھنس گئے ۔گداگر نے کہا میں نے تمام عمر یہاں بیٹھے بیٹھے گزاردی ہے ۔پیسہ پیسہ جمع کیا ہے ۔تم کہا سے بد بخت ڈاکو یہاں پہنچ گئے جو میری ساری عمر کی کمائی ایسی آسانی سے چھین لینا چا ہتے ہو ۔
شراکتیوں نے جب گداگر کے یہ الفاظ سنے تو حواس باختہ ہو گئے ۔گداگر اٹھ کر چلنے لگا تو دونوں نے اپنا روپیہ اس سے زبردستی چھین لینے کی کوشش کی ۔لیکن گداگر نے زور زور سے چلانا شروع کردیا ۔ڈاکو ہیں ڈاکو ۔کوئی مدد کو پہنچے ۔پاس ہی ایک بستی تھی وہاں کے لوگ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور ہر دوشراکتیوں کوڈاکو خیال کرتے ہوئے گرفتار کرلیا ۔دونوں نے ہر چند کوشش کی کہ وہ دیہاتی ان کی بات کا اعتبار کرلیں لیکن بے سود۔
بستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان ڈاکوؤں کو بادشاہ کے دربار میں حاضر کریں ۔چنانچہ دونوں کو بمعہ گداگر بادشاہ کے دربار میں حاضر کیاگیا ۔امیر المومنین عدالت کی کرسی پر متمکن تھے ۔درباری حاضرتھے ۔بادشاہ نے پہلے گداگر کا بیان سنا اور پھر ملزموں کی داستانِ مظلومی سنی ۔اور پھر حکم دیا کہ ایک کڑاہی لے آؤ ۔اور اس میں پانی ڈال کر خوب گرم کرو ۔
یہ سنتے ہی دونوں شراکتی بچارے سہم گئے ۔اس درد ناک طریقہ سے اپنی موت کا خیال کرنے لگے ۔ان کی آنکھوں میں اندھیر اچھا گیا ۔کڑاہی لائی گئی پانی ڈ ال کر خوب گرم کیا گیا اور بادشاہ کے حکم کا انتظار ہونے لگا ۔بادشاہ نے غضبناک ہو کرکہا ۔لاؤ وہ روپوں کی تھیلی کھول کر پانی میں ڈال دو ۔فوراََ تعمیل ہوئی ۔

بادشاہ نے پھر کہا کڑاہی سے سب دور ہٹ جاؤ چنانچہ سب علیحدہ ہو گئے ۔

بادشاہ مسندِ انصاف سے اٹھا اور کڑاہی کے پاس آکر گرم پانی کی سطح بہ غور دیکھ کر واپس چلا گیا ۔حکم ہوا کڑاہی کا پانی گرا کر روپیہ شراکتیوں کے حوالے کردیا جائے ۔جو تھوڑی دیر قبل اپنی موت کا انتظار کررہے تھے ۔اب خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے تھے ۔بادشاہ نے فرمایا نا بینا گداگر کو مناسب سزادی جائے ۔لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔قاضی نے جرات کرتے ہوئے فیصلہ کی تفصیل سننے کی خواہش ظاہر کی ۔
بادشاہ نے فرمایا جن دو افراد کو ملزم ٹھہرایا جارہا تھا درحقیقت وہ بالکل بے گناہ تھے ۔انہوں نے گوشت فروخت کر کے روپیہ جمع کیا تھا ۔کیونکہ گرم پانی کی سطح پر چربی کے پگھلے ہوئے ذرات ظاہر ہوئے ۔جس سے یہ ظاہر ہو ا کہ ان گوشت فروشوں کے ہاتھ کا میل ہے جو ان کے ہاتھوں پر گوشت کی چربی کی وجہ سے جمتا تھا وہ روپوں کو بھی لگ گیا ہو گا ۔اس بات کی شراکیتوں سے تحقیق کی گئی جو درست ثابت ہوئی ۔بادشاہ کے اس فیصلہ سے حاضر ینِ دربار بے حد خوش ہوئے ۔

Browse More Urdu Literature Articles