Andha Berha Aur Nanga - Article No. 1787

Andha Berha Aur Nanga

اندھا ،بہرا اور ننگا - تحریر نمبر 1787

ایک مرتبہ ایسی جگہ سے گزرا جہاں چند بچے بیٹھے ایک دوسرے کو کہانیاں سنا رہے تھے بظاہران کہانیوں کا کوئی سر پیر نہ تھا ،لیکن جب میں نے ان پر غور کیا عجیب و غریب معنی برآمد ہوئے ایسی ہی ایک کہانی بیان کرتاہوں

منگل 16 اکتوبر 2018

ایک مرتبہ ایسی جگہ سے گزرا جہاں چند بچے بیٹھے ایک دوسرے کو کہانیاں سنا رہے تھے بظاہران کہانیوں کا کوئی سر پیر نہ تھا ،لیکن جب میں نے ان پر غور کیا عجیب و غریب معنی برآمد ہوئے ایسی ہی ایک کہانی بیان کرتاہوں ،اسے غور سے سنیے شاید اس ویرانے میں کوئی خزانہ تجھے مل جائے۔
ایک گنجان اور خوب آباد شہر میں تین آدمی رہتے تھے کہنے کو آدمی تھے مگر نہایت نادان اور نقائص سے بھر پور ان میں سے پہلا دور دور کی چیزیں صاف دیکھ لیتا لیکن تھا اندھا حضرت سلیمان علیہ السلام کے دیدار سے اس کی آنکھیں بے نصیب اور محروم تھیں لیکن کوسوں دور صحرا میں رینگنے والی چیونٹی کے پاؤں دیکھ لیا کر تا تھا ۔


دوسرا آدمی کانوں کا بہت تیز لیکن پٹ بہرا تھا تیسرا مادرز اد برہنہ تھا جیسے چلتی پھرتی لاش لیکن اس کی قمیض کا دامن بڑا دراز تھا۔

(جاری ہے)


ایک دن اندھے نے کہا یارو آدمیوں کا ایک گروہ چلا آتا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کس قوم کے افراد ہیں اور اس میں کتنے آدمی شامل ہیں ۔“
بہر ے نے کہا”ہاں ہاں ،تو ٹھیک کہتا ہے میں بھی ان آدمیوں کے قدموں کی آہٹ سن رہا ہوں اور ان کے باتیں کرنے کی آواز بھی میرے کانوں میں برابر آرہی ہے معلوم ہواہے خاصی بڑی جماعت ہے ۔


ننگے نے گھبرا کر کہا بھائیو،مجھے خوف ہے یہ لوگ کہیں میرے کپڑے نہ اتروالیں ۔“اندھا بول اٹھا ارے دیکھو دیکھو وہ قریب آگئے ان کے ارادے کچھ اچھے نہیں لگ رہے ایسا نہ ہو کہ ہماری مرمت کریں اس لیے پہلے ہی نکل بھاگو ۔“بہر ا کہنے لگا بے شک تو ٹھیک کہتا ہے ان کے قدموں کی آواز نزدیک آتی جارہی ہے ہو شیار ہو جاؤ ننگے نے کہا بھاگو بھا گو ایسا نہ ہو وہ میری قمیض اتار لیں میں تو سب سے زیادہ خطرے میں ہوں ۔

قصہ مختصر تینوں آگے پیچھے بھاگ دوڑتے بھاگتے شہر سے باہر نکلے اور مارے مارے ایک گاؤں میں پہنچے اس گاؤں میں انہوں نے خوب پلا ہوا ایک مرغ دیکھالیکن تھا بالکل ہڈیوں کا ڈھا نچا،گوشت کی بوٹی اس کے بدن پر نہ تھی ایسا لگتا تھا کہ ہڈیوں پرکھال منڈھ دی گئی ہے اندھے نے سب سے پہلے مرغ کو دیکھا بہرے نے اس کی آواز یعنی ککڑوں کوں سنی ننگے نے ہاتھ مار کر اسے پکڑا اور اپنی قمیض کے دامن میں چھپا لیا مرغ بے چارہ مر کر خاک ہو چکا تھا اور کوئے نے اس مردار کے بدن میں خوب ٹھونگیں ماری تھیں ان تینوں نے وہیں گاؤں میں سے لو ہے کی ایک بڑی بھاری دیگ حاصل کی اس دیگ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پینڈا تھا نہ منہ بس اس کو اٹھا کر آگ پر چڑھا دیا اور وہ پلا ہوا مرغ پکنے لگا انہوں نے اتنی آنچ دی کہ ساری ہڈیاں پسلیاں گل کر حلوا ہو گئیں پھر انہوں نے وہ مرغ دیگ سے نکالا اور جس طرح شیر اپنا شکار ہڑپ کرتاہے اسی طرح اندھے بہرے اور ننگے نے وہ گلا ہوا مرغ کھایا ،اتنا کھایاکہ ناک تک معدہ بھر گیا وہ تینوں اس ایک مرغ کو کھا کر یک لخت نہایت قوی ہیکل اور ہاتھی کی طرح موٹے تازہ ہوگئے ان کا موٹا پا اس قدر بڑھا کہ اس جہاں کی بے کراں وسعتوں میں ان کی سمائی نہ رہی مگر تعجب یہ ہے کہ اس فربہی کے باوجود وہ دروازے کی باریک سی درز میں سے نکل جاتے تھے ۔
ایک عزیز کیا عبرت کی جاہے کہ مخلوق کو پیٹ ناک تک بھرنے کا ہو کا ہو گیا ہے ہر شخص خواہ اندھا ہویا بہرا یا ننگا اس فکر میں غرق ہے کہ بس دن رات کھائے چلاجائے اور کھاکھا کر ہاتھی بن جائے خواہ وہ شے مردار ہو یا حرام یاگندی شرط صرف یہ ہے کہ دیکھنے میں اچھی لگتی ہواسے اپنے پیٹ بھرنے سے مطلب ہے لیکن موت کی راہ پر چلے بغیر چھٹکارا نہیں اور یہ وہ راہ ہے جوان ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی قرنہا قرن سے قافلے اس دروازے کے باریک اور نادیدہ روزن سے نکلے چلے آتے ہیں اور وہ روزن نظر نہیں آتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس دروازے میں وہ روزن ہے ،وہ دروازہ ہی دکھائی نہیں دیتا۔

اس عجیب وغریب حکایت میں امید کی مثال بہرے کی ہے جو دوسرے کے مرنے کی خبر تو سنتا ہے مگر اسے اپنی موت سنائی نہیں دیتی اور نہ اپنے آپ کو مرتے ہوئے دیکھا ہے حرص وہوس کی مثال اندھے کی ہے جو مخلوق خدا کے ذرا ذرا سے عیوب بخوبی دیکھتا ہے اور چار دانگ عالم میں ان کی ڈونڈی پیٹ دیتا ہے مگر اس بد نصیب کی بصارت سے محروم آنکھ اپنا عیب نہیں دیکھتی افلاس کی مثال ننگے کی ہے اسے ڈر ہے کہ کوئی اس کی قمیض نہ چھین لے حالانکہ ننگے کے پاس ہے ہی کیا جو کوئی چھینے گا یہ دنیا دار ہے اور جب مال اس ک رگ وپے میں اترا ہوا ہے وہ نہیں جانتا کہ دنیائے فانی میں ننگا ہی آیا ہے اور ننگا ہی جائے گا،لیکن ساری زندگی چور کے خوف سے اس کا جگر خون ہو ہو کے گھلتا رہتا ہے،ایسا شخص نزع کے عالم میں بھی دنیا، دنیا ہی پکارتا ہے اور عاقبت سے زیادہ اسے اپنے مال کی فکر ہوتی ہے اس وقت اس کی جان خود اس پر قہقہے لگاتی ہے اور کہتی ہے کہ تعجب ہے کہ یہ بے وقوف دنیا میں کس واسطے خوف کھایا کرتا تھا یہ وہ گھڑی ہے جب مال کی محبت رکھنے والے کو پتا چلا ہے کہ وہ کتنا مفلس اور نادار تھا اور صاحب جس کو علم ہوتا ہے کہ اس کی تمام زندگی کس بے ہنری میں کٹی۔

اے عزیز تمام علوی وفنون کا جو ہریہ ہے کہ تجھے معلوم ہوا اس بار پر ا س والے روز تیرا کیا درجہ ہو گا اپنی اصل پر توجہ تیرے سامنے ہے دنیا جہان کے علوم عقلی جاننے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ تو اپنی اصلیت کو پہچا نے ۔(حکایات رومی)

Browse More Urdu Literature Articles