Ashrafiyon Ki Theli - Article No. 1754

Ashrafiyon Ki Theli

اشرفیوں کی تھیلی - تحریر نمبر 1754

ہفتہ 25 اگست 2018

ایک تاجر حضرت سلطان محمود غزنوی کے پاس فریادی ہو۔ اس نے کہا کہ میں نے دو ہزار کی بند تھیلی آپ کے قاضی کو دی تھی کہ یہ میی امانت ہے۔ اسے تم اپنے پاس رکھو میں سفر سے واپس آکر لے لوں گا۔ قاضی نے تھیلی لے لی اور میں سفر پر چلاگیا۔ ہمارے قافلے پر ڈاکہ پڑا۔ جس میں میرا باقی ماندہ سامان بھی لٹ گیا۔ اب میں اپنی بند تھیلی آپ کے قاضی سے واپس لایا ہوں۔

مگر یہ دیکھئے اس میں اشرفیوں کی بجائے پیسے بھرے ہوئے ہیں۔
محمود: کیا تم نے قاضی سے اس کی شکایت نہیں کی؟
تاجر: جہاں پناہ ! میں اس کے پاس گیا تھا انہوں نے کہا کہ تم نے مجھے بند تھیلی دی تھی۔ میں نے بند تھیلی تجھے واپس کر دی ہے۔ علاوہ ازیں تم نے خود ہی اپنی تھیلی شناخت کی۔ اور کہا تھا کہ میری تھیلی یہی ہے اور ٹھیک حالت میں ہے ۔

(جاری ہے)


محمود: کیا تھیلی ٹھیک حالت میں تھی؟
تاجر: جہاں پناہ!تھیلی بالکل ٹھیک حالت میں تھی۔


محمود: یہ بڑی عجیب بات ہے اچھا تم جاؤ اور میں کوئی تدبیر کرتا ہوں۔
تاجر کی واپسی کے بعد سلطان نے تھیلی کو چاروں طرف سے دیکھاوہ کہیں سے دریدہ نہ تھی۔ پھر بھی سلطان اس نتیجہ پر پہنچا کہ تھیلی ضرور پھاڑی گئی ہے۔ اور اس میں سے اشرفیاں نکال کر پیسے بھر ے گئے ہیں اور پھر اسے رفو کیا گیا ہے۔ اب یہ معلوم کرنا چاہیئے کہ شہر میں کون ایسا رفو گر ہے جو رفو کر دے تو اصل اور نقل میں فرق ظاہر نہیں ہوتا۔
سلطان جب تھیلی کے معاملہ میں غور کر رہا تھا تو اس وقت ایک مسندز رنگار پر بیٹھا تھا۔ یہاں بیٹھے بیٹھے اس نے چھری نکالی اور اپنی مسند کو چیر دیا۔ پھر اسی وقت اٹھا اور تین دن کے لئے شکار کو چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد فرا ش سلطان کے کمرے میں داخل ہوا۔ دیکھا کہ مسند خاص پھٹی ہوئی ہے اس لئے داروغہ کو اطلاع دی۔ محل کے تمام ملازم جمع ہو گئے۔
اس وقت فراش فرط خوف سے کانپ رہا تھا ۔ آخر ایک بوڑھے نے کہا اے دوست! تم اس قدر ڈرومت۔ تم ابھی احمد رفوگر کے پاس جاؤ۔ وہ تمہیں اس مسند کو اس طرح رفو کر دے گا کہ اگر سلطان سو مرتبہ بھی اسے دیکھے گا تہ وہ یہ شناخت نہ کر سکے گا۔
فراش نے مسند اٹھائی اور رفو گر کے ہاں پہنچ گیا۔
احمد: اس کی اجرت دو اشرفی ہو گی۔
فراش: چار اشرفیاں حاضر ہیں۔
مگر تین دن سے پہلے اسے مکمل کر دو تا کہ سلطان کی آمد سے پہلے یہ تخت شاہی پر بچھ جائے اور یہ سمجھ لو کہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے ۔ اگر سلطان نے اس کا عیب پہچان لیا تو پھر میری سزا موت ہو گی۔
احمد: توبہ کرواے دوست!اگر سلطان نے پہچان لیا تو میرے ہاتھ کٹوا دینا۔ احمد نے دو دن میں مسند رفو کر دی اس طرح تار کے ساتھ تار جوڑدی کہ پوری مسند ایک جان ہو گئی۔
فراش نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پہلے کہ سلطان واپس آئے یہ مسند پورے اطمینان کے ساتھ شاہی تخت پر بچھا دی گئی۔
سلطان محمود شکار سے واپس آگیا۔ اس کے کمرے میں مسند بچھی ہوئی تھی۔ سلطان نے کئی مرتبہ پھٹی ہوئی جگہ پہچاننے کی کوشش کی۔ مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔
سلطان: فراش!
فراش: جہاں پناہ حاضر ہوں!
سلطان: یہ مسند پٹھی ہوئی تھی۔

فراش: حضور بالکل نہیں۔
سلطان : کذاب!میں نے خود چھری سے پھاڑی تھی(اب فراش ڈر کے مارے کانپنے لگا)
سلطان نے کہا ڈرو مت!صرف اس رفو گر کو بلا ؤ جس نے اسے رفو کیا تھا۔ (احمد رفو گر کو دربار میں حاضر کیا گیا)
سلطان: یہ مسند تم نے رفو کی ہے؟
احمد: جی حضور اسی خادم نے!
سلطان: شاباش!تم بڑے با کمال رفو گر ہو۔
احمد: حضور کا اقبال
سلطان: یہ تھیلی دیکھو یہ بھی تم نے رفو کی تھی؟
احمد: حضور! حضور کے قاضی صاحب نے اسے رفو کرایا تھا۔

سلطان: قاضی کو دربار میں حاضر کرو۔(قاضی دربار میں حاضر ہوگیا)
سلطان نے قاضی سے مخاطب ہو کر کہا۔
او ظالم تیرے بال سفید ہیں۔ میں نے اس شہر کی قضا تیرے سپر دکی تھی اور تجھے مخلوق خدا کے جان و مال کا محافظ بنایا تھا۔ کیا میرے اس اعتماد کا یہی نتیجہ ہے کہ محافظ و امین کہلائے اور لوگوں کے مال میں خیانت کرے۔
قاضی: جہاں پناہ! میں خیانت کے الزام سے پاک ہوں۔
میں نے سلطان کے اعتماد کو کبھی مجروح نہیں کیا۔ میرے مخالفین نے میرے خلاف غلط بیانی کی ہے۔
سلطان: تم نے اس تھیلی میں اشرفیوں کی بجائے پیسے بھر دیئے اور پھر امانتدا ر کو دھتکاردیا۔
قاضی: جہاں پناہ! میں ابھی اس تھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔
سلطان نے حکم دیا اور تاجر اور رفو گر دونوں دربار میں حاضر ہو گئے۔
اب قاضی عرق ندامت میں غرق تھا۔
وہ سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ اس نے کئی دفعہ معافی مانگنے کی کوشش کی مگر الفاظ اس کی زبان سے نہیں نکلتے تھے۔
سلطان نے حکم دیا کہ اس بد دیانت کو پکڑ لو۔ اس آواز کے ساتھ ہی قاضی امین پر گر پڑا اور بے حوش ہو گیا۔
اسی وقت دو ہزار مہریں لائی گئیں۔ اور تاجر کے حوالے کر دی گئیں۔
جب قاضی دربار سے نکلا۔ اس کا چہرہ سیاہ تھا اور اس کا جسم پیسنے میں غرق تھا۔
اس کے اعضاء کانپ رہے تھے۔ تمام مخلوق اسے دیکھ رہی تھی اور اس پر لعنت برسا رہی تھی۔
قاضی : بڑی مشکل سے اپنے گھ میں داخل ہوا اور اپنے پستر پر لیٹ گیا۔ رات کے وقت اس کے گھر والوں نے بہت کوشش کی کہ وہ کچھ کھا پی سکے۔ مگر غذا کا ایک ذرہ اور پانی کا ایک قطرہ بھی اس کے حلق سے نیچے نہ اتر سکا۔ صبح کے وقت جب گھر کیا سب لوگ بیدار ہوئے تو قاضی اپنے بستر پر مرا پڑا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles