Hazrat Ibrahim Bin Adham RA Ki Karamat Ka Bayan - Article No. 1379

Hazrat Ibrahim Bin Adham RA Ki Karamat Ka Bayan

حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت کا بیان - تحریر نمبر 1379

حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ ایک دربار کے کنارے بیٹھے تھے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ پہلے بادشاہ تھے اور پھر درویشی اختیار کر لی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے امراء میں سے ایک نے پہچان لیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ حالت دیکھ کر حیران ہوگیا۔اولیاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ لوگوں کے دلوں کا حال جان لیتے ہیں اس لئے اولیاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس جا کر برے وساوس کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔

منگل 18 جولائی 2017

حکایاتِ رومی:
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ ایک دربار کے کنارے بیٹھے تھے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ پہلے بادشاہ تھے اور پھر درویشی اختیار کر لی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے امراء میں سے ایک نے پہچان لیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ حالت دیکھ کر حیران ہوگیا۔اولیاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ لوگوں کے دلوں کا حال جان لیتے ہیں اس لئے اولیاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس جا کر برے وساوس کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔
لوگ احمق ہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کے پاس تو اخلاص سے جاتے ہیں۔اور اولیاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی محافل میں فاسد خیالات لے کرجاتے ہیں۔اگر تم کو ر باطن ہوتو بزرگوں کے سامنے زیادہ دلیل بن کر جاؤ۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ اس کے وسوسے کو تاڑ گئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سوئی جس سے گوڈری سی رہے تھے وہ دریا میں پھینک دی۔

(جاری ہے)

پھر دریا سے سوئی واپس مانگی تو مچھلیاں سونے کی لاکھوں سوئیاں لے کر سطح آب پر نمودار ہوئیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے تواپنی سوئی چاہیے۔پھر ایک مچھلی ان کی سوئی لے کر آئی ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا نے اس شخص سے فرمایا کہ دنیا کی حکومت کا طلبگار نہ ہو بلکہ روحانیت کو طلب کر۔عالم غیب ایک باغ کی مانند ہے جس کا تھوڑا سا حصہ اس دنیا میں موجود ہے۔
عالم غیب ایک مغز ہے اور یہ دنیا اس کا ایک ادنیٰ سا چھلکا ہے۔اگر عالم غیب کے باغ میں قدم نہیں پہنچتا تو اس کی خوشبو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔نفسانی خواہشات کو دفع کرو،عاشقوں کی صحبت میں رہو اور جب عالم غیب کی خوشبو کو پاؤ گے تو روح عالم غیب کی جانب کھینچے گی اور بالآخر سینے میں تجلیات الٰہی کا ظہور ہوگا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص میں وہی عالم غیب کی خوشبو تھی جس سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں روشن ہوگئیں اور ان کی بینائی واپس لوٹ آئی۔
یہی عالم غیب کی خوشبو حضور نبی کریم ﷺ نے نماز میں محسوس کی اور فرمایا کے نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
لطائف ستہ قلب روح،نفس،سر،خفی،اخفی ایک دوسرے سے ملے ہوئے اگر مصفی ہوجائیں تو دوسرے بھی غذا حاصل کرتے ہیں۔قلب کو ذکر کی غذا ملتی ہے تو دوسرے لطائف بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔آنکھ متاثر ہوتی ہے تو اسے دل بھی اثر پکڑتا ہے۔پھر دل میں کیفیت اخلاص،صدق اور عشق پیدا ہوتی ہے ۔
عشق سے اخلاص پیدا ہوتو دیگر حواس بھی متاثر ہوتے ہیں اور ان میں وصل محبوب کا ذوق پیدا ہوجاتا ہے اور اس طرح رحمت خداوندی سے عالم غیب کا ایک تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ہر لطیفہ دوسرے لطائف کے باہمی تعلق میں کسی قسم کے تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔جب مرید کے حواس شیخ کامل کے حواس کے تابع ہوگئے تو آسمان و زمین تک شیخ کامل کے تابع ہوجائیں گے۔

چھلکا بھی اس کی ملکیت ہوتا ہے جو مغز کا مالک ہوتا ہے۔جسم اور روح کی نسبت ویسی ہی ہے جیسے کے آستین اور ہاتھ کی۔عقل اور روح کے مخفی ہونے میں فرق ہے اور عقل روح کے اعتبار سے زیادہ مخفی ہے۔روح دوسری روح کو جلدی پہچان جاتی ہے اور عقل دیر سے ۔ہر انسان نے حضور نبی کریم ﷺ کی عقل کو جان لیا اور ان کو عقل مند کہا لیکن بے شمار لوگ آپﷺ کی وحی کی استعداد کو نہیں جان سکے اور وحی کی استعداد کی بھی کچھ علامات ہیں اور چونکہ وہ نادر ہوتی ہے اس لئے عقل ان کو نہیں پہچان پاتی اور ان علامتوں کو جنون کا اثر سمجھتی ہے اور حیران ہوجاتی ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خِضر علیہ السلام کے کاموں کا مناسب نہ جانا اور ان پر اعتراض کیا۔اسرارِ غیبی کو سمجھنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر کی عقل ناکام ہوگئی تو ہم جیسوں کو اس کا ادراک کیسے ہوسکتا ہے؟تحقیقی علم والا خاموشی سے اللہ عزوجل کے ساتھ خریدوفروخت میں مصروف رہتا ہے۔اللہ عزوجل نے مومنوں سے ان کے جان اور مال کو جنت کے عوض خرید لیاہے۔
ہر علم کا خریدار اس کے لئے مناسب ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے علوم کے خریدار فرشتے تھے نہ کہ دیو پری اور جن لوگوں کا تعلق سفلی علوم سے ہے ان کا تعلق چوہے کے علم کی مانند صرف خوراک کی تلاش ہے لہٰذا ان کو اتنی ہی عقل عطا کی گئی ہے ۔دنیا کو اگر زمین کی ضرورت نہ ہوتی تو زمین کبھی نہ بنتی۔اگر دنیا کو آسمانون کی ضرورت نہ ہوتی تو ان کو بھی ہرگز پیدا نہ کیا جاتا۔
سورج ،چاند،ستارے سب ضرورت کے تحت ہی پیدا کئے گئے۔اشیاء کے وجود ان کی ضرورت کی شدت کی وجہ سے ہے۔پس تم اپنی احتیاج اور ضرورت کو بڑھاؤ تاکہ رحمت الہٰی جوش میں آئے۔
دنیا کا یہی دستور ہے۔ کہ جب تک فقیر اپنی مجبوری اور ضرورت کا اظہار نہیں کرتا اس کو کچھ عطا نہیں کرتا۔عالم ناسوت میں پھنسے ہوئے اگر ضرورت محسوس کریں تو اللہ عزوجل ان کو نورِ بصیرت عطا ہوجاتا ہے تو ان کی پرواز عالم لاہوت کی جانب شروع ہوجاتی ہے۔
پھر ان پر اسرارِ الہٰی کھلنا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ بلبل کی مانند نغمہ سرائی کرنے لگتے ہیں۔جسم اور روح کی نسبت اگر مفہوم سے ہوتی تو صرف اس قدر جیسا کہ پانی کی نہر یا پرندے کی گھونسلے سے ان کا تعلق حقیقت میں غیر معلوم ہے۔روح کی اس قوتِ فکریہ میں ہمیشہ اچھے برے خیالات آتے جاتے ہیں۔جس طرح پانی بظاہر کایوا نظرآتا ہے لیکن حقیقت میں یہ رواں ہے۔
اس طرح روح ملا ء اعلیٰ کی جانب رواں ہے لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔سطح آب کی روانی خس وخاشاک کے گزرنے سے نظر آتی ہے ۔اسی طرح روح کی قوتِ فکریہ کی سطح ہر جو چھلکے ہیں وہ غیبی پھلوں کے چھلکے ہیں ۔ان پھلوں کا مغز غیب میں تلاش کرو،لامحالہ اس کا کوئی منبع ہے۔عام عارفوں کی ارواح کی روانی تیز ہے اس لئے اس پر غم وغصہ کے خس وخاشاک زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتے۔

جب اس امیر شخص نے مچھلیوں کو حضرت ابراہیم اب ادہم رحمتہ اللہ علیہ کے تابع دیکھا اس پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور اس کو اپنی لاعلمی پر افسوس ہونے لگا۔پہلے اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ فقرا اختیار کرنے میں حیرانگی کا اظہار کرنے لگا پھر جب اس پر اسرار کا دروازہ کھل گیا اور وہ ان کے عشق کا دیوانہ ہوگیا۔اگر مرید فیض حاصل نہ کرسکے تو اس میں شیخ کامل کا کچھ نقصان نہیں۔
شیخ کامل تو ازلی دریا ہوتا ہے کوئی پیاسا رہے تو اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔
بد ایک آگ کی صورت اور شیخ کامل توازلی دریا ہوتا ہے کوئی پیاسا رہے تو اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔بد ایک آگ کی صورت اور شیخ کامل ایک آب کوثر ہے۔پانی آگ کو ختم کردیتا ہے اور آگ ہرگز پانی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
شیخ کامل میں عیوب ڈھونڈنے والا درحقیقت جنت میں کانٹے تلاش کرتا ہے حالانکہ کانٹا تو وہ خود ہے۔
شیخ کامل میں عیب تلاش کرنے والا خود عیب دار ہے۔جس ہنر کو شیخ کامل نہ سمجھیں وہ ہنر نہیں ہے اور جس یقین کو شیخ کامل یقین نہ سمجھے وہ یقین نہیں ہے ۔شیخ کامل قبلہ کی مانند ہوتا ہے اور اس کی طرف دور سے بھی رخ کرنے سے فیض حاصل ہوجاتا ہے۔گدھا دلدل میں پھنسا ہوتو نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ دنیا بھی دلدل ہے اس سے نکلنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
اگر کوئی بداعمالی سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ گدھے سے بھی بدتر ہے۔
مقصود بیان:
مولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں حضرت ابراہیم بن ادم رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت بیان کرتے ہیں۔حضرت ابراہیم بن ادم رحمتہ اللہ علیہ بلخ کے بادشاہ اور عظیم المرتبت حکمران تھے۔ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ محو خوب تھے کہ چھت پر کسی کے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے آواز دے کر پوچھا کون ہے؟ جواب ملا کہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کاشناسا ہوں اور چھت پر اپنے اونٹ کی تلاش میں آیا ہوں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چھت پر اونٹ کس طرح آسکتا ہے؟جو اب ملاتو آپ رحمتہ اللہ علیہ کو تخت وتاج میں خدا کیسے مل جائے گا؟یہ جواب سننا تھا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ پر خوف طاری ہوگیا۔دوسرے دن آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے دربار میں موجود تھے تو ایک شخص دربار میں آیا۔
اس شخص کا جلال دیکھ کر تمام حاضرین پر اس کا رعب طاری ہوگیا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کرنے آیا ہے؟اس شخص نے کہا کہ وہ مسافر ہے اور یہاں قیام کرنے کی نیت سے آیا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ سرائے نہیں محل ہے۔اس شخص نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے قبل یہاں کون آباد تھا؟ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا میرے باپ دادا۔
غرض اسی طرح وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے آباؤ اجداد کا پوچھتا گیا۔آخر میں اس شخص نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد اس تخت پر کون بیٹھے گا؟آپ رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میرا بیٹا۔اس شخص نے اس بات پر سر ہلاتے ہوئے کہا آپ رحمتہ اللہ علیہ سے فرمایا کہ یہ محل نہیں سرائے ہے جہاں کچھ دیر کے لئے لوگ آتے ہیں اور قیام کرکے چلے جاتے ہیں۔
یہ بات کہہ کر وہ شخص غائب ہوگیا۔حضرت ابراہیم بن ادم علیہ اسلام ابھی رات والے واقعے کو بھلا نہیں پائے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔یکے بعد دیگرے ان واقعات نے ان کو سوچنے پر مجبور کردیا ۔انہی واقعات کے دوران ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ شکار کے لئے آپنے وزیروں کے ہمراہ جنگل میں گئے۔دوران شکار ایک ہرن کے تعاقب میں آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے۔
بالآخر جب تعاقب کرتے ہوئے ہرن کو پکر لیا تو ہرن حکم ربی سے گویا ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کرنے کے بعد کہا:اے ابراہیم (رحمتہ اللہ علیہ)! کیا تم کو اسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے؟حضرت ابراہیم بن ادم رحمتہ اللہ علیہ نے جب ہرن کا کلام سنا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسی وقت توبہ کی اور تخت وتاج چھوڑ کر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

نیز حضرت مولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مرشد کامل سے فیض حاصل کرنے کے لئے خلوص کا ہونا ضروری ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہو اور اپنی بد اعمالیوں سے نکلنے کی کوشش کرے وگرنہ وہ گدھے سے بھی بدتر ہے جو دلدل میں پھنسا ہو تو اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ یہ اپنی بد اعمالیوں پر توبہ کرنے اور ان پر نادم ہونے کو تیار نہیں ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles