Jaan Ka Sadqa Maal - Article No. 1790

Jaan Ka Sadqa  Maal

جان کا صدقہ،مال - تحریر نمبر 1790

آقا نے مرغ کی زبانی اپنے مرنے کی خبر وحشت اثرسنی تو پیروں تلے کی زمین نکل گئی ہاتھ پیروں میں دم نہ رہا گرتا پڑتا ،بدحواس ،بدحال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ساری داستان سنا کر فریاد کی کہ اے خدا کے سچے نبی،مجھے ملک الموت کے نیچے سے بچائیے۔

جمعہ 19 اکتوبر 2018

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک نوجوان آیا اور درخواست کی کہ اے اللہ کے نبی ،میں نے سنا ہے کہ آپ تمام مویش وطیور کی بولیاں جانتے ہیں ،اور جب یہ جانور آپس میں باتیں کرتے ہیں تو آپ ان کی باتوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں آپ یہ فن مجھے بھی سکھا دیجیے تاکہ میں جانوروں کی بولیاں سن کر خدا کی معرفت حاصل کر سکوں ،کیوں کہ بنی آدم کی زبانیں تو کھانے پینے اور فریب ودغا کے دھندے ہی میں لگی رہتی ہیں ممکن ہے حیوانات اپنے پیٹ بھرنے کے لیے کچھ اور تدبیروں پر عمل کرتے ہوں۔

“ حضرت موسیٰ نے اپنے نور بصارت سے اس نوجوان کے ذہن میں چھپی ہوئی اصل بات دیکھ لی اور اس سے کہا”اس خیال خام سے بازرہ ،اس میں بے شمار خطرے پنہاں ہیں جانوروں کی بولیاں سیکھ کر خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوتی اس کے لیے خدا ہی سے رجوع کر۔

(جاری ہے)


موسیٰ کلیم اللہ نے اس جوان کو بہت سمجھایا بجھایا ،لیکن جس قدر آپ اسے روکتے اور سمجھاتے اسی قدر وہ ضد کرتا جاتا انسان کی فطرت ہے کہ اسے جس بات سے منع کیا جائے ،اربا کروہی بات کرتا ہے اس نے بے حد خوشامد سے کہا:
”اے پیغمبر خدا،مجھے اس بات سے محروم کرنا،آپ کے لطف وکرم اور مہرو محبت سے بعید ہے آپ کو حق تعالیٰ نے بڑی صفات سے نوازا اور نور بصیرت بخشا ہے کسی شے کی حقیقت آپ سے پوشیدہ نہیں اگر آپ نے مجھے جانوروں کی بولیوں کے فن سے آگاہ نہ کیا تو میرا دل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گااور میری مایوسی کی کوئی انتہا نہ ہو گی۔


تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا”یا الٰہی ! تو بے نیاز ہے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس نوجوان کو عقل وخرد کو شیطان مردو دنے اپنا کھلو نا بنالیا ہے تو ہی بتا،میں کیا کروں ؟اگر اسے جانوروں کی بولیاں سکھادوں تو یہ بات اس کے حق میں نیک نہ ہو گی اور اگر نہ سکھاؤں تو اس کا دل صدمے سے چور ہوتا ہے ۔“
حق تعالیٰ نے حکم دیا”اے موسیٰ علیہ السلام “تم اس نوجوان کی خواہش پوری کرو،کیوں کہ ہماری سنت ہے ہم کسی کی دعا رد نہیں کرتے۔

یہ حکم پانے کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوچا ایک بار پھر اس نوجوان کو اس خیال سے باز رہنے کی کوشش کروں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہایت شیریں اور نرم لہجے میں سمجھایا کہ خدا نے اجازت تو فرمادی ہے اور اب تیری مراد خود بخود پوری ہو جائے گی لیکن تیرے حق میں بہتر ہے کہ یہ خیال ذہن سے نکال دے اورخدا سے ڈر،کیونکہ یہ پٹی شیطان نے تجھے پڑھائی ہے مجھے یقین ہے کہ تو سینکڑوں آفتوں میں پھنس جائے گا اور آخر میں سوائے ندامت وپشیمانی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

اس بات نے اس نوجوان پر صرف اتنا اثر کیا کہ وہ کہنے لگا”بہت بہتر میں تمام جانوروں کی بولی سیکھنے کے خیال سے در گزر کرتا ہوں لیکن کم از کم دو جانوروں کی بولیاں تو ضرور ہی سکھا دیجیے ایک اس کتے کی بولی جو میرے مکان کے دروازے پر پہرا دیتا ہے اور دوسری اس مرغ کی بولی جو میرے گھر میں پلا ہوا ہے پس میرے لیے ان دو جانوروں کی بولی ہی سمجھ لینا بہت ہے ۔

“حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا”اچھا ،جاآج سے ان دونوں حیوانوں کی بولی کافن میں نے خدا کے حکم سے تجھے عطا کیا۔“
وہ نوجوان خوش خوش گھر آگیا اور اگلے روز اپنے پالتو جانوروں کی باتیں سننے کے لیے دروازے کے قریب کھڑا ہو گیا تھوڑی دیر بعد گھر میں کام کرنے والی خادمہ ہاتھ میں ایک کپڑالیے دروازے پرآئی اس میں رات کا بچا کھچا روٹی کا ایک ٹکڑا تھا وہ خادمہ نے باہر پھینک دیا اسی وقت مرغ پھڑ پھڑاتا ہوا آیا اور وہ ٹکڑا اٹھا کر اپنی چونچ میں دبالیا پہرا دینے والے کتے نے یہ دیکھ کر مرغ سے کہا”یار توبڑا لالچی ہے دانہ دنکا بھی چگ کراپنا پیٹ بھر سکتا ہے باسی روٹی کا یہ ٹکڑا ہمارے حصے کا تھا وہ بھی تونے اچک لیا۔

مرغ نے کتے کا شکوہ سنا تو جواب میں کہا”بھائی“اس باسی روٹی کا رنج نہ کر ذرا صبر سے کام لے خدا نے تیرے لیے بہترین نعمت مقرر کی ہے کل ہمارے مالک کا چہیتا گھوڑا مرنے والا ہے اس کا گوشت خوب پیٹ بھر کر کھائیویوں خدا تجھے بے کوشش اور بے مشقت رزق عطا کرے گا۔“
اس نوجوان نے مرغ کی یہ بات سنتے ہی تھان پر سے گھوڑا کھولا ،بازار میں لے جاکر اس کے رام کھرے کیے اور خوشی خوشی گھر واپس آیا اگلے روز صبح پھر خادمہ نے دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ٹکڑا زمین پر گرا مرغ پھر اچک کر لے گیا اور کتا منہ دیکھتا رہ گیا ۔
آخر اس نے مرغ سے کہا”اے تو بڑا چالاک اور فریبی ہے تو نے کل کہا تھا کہ آقا کا گھوڑا مر جائے گا اور مجھے خوب پیٹ بھر کر گوشت کھانے کو ملے گااب بتا گھوڑا کہاں مرا ؟آقا نے تو اسے لے جا کر بازار میں بیچ ڈالا۔معلوم ہوتا ہے تو ازلی جھوٹا ہے سچائی تیرے مقدر میں نہیں ۔“
مرغ جھوٹا نہیں بڑا با خبر تھا اس نے جواب دیا یار تو خواہ مخواہ تاؤ کھاتا ہے گھوڑاتو مرنے ہی والا تھا یہاں نہ مرا دوسری جگہ جا کر مر گیا ہمارا آقا گھوڑا بیچ کر نقصان سے تو بچ گیا اور بظاہر اپنا نقصان دوسرے کی گردن پر ڈال دیا ،لیکن فکر نہ کر کل ان شاء اللہ اس کا اونٹ مرجائے گا پھر تیری پانچوں گھی میں اور سر کڑا ہی میں ہو گا۔

نوجوان لپکا ہوا گیا اور اونٹ کو بھی بازار میں لے جا کر دام وصول کرلیے جانور کے مرنے کے صدمے اور رقم کے نقصان سے چھٹکارا پایا دل میں خوش تھا کہ ان جانوروں کی بولیاں سیکھ کر فائدے ہی میں رہا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خواہ مخواہ ڈرا دیا تھا کہ ہزاروں آفتوں میں پھنس جائے گا ابھی تک تو کوئی آفت نہیں آئی۔
تیسرے دن کتے نے مرغ سے کہا”اے او زمانے بھر کے کذاب کب تک کاٹھ کی ہانڈی آپ پر چڑھا ئے جائے گا تو توبڑا ہی فریبی نکلا،آخر جھوٹ بولنے میں مزا کیا آتا ہے ؟“مرغ نے کتے کی یہ جھاڑ سن کر کہا”یارجانی میں جھوٹ نہیں بولتا مالک نے اونٹ کو بھی لے جا کر بیچ ڈالا اور پیسے جیب میں رکھے اب وہ اونٹ جس بد نصیب نے خریدا تھا اس کے گھر جا کر مر گیا ہے بہر حال تو غم نہ کر کل ہمارے آقا کا غلام مرے گا،موت نے اسے تاکا ہے غلام کے مرنے کے بعد آقا فقیروں کو روٹیاں اور گوشت بانٹنے کا اہتمام کرے گا پھر تیرے مزے ہی مزے ہیں لے اب خوش ہو جا۔

مرغ کی بات سنتے ہی نوجوان نے غلام کو بھی ایک شخص کے ہاتھ اچھی قیمت پر بیچ دیا اور نقصان سے بچ کر جی میں بہت خوش ہوا اس نے دل میں کہا،خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تین حادثوں سے باربار بچا لیا ،اگر کتے اور مرغ کی بولیاں مجھے نہ آتیں تو بڑا بھاری نقصان اٹھانا پڑتا۔
چوتھے دن کتے نے لال پیلی آنکھیں نکال کر مرغ سے کہا”ابے او جھوٹوں کے بادشاہ ،تو نے یہ بھی سوچا کہ تیری یہ دروغ گوئی کب تک چلے گئی،تو کہتا تھا کہ غلام مرے گا اور اس کے مرنے پر ہمارا آقا فقیروں میں گوشت اور بوٹیاں بانٹے گا غلام کہاں مرا؟“
مرغ نے جواب دیا بخدا میں نے سچ کہا تھا آقا اگر اس غلام کو نہ بیچتا تو وہ اس مکان میں مرتا بہر حال جس نے اسے خریداوہ اب نصیبے کورورہا ہو گا کیوں کہ غلام اس کے گھرجاتے ہی اگلے روز مر گیا اور بے چارے خریدار کی رقم برباد ہو ئی لیکن تو اب خوش ہو کہ خود ہمارے آقا کی باری آگئی ہے کل یہ یقینا مرجائے گا اب دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو موت کے فرشتے سے کیوں کر بچائے گا کاش ! بے وقوف اتنا سمجھتا کہ ایک نقصان سینکڑوں نقصانوں کا صدقہ ہوتا ہے یاد رکھ کہ جسم ومامل کا زیاں ،جان کا صدقہ ہے دنیاوی معاملات میں انسان بعض اوقات زرومال خرچ کرکے اپنی جان بچالیتا ہے لیکن افسوس کہ قدرت الٰہی کے رازوں سے جاہل ہے کہ یہاں اپنا مال بچانے کی کوشش کرتا ہے ،اور نہیں جانتا کہ وہی مال اگر اپنی ذات پر سے صدقہ کرے تو نقصان ،فائدہ بن جائے ،خیر اب تو قصہ ہی تمام ہوا چاہتا ہے آج ہمارا آقا سوئے عدم روانہ ہو جائے گا پھر اس کے والی وارث گائے ذبح کریں گے اور دیگیں چڑھیں گی،فقیروں اور محتاجوں کا ہجوم ہو گا،روٹیوں کے ٹکڑے اور ہڈیاں بوٹیاں اس کثرت سے تجھے کھانے کوملیں گی کہ جن بھر جائے گا ہاں گھوڑا ،اونٹ اور غلام کی موت ہمارے بے وقوف اور مغرور آقا کی جان کا بدلہ تھامال کے نقصان اور اس کے رنج وعالم سے تو محفوظ رہا،لیکن اپنی جان گنوائی۔

آقا نے مرغ کی زبانی اپنے مرنے کی خبر وحشت اثرسنی تو پیروں تلے کی زمین نکل گئی ہاتھ پیروں میں دم نہ رہا گرتا پڑتا ،بدحواس ،بدحال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ساری داستان سنا کر فریاد کی کہ اے خدا کے سچے نبی،مجھے ملک الموت کے نیچے سے بچائیے۔
اس نوجوان نے پھر منت سماجت شروع کی اور اس قدر رویا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس پر رحم آیا اور ارشادہوا ”اے نوجوان ،اب تیرکمان سے نکل چکا اور چھوٹا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آتا قضا نے تیرا گھر تاک لیا ہے اور اسے ٹالنا میرے بس میں نہیں ہاں بارگاہ الٰہی میں تیرے لیے یہ درخواست پیش کرتا ہوں کہ جب تیری روح بدن کا ساتھ چھوڑے تو ایمان کی دولت تجھے نصیب ہو وہی زندہ ہے جو ایمان سلامت لے جائے۔

ابھی پیغمبر خدا کی بات پوری بھی نہ ہوئی کہ نوجوان کا جی مالش کرنے لگا ،دل گھبرایا ،ہاتھ پاؤں سنسانے لگے یکا یک خون کی ایک قے ہوئی وہ قے ہیضے کی نہ تھی موت کی تھی ،اسی وقت چار آدمی اسے کندھوں پر لاد کر گھرلے گئے مکان پر پہنچتے اس پر تشنج طاری ہو گیا زبان بند ہوئی آنکھوں کی پتلیاں پھر گئیں کانوں کی لویں مڑگئیں آخر کار اس نے ایک ہچکی لی اور اپنی جان ،جان آفریں کو سونپ دی ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر سنی تو درگاہ الٰہی میں دعا کی اے باری تعالیٰ اسے ایمان کی دولت نصیب فرما،اپنی شان الوہیت کے صدقے میں اسے بخش دے ہر چند اس نے گستاخی اور ضد کی لیکن وہ نادان تھا اس پر رحم فرما خدائے بزرگ وبرتر نے اپنے پیغمبر کی دعا قبول فرمائی اورا س نوجوان کو بخش دیا۔
“ (حکایت رومی)

Browse More Urdu Literature Articles