Jhooton Ka Badshah - Article No. 1218

Jhooton Ka Badshah

جھوٹوں کا بادشاہ - تحریر نمبر 1218

ایک جھوٹا مکار شخص پار ساؤں کا حلیہ بنا کر بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل میں سے ہوں اور حج کے سفر سے واپس آرہا ہوں ۔

بدھ 1 مارچ 2017

حکایت سعدی رحمتہ اللہ علیہ :
ایک جھوٹا مکار شخص پار ساؤں کا حلیہ بنا کر بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل میں سے ہوں اور حج کے سفر سے واپس آرہا ہوں ۔
یہ کہہ کر اس نے بادشاہ کی شان میں ایک بہت ہی اچھا قصیدہ پڑھا ۔
بادشاہ قصیدہ سن کر اور اسے عالی نسب اور حاجی یقین کر کے بہت خوش ہوا ، اور خلعت کے علاوہ اسے بہت سا روپیہ بخشا ، لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اس مکار کے رخصت ہونے سے پہلے ایک درباری جو سمندری سفر سے واپس آیا تھا دربار میں داخل ہوا ، اور اس شخص کو پہنچا کر کہا :
یہ ہرگز حاجی نہیں ہے ۔
اس کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے ۔ اسے تو حج کے دن میں نے بصریٰ کے بازار میں دیکھا تھا ۔
جب اس کے بارے میں تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ عالی نسب ہونا تو بڑی بات ہے ، یہ مسلمان ہی نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

روم کے شہر ملا طبہ کا رہنے والا عیسائی ہے ، اور اس نے جوقصیدہ پڑھا ہے ، وہ مشہور شاعر انوری کا لکھا ہوا ہے ۔
یہ حالت جان کر بادشاہ بہت غضب ناک ہوا، اس نے حکم دیا:
اس سے انعامات چھین لئے جائیں اور ذلیل کرکے شہر سے نکال دیا جائے ۔


چورکی چوری اور جھوٹے کا جھوٹ ظاہر ہوجائے تو وہ ڈر جاتا ہے ، لیکن اس مکار شخص نے اپنے حواس درست رکھے ، جلدی سے بولا :
مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے ، میں نے جھوٹ پر جھوٹ بولا، لیکن اب حضور کی خدمت میں ایک ایسا سچ بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے بڑھ کر کوئی بات سچ نہ ہوگئی ۔
بادشاہ نے اس کی یہ بات سن کر کہا :
اچھا کہہ ، کیا کہتا ہے ۔

وہ مکار شخص بولا ۔
حضور والا ! وہ سچی بات یہ ہے کہ جھوٹ سے خالی کوئی بھی نہیں ، بلکہ جتنا زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے ،اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے ۔
آپ میرے جھوٹ پر بہت خفا ہیں ، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ کی ملاوٹ سے کوئی مال بھی پاک نہیں آپ دہی ہی کی مثال لے لیجئے ، اس میں بھی دو حصے پانی ہے ، اور جھوٹ میں بڑے چھوٹوں کو شکست ہی دیتے آئے ہیں ۔

بادشاہ سن کر ہنس پڑا اور کہا :
بے شک یہ بات ٹھیک ہے ، تو نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ سچی بات کبھی نہ کہی ہوگئی ۔
یہ کہہ کر بادشاہ نے حکم دیا :
اس کے انعامات لوٹا دیئے جائیں ، اورا سے عزت کے ساتھ رخصت کردیا جائے ۔
اس حکایت میں شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے جھوٹ کو انسان کی ایک ایسی ضرورت نہیں بتایا کہ اس کے بغیر گزارہ ہی نہ ہوسکے ۔
بلکہ بگڑے ہوئے معاشرے کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے کہ جب لوگ اخلاقی زوال میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ بڑے سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے بھی خوف نہیں کھاتے ، بلکہ جو شخص جتنا زیادہ عقل مند اور بااختیار ہوتا ہے ، اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے ۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکایت میں یہ کنا یہ بھی موجود ہے کہ خود بادشاہ کی ذات کذب بیان سے پاک نہ تھی ۔ اس لئے وہ بڑوں کے بڑا جھوٹ بولنے کی بات سن کر ہنسا ، اور اسے نصرانی قابل معافی نظر آیا۔

Browse More Urdu Literature Articles