Khuda Sath Hai To Sab Sath Hain - Article No. 1797

Khuda Sath Hai To Sab Sath Hain

خداساتھ ہے تو سب ساتھ ہیں - تحریر نمبر 1797

اللہ کا شکر ہے کہ بچپن سے ہی کوئی بہت زیادہ ڈرپوک تو نہیں رہی کہ بالکل ہی اکیلی نہ رہ سکوں مگر اندھیرے اور اکیلے پن کا ایک نفسیاتی ساخوف بہر حال اعصاب پر طاری ہوہی جاتا ہے ۔

ہفتہ 27 اکتوبر 2018

صدف نایاب
آج سب گھر والے ایک رشتہ دار کی طرف جانے کی تیاری میں مصروف تھے ۔میں نے چھوٹی بیٹی کو بھی ساتھ ہی بھیج دیا کہ چلو سیر ہو جائے گی۔میرا بھی جانے کا ارادہ تھا مگر چھوٹے بیٹے کی طبیعت خرابی کہ باعث جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور اسے ہسپتال لے کر چلی گئی۔واپس آئی تو گھر بالکل خالی تھا۔اگر چہ بالائی منزل پر رشتہ دار موجود تھے ۔مگر نچلی منزل میں میں بالکل اکیلی اپنے دو سال کے بچے کے ساتھ تھی ۔

اوپر والوں نے بھی شاید یہ سمجھا کہ میں بھی گئی ہوئی ہوں لہٰذا ان کا دروازہ بھی اوپر سے بند تھا۔اب میں بالکل تن تنہا ،نیچے کا پورشن ہوتا بھی خوب بڑا اور لمبا ہے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ بچپن سے ہی کوئی بہت زیادہ ڈرپوک تو نہیں رہی کہ بالکل ہی اکیلی نہ رہ سکوں مگر اندھیرے اور اکیلے پن کا ایک نفسیاتی ساخوف بہر حال اعصاب پر طاری ہوہی جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

ابھی ساگ بھی رکھا ہے وہ بھی بنانا ہے ۔میں یہ سوچ ہی رہی تھی اور پالک کی گڈیاں اٹھا کر لائی کہ اب کاٹوں گی کہ اچانک انتہائی زوروشور سے آندھی چلنے لگی۔سائیں سائیں کی ہو لناک آوا زدروازے کھڑکیاں سب تڑ تڑبجنے لگی۔
بجلی ایک جھٹکے سے چلی گئی مگر اللہ کا شکر یوپی ایس کی بدولت یہ پریشانی بھی ایک لمحہ سے کم کی ہی تھی ۔وینٹ میں رکھے کوڑے کے ڈبے لڑکھڑانے لگے۔
ایک زور دار دھما کہ ہوا اور بجلی کی کڑک بادل کی گرج سے میں سہم گئی۔وینٹ میں ہی لاونج کی جالی میں کو لر لگا ہوا ہے اور اس پر کچھ فالتو تھرما پول کی شیٹیں رکھی ہوئی ہیں جو کہ تیز آندھی کے باعث سر سر شیشے سے ٹکرا کر ایک عجیب سی آواز پیدا کر رہیں تھیں ۔پورچ میں کھڑی گاڑی بھی گرج چمک کی آواز سے بولنے لگی۔بیٹھک کا دروازہ اگر چہ بند تھا مگر تند ہوا کے جھونکے اسے دھکا دے رہے تھے ،جس کے باعث وہ دھڑ دھڑ بول رہا تھا۔

پانچ دس منٹ کے اس عرصے میں سارا گھر ایک پر سرار حویلی کا نقشہ پیش کرنے لگا اور ان سب میں میرے کچھ دیر کے لیے ڈر کے مارے اوسان خطا ہونے لگے ۔بیٹا بھی ان آوازوں سے ڈ ر کر رونے لگا۔میں نے اپنے میاں کو فون کرکے پوچھا کہ آپ کہاں ہیں ؟کسی جگہ ضروری کام سے جانا تھا جس کے باعث دیر سے لوٹنا تھا ۔میں نے تھوڑا برہم ہوتے ہوئے کہاکہ۔”آج جلدی آجائیں چھوڑیں کل چلے جائیے گا“۔
مگر ان کا کام ضروری تھا اس لیے مجھے سمجھانے لگے ۔میں نے بھی ”ٹھیک ہے “کہہ کر فون کا ٹ دیا۔ابھی میں اسی ٹینشن کی حالت میں تھی کہ ایک احساس نے دل دماغ میں دستک دی اور میں اپنے آپ کو انتہائی طاقت ور محسوس کرنے لگی۔
اگر چہ میں ڈر گئی تھی مگر”حسبنا اللہ “کا وردبے اختیار زبان پر جاری ہو گیا۔ایسے میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ چلو کوئی اور ذی روح نہ صحیح مگر اللہ تو ساتھ ہے ۔
اس احساس نے مجھے بے پناہ حوصلہ اور ہمت بخشی ۔ایک اور اتفاق یہ ہوا کہ دن میں میں اپنی بیٹی کو یہ بتا رہی تھی کہ ”بیٹا چاہے ماما بابا آپ کو دیکھیں نہ دیکھیں مگر اللہ آپ کی ہر حرکت کو دیھ رہا ہے “۔بس اس بات سے عمل کا وقت ا س وقت مجھ پر آیا اور اللہ نے شاید مجھے چیک کرنے کے لیے ہی مجھے ان حالات میں رکھا کہ میں اپنے اس کہے پر کتنا ایمان رکھتی ہوں ۔

اللہ کے ہونے کا احساس بہت ہی زبردست تھا۔بالکل ایسا لگا کہ کوئی میرے ساتھ ہے ،میرے دل کہ بالکل قریب ۔ایسے والہانہ جذبات نے مجھے حقیقی خوشی دی ۔مجھے خود کو سنبھالنے میں مدد دی ۔ورنہ سچ پوچھیے مجھے تو عاد وشمود کی آندھیاں یاد آنے لگیں تھیں ۔شاید ڈرو خوف کا ایسا عالم تھا کہ شیطان نے فوراً دماغ میں بسیرا کر لیا۔بس اس ایک احساس کا آنا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔
اس نے میرے حواس بحال کر دیے۔اور میں نے سکون سے جا کر نماز مغرب ادا کی ۔پھر واپس کچن میں آکر کام نمٹائے ۔اتنی دیر میں آندھی کازور بھی ٹوٹ گیا اور ابر رحمت برسنے لگے۔
آج کے اس واقعے نے مجھے احساس دلایا کہ اگر آج ہم میں سے ہر کوئی اس بات کو سمجھ لے کہ وہ ذات جس کو اونگھ آتی ہے ،نہ نیند وہ ہر پل ہماری نگرانی کررہا ہے ۔تو ہر انسان اپنے ہاتھوں سے کمائی جانے والی برائیوں کا بیشتر حصہ اپنی زندگی سے ختم کردے بلکہ اللہ کی توفیق۔

Browse More Urdu Literature Articles