Nedamat Ke Ansoo - Article No. 1683

Nedamat Ke Ansoo

ندامت کے آنسو - تحریر نمبر 1683

ایک کوش الحان آدمی سارنگی بجایا کرتا تھا۔ اس کی اواز پر مرد و عورت بچے سبھی قربان تھے۔کبھی مست ہو کر گاتا جنگل سے گزرتا تو چرند پرند اس کی آواز سننے کے لیے جمع ہو جاتے

منگل 17 اپریل 2018

ایک کوش الحان آدمی سارنگی بجایا کرتا تھا۔ اس کی اواز پر مرد و عورت بچے سبھی قربان تھے۔کبھی مست ہو کر گاتا جنگل سے گزرتا تو چرند پرند اس کی آواز سننے کے لیے جمع ہو جاتے۔ ان بھول بھلیوں میں جب یہ عمر گزار بیٹھا اور بڑھاپے کے آثار نمودار ہو گئے تو آواز پیری کے سبب بھدی ہو گئی تو عشاق آواز بھی رفتہ رفتہ کنارہ کش ہو گئے، اور نہ ہی اس کی سارنگی میں وہ سوز رہا۔

اب وہ جدھر سے گزرتا کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔نام و شہرت سو رخصت ہو گئے۔ ویرانی اور گمنامی میں فاقے پہ فاقے گزرنے لگے۔ اس پر بے کسی کا عالم تھا۔ خلق کی اس خود غرضی کو دیکھ کر وہ بہت مغموم ہوا اور دل میں کہنے لگا:"یاللہ جب میں خوش آواز تھا تو خلق مجھ پر پروانہ وار گرتی تھی اور ہر طرف میری تواضع ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

اب پڑھاپے کی وجہ سے آواز خراب ہو گئی ہے تو یہ ہوا پرست اور خود غرض لوگ میرے سائے سے بھی گریزاں ہو گئے ہیں۔

ہائے! ایسی بیوفا مخلوق سے میں نے دل لگایا۔ یہ تعلق کس درجہ پر فریب تھا۔کاش! میں تیری طرف رجوع کرتا، اپنے شب و روز تیری ہی یاد میں گزارتا اور تجھی سے امیدیں وابستہ کرتا تو آج یہ دن نہ دیکھتا۔"
سارنگی بجانے والا دل ہی دل میں نادم ہو رہا تھا، اور آنکھون سے انسو جاری تھے۔ اس نے ایک آہ بھری اور خلق خدا سے منہ موڑ کر دیوانہ وار مدینہ منورہ کے قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا اور ایک پرانے گار نما گڑھے میں جا بیٹھا۔
روتے ہوئے اس نے عرض کیا:اے اللہ! آج میں تیرا مہمان ہوں ساری مکلوق نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو اب بجز تیری بارگاہ کے میرے لیئے یکوئی پناہ گاہ نہیں۔اے اللہ! آشنا بیگانے ہو چکے، اپنے پرائے ہو چکے اب سوائے تیرے میرا کوئی آسرا نہیں۔" سارنگی بجانے والا اس طرح آہ و زاری میں مشغول تھا اور اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ بارگاہ الٰہی میں اس کے بدامت کے یہ آنسو قبول ہو گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو الہام ہوا کہ میرا فلاں بندہ جو اپنی خوش آوازی کے سبب زندگی بھر مخلوق میں مقبول و محبوب رہا، اور اب بوجہ پیری آواز خراب ہو جانے سے ساری خلقت نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس کی یہ ناکامی میری طرف رجوع کا سبب بن گئی۔ اس کے پاس جا کر اس کی ضرورت کو پورا کریں۔ ہم نے6 اپنے فضل کو اس کے لیے خاص کر دیا۔ اب اسے مخلوق کے سامنے ہاتھ پیلانے کی ضرورت نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فوراً اٹھے اور ضرورت کا سامان لے کر اس کی طرف چل دیئے۔قبرستان کے قریب شکستہ غار نما گڑھے میں ایک بزرگ انہیں سوئے ہوئے نظر آئے جن کا چہرہ اور داڑھی انسووٴں سے تر تھی۔اس اشک ندامت سے ان کو یہ پیغام ملا تھا۔
پیر جنگی کے بود کے خاص خدا۔
حبذا اے سر پنھاں حبذا
سارنگی بجانے والا بڈھا کب خاص اور مقبول ہو سکتا تھا مبارک ہو اے راز پنھاں مبارک ہو۔

حضرے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس غار کہنہ کے سامنے کھڑے ہو گئے، تا کہ بزرگ بیدار ہوں تو ان سے ملاقات کریں۔ اسی اثناء میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو چھینک آ گء جس سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ خلیفہ المسلمین کو دیکھ کر غلبہ ہیبت سے وہ کانپنے لگے۔ حضرے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب یہ دیکھا کہ بزرگ لرزہ براندام ہیں تو ارشاد فرمایا کہ خوف مت کرو۔
میں تمھارے رب کی طرف سے تمھارے لیے بہت بڑی خوش خبری لایا ہوں۔ سارنگی عالے کو جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان مبارک سے حق تعالٰی کے الطاف و عنایات کا علم ہوا تو مشاہدہ رحمت الٰہی سے اس پر شکر و ندامت کا حال طاری ہو گیا۔ اپنے ہاتھ کو ندامت سے چھپانے لگا اور اپنے اوپر غصہ ہونے لگا اپنی غفلت اور حق تعالٰی کی رحمت کا کیال کر کے ایک چیخ ماری اور کہا کہ اے میرے آقائے بے نظیر میں اپنی نالائقی اور غفلت کے باوجود آْ کی رھمت بے مثال کو دیکھ کر مارے شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوں۔
جب سارنگی والا بزرگ خوب رو چکا اور اس کا درد ھد سے گزر گیا تو اپنی سارنگی کو غصہ سے زمین پر پٹخ پٹخ کر ریزہ ریزہ کر دیا اور اس کو مخاطب کر کے کہا کہ تو نے ہی مجھے حق تعالٰی کی محبت و رحمت سے دور رکھا تھا۔ تو نے ہی شاہ راہ حق سے میری رہزنی کی تھی، تو نے ہی شتر سال تک میرا خون جگر پیا یعنی تیری ہی وجہ سے لہو لعب اور نافرمانی کرتے کرتے بوڑھا ہو گیا۔
اس مرد پیر کی گریہ وزاری اور آہ و بکاہ سے حضرت عمر عضی اللہ تعالٰی عنہ کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اے شخص تیری یہ گریہ وزاری اب تیرے قلب و باطن کی صفائی کی دلیل ہے۔
تیری جان اب حق تعالٰی کے قرب سے زندہ اور روشن ہو گئی ہے۔ اللہ عزوجل کے حضور گنہگار کے آنسووٴں کی بڑی قدر و قیمت ہے۔
حق تعالٰی گنہگار کے ندامت سے بکلے ہوئے ایک آنسو کو شہید کے قطرہ خون کے ہم وزن رکھتے ہیں
حضرے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صھبت مبارکہ کے فیض سے اسے نء زندگی ملی اور ندامت کے آنسووٴن کے سبب اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اس پر اپنا فضل فرما دیا۔

درس حیات: اپنی غلطیوں اور گناہوں پر نادم ہو کر تائب ہونے سے اللہ کریم معاف فرما دیتے ہیں۔
رب تعالٰی کے حضور گناہ گاروں کے آنسووٴں کی بڑی قیمت ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles