Seedhi Raah - Article No. 1783

Seedhi Raah

سیدھی راہ - تحریر نمبر 1783

حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول اسلام سے پہلے جب کہ وہ جنگ احزاب سے واپس آئے تھے ۔اپنے چند ساتھیوں سے مشورہ کرتے ہوئے کہا۔۔

منگل 9 اکتوبر 2018

خالد رضا
حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول اسلام سے پہلے جب کہ وہ جنگ احزاب سے واپس آئے تھے ۔اپنے چند ساتھیوں سے مشورہ کرتے ہوئے کہا:
”آج کل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)دن بدن بلند مقام حاصل کرتے جا رہے ہیں ۔ایسے میں میرا خیال ہے کہ ہم لوگ نجاشی کے ملک حبشہ چلتے ہیں اگر اس دوران میں محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ہماری قوم پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم لوگ وہیں رہ جائیں گے اور اگر ہماری قوم کو فتح حاصل ہو گئی تو ہم واپس آجائیں گے ۔


ان کے ساتھیوں نے بھی ان کی تجویز مان لی اور یہ چند افراد مل کر حبشہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔انہوں نے حبشہ بادشاہ نجاشی کے لیے کچھ تحائف بھی لے لیے اور جاکر نجاشی کو پیش کیے اور پھر وہیں رہنے لگے۔

(جاری ہے)


انہی دنوں عمر وبن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے نجاشی کے پاس آئے ۔حضرت عمر وبن العاص کو اس بات کی خبر ملی تو یہ نجاشی کے دربار میں پہنچے اور کہا:
”عمر وبن امیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کو میرے حوالے کر دیں تاکہ میں اس کو قتل کرکے قریش کے سامنے سر خرو ہو سکوں ۔


شاہ نجاشی جو کہ اسلام قبول کر چکا تھا ،تو بہ استغفار کرتے ہوئے بولا:
”اے عمر وبن العاص ،میں اس مقدس ہستی کے قاصد کو تیرے حوالے کس طرح کر سکتا ہوں جس پر ناموس اکبر یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام اترتا ہے ۔وہ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔میری بات غور سے سن،اے عمر و ،تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی اختیار کرو اور یہ بھی جان لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن اپنے تمام مخالفوں پر غالب آجائیں گے ۔
بالکل اسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون پر غالب آئے تھے ۔“
نجاشی کی بات نے حضرت عمر وبن العاص کی کایا ہی پلٹ دی اور آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ۔انہوں نے فوراََ نجاشی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔
حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں پر اپنے قبول اسلام کو ظاہر نہ کیا اور خاموشی سے مدینہ منورہ کی راہ پر چل پڑے۔
راستے میں انہیں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔انہوں نے پوچھا:
”کہاں جارہے ہو؟“
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
”اے عمرو! خدا کی قسم ،سیدھی راہ ظاہر ہو چکی ہے ۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں ۔میں ان کی خدمت اقدس میں جارہا ہوں تا کہ اسلام قبول کر سکوں ۔“
انہوں نے کہا:
”میں بھی اسی ارادے سے جارہا ہوں ۔

چنانچہ دونوں مدینہ منورہ پہنچے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے ۔پہلے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا اس کے بعد ان کی باری آئی ۔انہوں نے عرض کیا:
”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنا دست مبارک بڑھائیے تاکہ بیعت کروں ۔“
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک بڑھایا تو انہوں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اے عمر و،کیابات ہوئی؟“
انہوں نے عرض کیا:
”میری شرط ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میرے تمام پچھے گناہ معاف ہو جائیں ۔“
نبی کریم صلی اللہ نے ارشاد فرمایا:
”اے عمر و،تمہیں معلوم نہیں کہ ایمان تمام سابقہ گناہ معاف کر دیتا ہے اور کفر چھوڑ کر اسلام کی آغوش میں آنا اور حج کرنا ہر ایک عمل پچھلے کیے ہوئے تمام گناہوں کو ختم کر دیتا ہے ۔“
اس پر حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کی سیدھی راہ اپنالی۔

Browse More Urdu Literature Articles