Taptay Sehra Main Namaz - Article No. 1166

Taptay Sehra Main Namaz

تپتے صحرا میں نماز - تحریر نمبر 1166

حاجیوں کی جماعت یہ عجیب وغریب اور تھرادینے والا کرشمہ دیکھ کر اس زاہد کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہی ، بہت دیر بعد جب وہ مرد خدا بحر معرفت کی گہرائی میں سے ابھر کر آیاتو حاجیوں نے دیکھا کہ اس کے بازوؤں اور چہرے سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔

ہفتہ 28 جنوری 2017

حکایت رومی رحمتہ اللہ علیہ :
ایک بے آب وگیا صحر ا میں حاجیوں کا قافلہ سفرکرتا ہوا پہنچا وہاں انہوں نے خدا کے ایک برگزیدہ بندے کو دیکھا کہ میدان میں تپتی ریت پر جس کی حدت سے دیگ کاپانی جوش مارنے لگے نماز کی نیت باندھے اس طرح کھڑا ہے جیسے کوئی صحن گلستان میں پہنچ کر مست وبے خود ہوجاتا ہے اسے اپنے گردو پیش کی کچھ خبر نہ تھی اور وہ نماز میں اپنے پروردگار سے رازونیاز کرتا ہوا گہری فکر میں غرق تھا۔

حاجیوں کی جماعت یہ عجیب وغریب اور تھرادینے والا کرشمہ دیکھ کر اس زاہد کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہی ، بہت دیر بعد جب وہ مرد خدا بحر معرفت کی گہرائی میں سے ابھر کر آیاتو حاجیوں نے دیکھا کہ اس کے بازوؤں اور چہرے سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔

(جاری ہے)


ایسامعلوم ہوتا تھا کہ اس نے ابھی ابھی تازہ تازہ پانی سے وضو کیا ہے اس سے پوچھا گیا کہ حضرت یہ پانی کہاں سے آیا ؟ زاہد نے آسمان کی طرف اٹھا کر جواب دیا، اوپر سے لوگوں نے پھر عرض کیا کہ یہ پانی جب آپ کی خواہش ہوتی ہے تب ملتا ہے یاکبھی یہ خواہش قبول نہیں ہوتی “ اے سلطان دین ، ہمیں اس معاملے سے باخبر کرتا کہ تیرے حال سے ہمارایقین اور توکل بڑھے اورہم جوظاہری اسباب پر فریفتہ ہیں اور دیوانہ وار اس کی پرستش کرتے ہیں اس بت پرستی سے نجات پائیں ۔


مرد فقیر نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور کہا ” اے میرے خالق ، ان حاجیوں کی سن ان کے سینے کھول دے اور حق ان پر واضح کر، تونے چونکہ اپنے رحم وکرم سے مجھ پراس بلندی سے دروازہ کھولا ہے اس لیے میں بلندی سے اپنا رزق مانگنے کاعادی ہوگیا ہوں ۔
زاہد بھی اپنے رب سے عرض کرہی رہاتھا کہ یکایک ایک جانب سے کالی گھٹا اٹھی اور دیکھتے دیکھتے چھائی اورمینہ برسنے لگاپیاسے حاجیوں کے لیے توعید ہوگئی ۔
انہوں نے جھٹ پٹ اپنے اپنے مشکیزے بھر لیے اس مرددرویش کی یہ کرامت دیکھ کر حاجیوں کے ایک گروہ نے اپنے دلوں میں جوبت خانے سجا رکھے تھے ، وہ ڈھادیے دوسرے گروہ کو خدا کے قدیر ہونے اور اللہ والوں پر یقین کامل ہوا، تیسرا گروہ منکروں کا تھا یہ بدنصیب کچے پھل کی مانند ترش کے ترش ہی رہے اور ان کا نقص ہمیشہ قائم رہا۔

Browse More Urdu Literature Articles