Teen Musafir - Article No. 1730

Teen Musafir

تین مسافر - تحریر نمبر 1730

اے فرزند عزیز ! تین آدمیوں نے کسی مقصد کے لیے اکٹھے سفر کیاان میں سے ایک مسلمان تھا، دوسرا عیسائی او رتیسرا یہودی جب تینوں مسافر ایک قر یبی پڑا وٴ پر اتر ے تو کوئی نیک آدمی ان مسافر وں کے لیے

جمعہ 20 جولائی 2018

اے فرزند عزیز ! تین آدمیوں نے کسی مقصد کے لیے اکٹھے سفر کیاان میں سے ایک مسلمان تھا، دوسرا عیسائی او رتیسرا یہودی جب تینوں مسافر ایک قر یبی پڑا وٴ پر اتر ے تو کوئی نیک آدمی ان مسافر وں کے لیے از راہ تو اضع نہایت لذیذ حلوا اور نان لے کر آیا یہو دی اور عیسائی اس روز اتفا ق سے کچھ علیل تھے انہیں بد ہضمی کی شکایت ہو گئی تھی اور مسلمان بے چارہ روزے سے تھا ۔


شام کو روزہ کھو لنے کے بعد مسلمان کو بھوک نے بیتاب کیا تو اس نے ساتھیو ں سے کہا کہ آوٴیہ حلو ا اور نان کھالیں ،سا تھیوں نے کہا کہ ہمارا جی ٹھیک نہیں بہتر ہے کہ آج شب اسے نہ کھائیں کل تک کے لیے رکھ لیں مسلمان نے کہا کہ حلو ا تازہ ہے اور اس کے کھانے کا مزا اسی وقت آسکتاہے کل تک رکھنے میں باسی ہو کر بے کار ہو جائے گا اس لیے اسے صاف کر دو ۔

(جاری ہے)


یہو دی اور عیسائی نے کہا معلوم ہو تاہے کہ اس حلوے کے بارے میں تیر ی نیت صاف نہیں ہے ، اور تو کسی نہ کسی بہانے اسے آج ہی اکیلا ہڑپ کرنے کی فکر میں ہے
ان کا یہ اعتراض سن کر مسلمان نے کہا یارو ، یہ تم نے کیا بات کہی ، ہم تین آدمی ہیں جب ہم اس حلوے کے کھانے یانہ کھانے پر اختلافات رائے ہو گیا تو زیادہ فساد یہ بہتر ہے کہ اسے تین حصوں میں بانٹ لیں جس کاجی چاہے اپنا حصہ ابھی کھالے جس کا جی چاہے کل پر سو ں کے لیے اٹھا ر رکھے ۔

لیکن ان دونوں نے مسلمان کی یہ تجو یز بھی رد کردی وہ اصل اس فکر میں تھے کہ یہ روزہ دار مسلمان رات بھر بھوکا مرے گااور بیچ وتاب کھا تارہے گا مسلمان خدا کا نہایت صابر و شاکر بندہ تھا اس لیے اپنے ساتھیوں کی مرضی نہ پا کر چپ ہو رہا اور حلوے کے حصے کرنے پر زور نہ دیا. رات سر پر آئی اور تینوں مسافر سو گئے صبح اٹھے تو منہ دھو کر ہر شخص اپنے اپنے طریق عبادت میں مشغول ہوا مسلمان ہو یا یہودی ،بت پرست ہو یا مجو سی سب کا رخ بظاہر اس سلطان کائنات کی طرف رہتاہے آگ ،باد، آب اور خاک سب کو نسبت خداہی سے ہے جب اس کام سے فراغت ہوئی تو آپس میں باتیں کرنے لگے مسلمان نے حلوے کا ذکر چھیڑا کہ اب اسے تقسیم کولو ، لیکن یہو دی اور عیسائی کہنے لگے کہ اب ہم نے ایک اور فیصلہ کیاہے کہ رات ہم میں سے جس شخص نے سب سے بہتر خواب دیکھا ہو وہ اس تمام حلوے کا حق دار ہے پھر یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ سارا حلوہ خود کھائے یا اس میں دوسرے کو بھی حصہ دار بنالے ، مسلمان نے اس بات کا تسلیم کیا تب اول اول یہو دی نے اپنا خواب بیان کرنا شروع کیا اس نے کہا:
یارو ، میں نے بڑا مبارک خواب گز شتہ رات دیکھا کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک راہ پر چلا جارہاہوں یکا یک حضرت مو سیٰ کی روح پر فتوح سے ملاقات ہو گئی انہوں نے مجھے اشاراہ کیا کہ ہمارے پیچھے پیچھے چلا آ میں ان کے حکم کی تعمیل میں پیچھے پیچھے مود ب بن کر چلااور کوہ طور پر پہنچ گیا کوہ طور نور خدا وندی میں چھپا ہواتھا میں اور مو سیٰ بھی اس آفتاب کی روشنی میں گم ہو گئے اس کے بعد دفعتہ اس نور میں سے ایک دروازہ کھلا اور نور میں سے ایک اور نور پھو ٹا یہ نور ہر طرف پھیلتا چلا گیا یہاں تک کہ اس نے مجھے مو سیٰ اور کوہ طور تینوں کو اپنی چمک دمک میں ڈھانپ لیا اس کے بعد یکا یک نور حق نے پھو نک ماری کوہ طور یک لخت تین ٹکڑے ہو گیا ایک ٹکڑا سمندر میں گر ا اوراس کا کھاری پانی میٹھا ہو گیا اور دوسرا ٹکڑا زمین پر گر ا تو آب شفابخش کا ایک چشمہ جاری ہوایہ پانی ہر بیماری اور ہر مرض کاعلاج تھا اس کا تیسرا ٹکڑا کعبے کے قریب فاران پر گرا پھر اس بیہو شی سے جب ہو ش میں آیا تو کیا دیکھا کہ کوہ طور اپنی جگہ ویساہی مو جود ہے لیکن وہ مو سیٰ کے پاوٴں کے نیچے برف کی طرح پگھل رہا تھا مارے بوجھ کے پہاڑ زمین بوس ہو گیا تھا اور اس کی بلندی پستی میں بدل گئی تھی اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

اب عیسائی کی باری تھی ا س نے یوں کہا ’ ’ گزشتہ رات مجھے خواب میں حضرت عیسیٰ کی زیارت ہوئی میں ا ن کے ساتھ چو تھے آسمان کی سیر کے لیے گیا جو اس آفتاب کا مرکزے پھر میں نے وہاں ایسے ایسے عجائبات دیکھے جن کا تصور بھی اس دنیا ممکن نہیں ہر شخص آگاہ ہے کہ آسمان کی عظمت زمین سے بھی کئی گنازیادہ ہے ۔
آخر مسلمان کی باری آئی اس نے تھوڑی دیر تامل کے بعد کہا ’ ’ یاروکیا عرض کروں اور کیا نہ کروں خواب میں نے بھی بڑا ہی مبارک دیکھا ہے نبی آخر الزامان حضرت محمد ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا آپﷺ فخر دو جہان ہیں ۔
آپ نے مجھ سے ارشا د فرمایا کہ تیر ے دو ساتھیوں میں سے ایک اس وقت کوہ طور کی سیر کو گیا ہے اور موسی کے ساتھ عشق الٰہی کی سر گر میوں میں گم ہے دوسرے کو حا کم زمانہ حضرت عیسی اپنے چو تھے آسمان پر لے گئے ہیں لہٰذااے پیچھے رہ جا نے والے اٹھ اور یہ حلوہ کھا لے تیر ے دونوں ساتھی صاحبان تیز نکلے اپنے گھوڑے اڑاتے ہوئے نکل گئے مذ ہب اور اقبال کاپروانہ انہیں عطا ہوا اور وہ فرشتوں کے ہم پلہ ہو گئے تو نکما تنہا رہ گیااب بہتر ہے کہ اس حلوے پر قناعت کر چنانچہ میں نے بادشاہ دو جہاں کا فرمان سنتے ہی اپنی خوش نصیبی خیال کرتے ہوئے سارے نان حلوے کے ساتھ کھا لیے۔
‘ ‘
مسلمان کی زبان سے یہ خواب کا ماجرا سنتے ہی عیسائی یہو دی دونوں کا رنگ اڑگیا گھبرا کر بولے یا ر سچ سچ بتا تو نے سارا حلوا اکیلے ہی کھا لیا ۔
مسلمان نے جواب دیا جب میرے سر کار نے مجھے حکم دیا تو میری کیا مجال تھی کہ اس حکم سے سرتابی کا خیال بھی دل میں لاتا کیا تو یہو دی ہو نے کے باوجود حضرت موسی کے احکام کی تعمیل سے منہ پھیر سکا ہے ان دونوں نے اقرار کیا کہ وہ ایسانہیں کر سکتے ’ ’ تب پھر تم نے کیسے فرض کر لیاکہ میں اپنے آقا کے حکم سے روگر دانی کروں گا میں نے وہ سارا حلوہ کھا لیااور اب مست اور مگن ہوں ۔
‘ ‘
یہودی اور عیسائی دونوں نے ایک زبان ہوکر کہا’ ’ خدا کی قسم تو نے ہم دونوں سے بہتر اور سچا خواب دیکھا ہے یہ ایسا خواب ہے جو ہمارے سو خوابوں پر بھاری سے سچ ہے تیرا خواب عین بیداری ہے اور بیداری میں اس کا اثر کھلا کھلا دکھائی یتاہے ۔ (حکایات رومی)

Browse More Urdu Literature Articles