Neelam Ahmed Bashir Ka Khasoosi Interview - Article No. 892

Neelam Ahmed Bashir Ka Khasoosi Interview

نیلم احمد بشیر کا خصوصی انٹرویو - تحریر نمبر 892

وقت ہی جینے کا ڈھنگ سکھاتاہے نیلم احمدبشیرکو کاغذقلم کے رشتے نے تنہائی کے کرب سے آزاد کیا

بدھ 6 مئی 2015

کوکب کاظمی:
نیلم احمدبشیر دنیائے شعروادب کاسرمایا ہیں۔انہوں نے ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ ان کے والداحمد بشیر پاکستا ن کے نامورادیب اوراصول پسندصحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں کی ہردلعزیز شخصیت بھی تھے۔ویسے توایک عورت ہونے کے ناطے نیلم کی کہانیوں کاموضوع عورت ہی ہے۔لیکن انہوں نے پاکستان کے علاوہ جن جن ملکوں میں وقت گزاراوہاں کے پسماندہ طبقے کے لوگوں کو بھی اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔

شاعری اورافسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے سفر نامے مضامین اورشخصی خاکے بھی تحریر کیے ہیں ۔اس وقت ان کی تحریروں کے تراجم یونیور سٹی آف ورجینیا نارتھ کیرولائنا برکلے اورٹورنٹو کی بھی بعض یونیورسٹیز میں پڑھائے جارہے ہیں ۔
پیچھے مڑکر دیکھتی ہوں ․․․․․ تو زندگی بہت سادہ پر سکون اور خوبصورت نظر آتی ہے۔

(جاری ہے)

دکھوں سے دور․․․․․ بے فکری کے دن جواماں ابااور بھائی بہنوں ‘سنبل بشری اسماء اور ہمایوں کے سنگ گزرہے۔

یہ میں 60 یا70 کی دہائی کی بات کررہی ہوں ۔اس زمانے میں والدین اولاد کو صرف تعلیم ہی نہیں دلواتے تھے بلکہ ان کی ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت بھی کیا کرتے تھے اور ہمارے ابا تو تھے ہی دانشور․․․․انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تر بیت خاص انداز میں کی ۔ہمیں دنیا سے چھپا کر گھر میں قیدنہیں رکھا بلکہ ہمارے اندخود اعتمادی پیدا کی تاکہ ہر قسم کے حالت کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں میں سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ خود ایسی راہیں منتخب کرتا ہے جن پر چل کر آپ آنے والے وقت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔
کمزاکم میرے ساتھ تو ایسا ہی ہوا ۔مجھے تنہائی بہت کچھ بھگتنا پڑ اورمیں نے اس وقت سوچا بھی نہیں تھا کہ میری پرورش ایک عام انداز سے ہٹ کر کیوں ہورہی ہے؟دراصل یہ سارے فیصلے اوپر ہورہے ہوتے ہیں یا ہو چکے ہوتے ہیں۔ امی کا تعلق ملتان سے تھا ۔1950 میں میری پیدائش ملتان میں ہوئی ۔ چونکہ میں والدین کی پہلی اولاد تھی اس لئے رسم کے مطابق مجھے اپنے ننھیال ہی میں پیدا ہونا تھا۔
تا ہم اس سے زیادہ میرااس شہر سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی مجھے وہاں جا نے کا کبھی شوق ہوا ۔امی اگر چہ تمام عمر گھر گر ہستی میں الجھی رہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اباکے ساتھ مل کر ہر قسم کے نرم گرم حالات کا مقابلہ کیا اور چھوٹی بہنوں اور بھائی کو میں سنھبالتی رہی۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم بہنوں کی آپس میں بہت دوستی اور انڈرسٹینڈنگ ہے ۔
امی ابا نے ہمیں کبھی نصیحتیں نہیں کیں لیکن ان عمل ہی سے ہم سب کچھ سیکھتے رہے۔ ان کے رویے اور انساینت کے نامے کسی کو بھی حقیر نہ سمجھنا دراصل یہی ہماری تربیت تھی جو ہمیں اپنے والدین سے ورثے میں ملی۔اباچونکہ گوجرانوالہ سے تھے سومیری تعلیم کا آغاز بھی اسی شہر سے ہوا لیکن کچھ ہی عر صہ بعد جب ابا کا ٹرانسفر کراچی ہوا تو ہم روشنیوں کے شہر میں جا بسے ۔
یہ میں پرانی بات کررہی ہوں اس وقت کراچی ایک پر سکون اور آئیڈ یل شہر تھا جس نے ملک کے دوردرازشہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ رکھا تھا۔آج بھی کراچی کی روشن صبحیں اور جگمگاتی راتیں میرے ذہین کے پردے پر نقش ہیں ۔
میں تو غموں سے دور خوشگوار اور آزاد فضا میں سانس لینے والا ”پرندہ تھی میرے پرکاٹ کر مجھے اپاہج
بنادیا گیا۔
میرا قلم توڑ کر گویا مجھے قیدوبند کی صعوبیتں برداشت کرنے کے لئے تہنا چھوڑدیا گیا․․
لوگ بے خوف وخطر محو سفر رہتے بازار روشن اور پر ہجوم تھے کسی دہشت گردی یا دھماکے کے کا دورونزدیک تصور تک نہ تھا اور لوگوں میں ابھی انسانیت زندہ تھی‘زندہ در گورنہ ہوئی تھی۔ہفتے کے روز کی اکثر شامیں سمندر کے کنارے گڈرتیں جہاں اباسمیت کراچی کے نامور ادیب شاعر جن میں ابولاثر حفیظ جالندھری ‘ اشفاق احمدابن انشاء اے حمید مرزاادیب اور بہے سارے نامور ادیب وشاعر اکٹھے ہوتے ۔
پڑ ھنے لکھنے کا شوق مجھے اپنے گھر کے ادبی ماحول اور دیگر ادبی محفلوں میں شرکت کرنے کی وجہ سے ہوا جہاں میں اپنے والدین کے ساتھ جایا کرتی تھی ۔کراچی میں زیادہ ترادبی محفلیں ابن انشاء کے گھر منعقد ہوا کرتیں جہاں اکثر وبیشر دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے شاعر وادیب بھی آیا کرتے تھے۔وہاں میں ادبی محفل میں بھی بیٹھتی اور جب موقعہ ملتا ابن انشاء کی لابئریری میں گھس کر کتابیں پڑھنا شروع کر دیتی کیونکہ ان کی ڈراتی لابئریری کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔
اس وقت اگرچہ میں کم عمر تھی مگر پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا اور میں ابن انشاء کی لابئریری سے بہت ساری کتابیں پڑھ چکی تھی ۔پڑھنے کے شوق ہی نے مجھے لکھنے کی طرف راغب کیا ۔ابااپنے وقت کے بہت بڑے ادیب اور صحابی ہی نہیں تھے بلکہ فلمی دنیا سے بھی ان کی گبری وابستگی تھی۔انفارمیشن ڈیپار رٹمنٹ میں وہ فلم میکنگ کے شعبے سے وابستہ تھے۔انہی دنوں سرکارنے انہیں فلم میکنگ میں ایڈوانس سٹڈی کے لئے ہولی ووڈ(امریکہ) بھیجا۔
تب ملک سے باہر جا کر رہنے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور کسی بھی ملک میں جا کر رآباد ہونا اتنا دشعوار بھی نہیں تھا اگر ہم چاہتے تو بڑی آسانی سے امریکہ جا کر مستقل رہائش اختیار کر سکتے تھے لیکن میں نے کہاناں کہ اس وقت حالات انتہائی پرسکون تھے رشتے دار اور دوست احباب ایک دوسرے محبت قریب تھے ۔لوگ سچے دل سے ایک دوسرے محبت کرتے تھے اور دلوں میں منافقت نہ ہونے کے برابر تھی رہن سہن اور کھانے پینے میں “سٹیٹس وغیرہ کا بھی کو ئی مسئلہ نہ تھا۔
رشتے دار مہینوں ایک دوسرے کے گھر جا کر رہتے بلکہ گرمیوں کی چھٹیاں تو سب رشتہ دار ایک دوسرے کے گھر وں ہی میں گزارتے خوب ہلہ گلہ ہوتا اور دال چاول بھی خوب انجوائے “ کر کے کھائے جاتے تھے لٰہذا مریکہ ہجرت کرنے کا خیال بھی نہ آیا۔ آج کل کے حالات دیکھ کر سوچتے ہیں کہ اس وقت چلے ہی جاتے تو اچھا تھا اب تو مہمانوں نی سیوا میں کوئی کسررہ جا ئے تو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی ناراض ہو جاتے اور کسی کے گھر جا کر رہنا تو گئے وقتوں کے قصے کہانیاں بن کر رہ گئی ہیں ۔
میر ی سکول کی تعلیم کراچی میں مکمل ہوئی اور کالج میں داخل کے وقت ہم لاہور آچکے تھے ۔بی اے کرنے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس میں ”سائیکالوجی میں داخلہ لیا۔اس وقت نیو کیمپس شہر سے دور خوبصورت خوابوں کی نگری جیسی جگہ تھی جہاں سر سبز وسیع وعریض پھولوں سے بھرے لان تھے اور جس کے ساتھ ساتھ صاف وشفاف پانی کی نہر بڑے سکون اور خاموشی کے ساتھ بہتی تھی۔
مجھے کلاس فیلوز کے ساتھ نہر کے کنارے درختوں کے سایے تلے بیٹھنا بہت سحرانگیز محسوس ہوتا تھا ۔ہم سب لڑکیاں لڑکے اکٹھے بیٹھتے کشتی کی سیر کرتے اور گانے گاتے ۔آج بھی وہ حسین مناظر میری نظروں کے سامنے آتے ہیں تو دل میں ایک ٹھنڈک سی اتر جاتی ہے پراب وہ زمانہ اور ماحول کبھی واپس آہی نہیں سکتا․․․․․
1972 کے آغاز میں میری زندگی کے بدترین دور کا آغاز تھا۔
اس برس میری شادی ہوئی اور میں آئندہ کی زندگی کے خوبصورت سپنے آنکھوں میں سجائے اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ چلی گئی ۔تب میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میری زندگی کا بدترین دور شروع ہونے والا ہے۔میں تو غموں سے دور خوشگوار اور آزاد فضا میں سانس لینے والا پرندہ “تھی میرے پر کاٹ کر مجھے اپا ہج بنادیاگیا ۔میرا قلم توڑ کر گویا مجھے قیدوبند کی صعوبیتں برداشت کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا لیکن میں نے نئی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا ہر خواب اپنے ہاتھوں چکنا چور کر دیا ۔
ہم دونوں کی سوچ میں بعد مشرقین تھا لیکن مین انتہائی صبروبرداشت کے ساتھ وقت بتانے کا تہبہ کر چکی تھی لیکن جب سمجھوتہ نہ ہو سکا اور ذہنی وجسمانی برداشت کی حد جواب دے دگئی تو میں نے فیصلہ کر لیاکہ اب ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔اس دوران میرے تینوں بچے پیدا ہو چکے تھے میرے آگئی ۔یہاں آنسو پو نچھنے اور تسلی دینے والے میرے دوست احباب تھے میرے والدین اور میرے دکھ کی ساتھی میرے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے والی میری بہنیں سنبل بشری اور اسماء تھیں ۔
اس کے باوجود مجھے خود کو سنھبالنا تھا سوددبارہ کا غذ قلم سے رشتہ جوڑ لیا ۔اب میں پھر اس راہ کی مسافر تھی کہ جسے مڈتوں پہلے چھوڑ چکی تھی۔کاغذ قلم کے اٹوٹ رشتے اور سہارے نے مجھے تنہائی کے کرب اور دکھ سے آزاد کیا۔اور اس کیفیت سے نکالا جو برسوں مجھ پر طاری رہی۔در حقیقت یہ ہماری سوچ ہی ہوتی ہے۔ ہمیں مثبت یا منفی کیفیت میں مبتلاکر دیتی ہے لیکن شاید یہ یہ سب کچھ ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔
وقت انگلی پکڑکر آہستہ آہستہ جینے کا ڈھنگ سکھا تا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے حالات کا مردانہ اور مقابلہ کیا جبکہ میں کہتی ہوں کہ دنیا کا سامنا کر نے اور حالات سے لڑنے کا جتنا حوصلہ ارو قوت بر ادشت عورتوں میں ہے مردوں میں نہیں ․․․․ اس لئے اگریہ کہا جا ئے کہ فلاں نے زنانہ وار حالات کا مقابلہ کیا تو غلظ نہ ہو گا۔آج میں دکھی ہوں تو اپنی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے پیارے وطن کے حالات مجھے دکھی کرتے ہیں ۔
میں یہ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں کہ ہمارے ملک کی روشن اور سہانی صبحیں اور جگمگاتی راتیں کہاں کھو گئیں؟؟ گھر سے نکلنے والوں کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ زندہ واپس آسکیں گے یا نہیں ؟ابھی تو ملک کے دولخت ہونے کا دکھ کم نہ ہوا تھا کہ ظالموں نے ننھے ننھے بچوں کو درزندگی کا نشانہ بنایا۔پشاور میں شہیدہو نے والے بچوں کو شاید میں کبھی بھی بھول نہ پاؤں۔

Browse More Urdu Literature Articles