Adabi Sahafat Ki Baqa Aur Taraqi - Article No. 1447
ادبی صحافت کی بقاء اور ترقی - تحریر نمبر 1447
اردو زبان کے فروغ و ترقی میں اور اس کی ترویج و اشاعت میں ادبی رسائل وجرائد کا کلیدی رول رہا ہے۔ اخبارات نے بھی اردو زبان و ادب کو فروغ عطا کیا ان کے علاوہ اردو زبان و ادب کو فروغ تخلیقی اعتبار سے بھی ہوا، مختلف ادیبوں وشعراء نے نہ صرف زبان کے گیسو سنوارے بلکہ ادب کو ترقی عطا کی ہے۔
پیر 21 اگست 2017
اردو زبان کے فروغ و ترقی میں اور اس کی ترویج و اشاعت میں ادبی رسائل وجرائد کا کلیدی رول رہا ہے۔ اخبارات نے بھی اردو زبان و ادب کو فروغ عطا کیا ان کے علاوہ اردو زبان و ادب کو فروغ تخلیقی اعتبار سے بھی ہوا، مختلف ادیبوں وشعراء نے نہ صرف زبان کے گیسو سنوارے بلکہ ادب کو ترقی عطا کی ہے۔ زبان وادب کی تحریکات اور انجمنوں نے بھی اردو کی آبیاری کی ہے۔ بہرحال اردو امیر خسرو سے لے کر آج تک قائم دائم ہے اور رواں دواں ہے۔ اردو صحافت کی نوعیت کچھ بھی ہو علمی، مذہبی،سیاسی،تہذیبی،ثقافتی ہو لیکن ادبی صحافت کی عظمت واہمیت اپنی جگہ ہے۔ اردو کے اخبارات اور ادبی رسائل نے زبا ن و ادب کو نئی سمت وڈگر عطا کئے ہیں۔ اب جب اردو زبان کو سیکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے تو کیسے اردو اخبارات ورسائل کی بقاء ہوگی۔
(جاری ہے)
اردو کے ادبی رسائل زبان وادب کونئی فکر،نیارجحان ، نیا مواد، جدت وندارت پر مبنی مشمولات عطا کرتے ہیں ان کا مواد بہتے پانی کے مانند ہوتا ہے جو صاف و شفاف بھی ہوتا ہے۔ اردو کے ادبی رسائل ہمیشہ سے زبان و ادب میں نئی چیز کو پیش کرتے رہے اور ناول داستان اور افسانہ لکھنے کا محرک بھی ادبی رسائل رہے ہیں۔تادم تحریر اردو کے ادبی رسائل کی دنیا سونی پڑی ہوئی ہے۔ پہلے زمانے میں اردو والے اردو کے اخبارات و رسائل اور کتابوں سے ذوق وشوق کے حد تک دلچسپی رکھتے تھے اور ماحول میں پڑھنے کی عادت دی ہوگئی تھی ۔ لوگ ناول،افسانے، پاکٹ سائز ناول، کتابیں اور اخبارات و ادبی رسائل اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اس دور کی زندگی کا لازمہ تھا ہر فرد کے ہاں کوئی کتاب یا میگزین ضرور ہوا کرتا تھا لیکن آج کل لوگوں کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر آگیا ہے اس لئے کتابیں اور رسائل خریدنے کا رواج کم ہوگیا ہے جو رسائل نکل رہے ہیں وہ بھی باقاعدہ نہیں، بہرحال اردو کے ادبی رسائل جو نکل رہے ہیں ، وہ آکسیجن پر ہیں اگر یہ آکسیجن بند ہوجائے تو ادبی رسائل کی دنیا فوت ہوجائے گی اور ایسا عمل زبان وادب کیلئے خسارہ کے سواء کچھ نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے ،لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ عالمگیریت اور عالمی سطح پر تبدیلیوں نے لوگوں کی طرز فکر کو متاثر کیا ہے۔ اب ہر چیز سماج کے فوری فائدے کے لئے ہوتی ہے، صارف صارفیت کا ماحول پردور ورہ ہے ، ادبی رسائل معاشرہ کیلئے کس حد تک فائدہ مند ہیں اور سماجی مطالبات تقاضوں کو پورا کرررہے ہیں۔ ان نکات پر غور کرنا ہوگا۔ وہی رسالہ زندہ ہتا ہے جو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور عصری ٹکنالوجی، انٹرنیٹ کمپیوٹر سے مربوط ہو۔ ادبی رسائل کی بقاء وترقی کیلئے ہمارے دانشوروں کو لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
موجودہ ادبی رسائل کی عمومی روش کچھ ایسی ہے کہ وہ کچھ ایسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن کی موجودہ عہد میں کوئی معنونیت نہیں ہے۔ نئے عہد کے تقاضے تبدیل ہوچکے ہیں اسلئے لازمی ہے کہ ان مسائل پر خاص طور پررسائل کو مرکوز کیا جائے جو ہماری موجودہ معاشرت ، ثقافت اور سیاست سے متعلق ہو اور جس سے معاشرتی ترقی کی تصویر سامنے آتی ہو۔ مغرب میں بھی تخلیق اور تحقیق کا منہج تبدیل ہوا ہے اور یہ تبدیلی خوشگوار ہے کہ وہ ان مسائل پرمرکوز ہے جن کا انسانی زندگی سے بنیادی رشتہ ہے۔ پرانے زمانے کے کچھ رسائل انسانی زندگی کے تمام تر معاملات اور مسائل پر محیط ہو ا کرتے تھے۔ سائنسی سماجی اور تاریخی علوم پر بیش قیمت تحریریں شائع ہوتی تھیں ان رسائل میں ایک طرح کا تنوع تھا جس میں مختلف ذہنی سطح کے قارئین کے ذوق کی تسکین کا سامان موجود تھا۔ اب ادبی رسائل اپنا چولہ بدلے اور بدلتے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوجاتے اور سماج اور معاشرہ جو چاہتا ہے اس پیش کرتے ،ادبی نظریات مباحث کے علاوہ عام قاری کے جذبات کو ملحوظ رکھے یعنی رسالے کو تمام قسم کے علوم وفنون کا منبع و مرکز بنائیں لیکن ادبی رسائل کا ہمیشہ جو مسئلہ تھا وہی مالی بحران ہے۔ کئی ایک رسائل مالی ومعاشی کسمپرسی کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں ان پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جو رسائل ادارہ ، ٹرسٹ ، تنظیموں کی جانب سے شائع ہورہے ہیں، ان کی بھی بکری یا نکاسی نہیں ہورہی ہے۔ میری یہ تجویز کہ جتنے اردو کی روٹی کھانے والے ہیں ان کو ایک رسالہ خریدنے کی تاکید و نصیحت کی جائے یا متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ افسروں سے ہدایات جاری کی جائیں۔ محکمہ تعلیم میں سرکاری سکول سے لیکر جامعات تک سب کو رسائل خریدنے کیلئے احکامات جاری کئے جائیں۔ ایسے عمل میں اردوزبان وادب اور ادب رسائل کی بقاء ہوگی۔ بہرحال جو ادبی رسائل جاری ہیں ان کو بچانا ضروری ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک میں ایسے کئی اہم اور معیاری ادبی رسالے شائع ہوتے رہے جن سے ادبی صحافت کو نہ صرف اہم مقام ملاتھا بلکہ ان رسالوں میں شائع مضامین نظم نثر کو اردو والے بڑی اہمیت سے دیکھتے اور ان کی قدر کرتے تھے۔ اردو والوں کو ہرماہ ان رسائل و جرائد کا انتظار رہتا تھا لیکن الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے بعد اور خاص طور پر کمپیوٹر اور ٹی وی کے عا م ہونے کے بعد سے آہستہ آہستہ اردو کے پرنٹ میڈیا کو زوال کا شکار ہونا پڑا ور آہستہ آہستہ کئی مشہور معیاری اور اہم رسائل و جرائد بند ہوتے گئے اور اب انٹرنیٹ کے فروغ فیس بک کے عام ہونے کے بعد اردو کے رہے سہے رسائل بھی اردووالوں اور خاص طور پر اردو کے قلم کاروں کی غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہونے لگے۔ اردو کے ادبی رسائل کی بقاء اور ترقی ہوسکتی ہے بشرطیکہ اردو والے صدق دل سے ان رسائل کا ساتھ دیں۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ اردو کے ادبی رسائل کو اردو کا تعاون لازمی طور پر ہونا ضروری ہے۔ اردو کے ادبی رسائل کا موقوف ہونا اردو تہذیب وتمدن کا خاتمہ ہے اسلئے اردو زبان کو زندہ پائندہ رکھنے کیلئے اردو اخبارات اور اردو کے ادبی رسائل کو زندہ رکھنا ہرار دو والے کا فرض بنتا ہے۔
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez