Aglay WaqtoN Kay HaiN Hum Log HamaiN Kuch Na Kaho - Article No. 1398

Aglay WaqtoN Kay HaiN Hum Log HamaiN Kuch Na Kaho

اگلے وقتوں کے ہیں ہم لوگ ہمیں کچھ نہ کہو - تحریر نمبر 1398

ہمارے دنوں میں حساب وہ واحد مضمون تھا جس میں کل نمبر آنے کی توقع کی جا سکتی تھی، باقی مضامین کے لئے انحصار ممتحن کی فیاضی یا ممتحن کے اس روز کے گھر کے ماحول پر ہوتا تھا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ بدھ 26 جولائی 2017

پہلی حیرت تب ہوئی جب اقرا نے میٹرک کے امتحان میں انگریزی میں ایک سو پچاس میں سے ایک سو چھیالیس نمبر لئے۔ ابھی اس سے نہ سنبھلے تھے کہ اگلا جھٹکا نعمان نے لگا دیا۔ وہ اس سے بھی ’یک نہ شُد دو شُد‘ نمبر آگے بڑھ گیا۔ پہلا تاثر یہی تھا، ہو نہ ہو بورڈ والوں نے نمبروں کی ریڑھی لگا رکھی ہے ’مُنڈیو، کُڑیو نمبر ونڈی دے لئی جاووٴ‘۔ ورنہ ہمارے دنوں میں حساب وہ واحد مضمون تھا جس میں کل نمبر آنے کی توقع کی جا سکتی تھی، باقی مضامین کے لئے انحصار ممتحن کی فیاضی یا ممتحن کے اس روز کے گھر کے ماحول پر ہوتا تھا۔

ڈسکرپشن والے مضمون میں تو کتاب بھی چھاپ دی جاتی تو رٹا بازی کے نام پر تیس سے چالیس فی صد نمبر کاٹ لینا فیشن میں شمار ہوتا تھا۔ آج کل لگتا ہے نمبر نہ کاٹنا فیشن میں شامل ہے۔

(جاری ہے)

اس دور میں یہ بورڈ تک ہی محدود نہیں تھا، یونیورسٹیوں میں بھی یہی طریق رائج تھا۔ انجینئرنگ کے پہلے سال میں انجینئرنگ میٹیریلز کا ایک مضمون تھا۔ اس میں میرے چھیاسی نمبر آئے تو میرا حال کچھ اُڈی اُڈی جانواں سے ملتا جلتا تھا۔

خواہ مخواہ چھج پتاسے ونڈنے کو جی چاہتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ میرے اندازے اور مروج قاعدے کے مطابق ستر کے آس پاس کی امید تھی۔ بعد میں چودھری فرمان علی صاحب پرنسپل پولی ٹیکنیکل کالج لائلپور سے اتفاقی ملاقات ہوئی تو بتانے لگے ’شاید تمہاری یا تمہارے آگے پیچھے کی ایک کلاس کے انجینئرنگ میٹیریلز کے پرچے بطور ایکسٹرنل ایگزامینر دیکھنے کا موقع ملا تو ایک پرچے نے مجھے پریشان کر دیا۔
سمجھ نہ آتی تھی کہ نمبر کہاں سے کاٹوں۔ اٹھانوے نمبر لگا کر پرچے بھیجے تو انٹرنل ایگزامینر کی طرف سے نمبر کم کرنے کا مطالبہ سامنے آ گیا۔ خود پر جبر کرکے چھیاسی کرکے بھیج دیئے کہ اب اس سے کم نہیں ہو سکتے‘۔ اب انہیں کیا بتاتا کہ یہ بجلی مجھی پر گری تھی اور گروائی چودھری ارشد علی نے تھی۔ پروفیس غلام رسول تنویر ہمارے انگریزی کے پروفیسر تھے، یونیورسٹی میگزین کے ایڈوائزر، زبردست افسانہ نگار اور ہم سے پہلے کے ادوار کے ڈراموں کے ہدایت کار۔
موصوف کا معیار اتنا کڑا تھا کہ ان سے کچھ اچھا کہلوانا ایسے ہی تھا جیسے پانامہ کے بِل سے خزانہ نکلوا لانا۔ منزہ سلیم کی کتابوں پر پورے نمبر دیئے، شاید اس لئے کہ اب نمبر کاٹ لینے کا اختیار نہ رہا تھا۔ ایک بار میرے essay پر ویری ویری گڈ لکھا، کہیں کوئی سرخ نشان نہ لگایا مگر نمبر دیئے دس میں سے چھ، میں پرچہ اٹھا کر جا پہنچا ’سر یہ کیا؟‘ فرمانے لگے ’توں شکر نہیں کردا تینوں چھ نمبر دے دتے نیں۔
ساڈا زمانہ ہوندا تے اُتے excellent لکھیا ہوندا تے نمبر ہوندے چار‘۔ اپنے زمانے کی تفصیل کچھ یوں بتائی ’ہمارے زمانے میں ایم اے انگریزی میں جو یونیورسٹی میں فرسٹ آیا تھا اس کی سیکنڈ ڈویژن تھی، باقی سب کی تھرڈ ڈویژن‘۔ میں نے عرض کیا ’تو گویا اپنا بدلہ آپ ہم سے لے رہے ہیں‘۔ فرمایا ’تو اور کس سے لوں؟‘ خوشی ہوتی ہے یہ دیکھ سن کر کہ اب ہمارے سکولوں میں بھی علامے پیدا ہونے لگے ہیں مگر ایک خدشہ بھی ہے کہ کل کلاں یہ سننے میں بھی نہ آ جائے کہ ’ایک ہونہار بچے نے دس سو پچاس میں بارہ سو نمبر لے کر اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے‘۔ یہ مشکل ضرور ہے ناممکن تو نہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles