Badshah - Ghareeb Admi Or Uss Ka Ghora - Article No. 1350

Badshah - Ghareeb Admi Or Uss Ka Ghora

بادشاہ۔۔ غریب آدمی اور اس کا خوبصورت گھوڑا - تحریر نمبر 1350

ایک بادشاہ کے عہد میں ایک غریب آدمی تھا۔گاؤں کا رہنے والا۔بہت ہی غریب آدمی تھا،لیکن تھا وہ صوفی آدمی۔روحانیت سے اس کا گہرا تعلق تھاتو اس غریب آدمی کے پاس ایک خوب صورت گھوڑا تھا،اعلیٰ درجے کا گھوڑا۔

بدھ 21 جون 2017

ایک بادشاہ کے عہد میں ایک غریب آدمی تھا۔گاؤں کا رہنے والا۔بہت ہی غریب آدمی تھا،لیکن تھا وہ صوفی آدمی۔روحانیت سے اس کا گہرا تعلق تھاتو اس غریب آدمی کے پاس ایک خوب صورت گھوڑا تھا،اعلیٰ درجے کا گھوڑا۔دنیا اسے دیکھنے کے لیے آتی۔اس نے بے پیار کے ساتھ اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا اصطبل بنا کے رکھا ہوا تھا۔اس کا عشق اور کچھ نہیں تھا،اس کے پاس اور کچھ نہیں تھا۔
ایک گھوڑا ہی تھا اس کے پاس۔
بادشاہ وقت کو پتا چلا کہ ایک گھوڑا اس کے پاس ہے جو کہ بہت اعلیٰ درجے کا ہے تو یہ حاصل کرنا چاہیے۔تو بادشاہ اپنے حواریوں کے ساتھ امیروں،وزیروں کے ساتھ اس کے پاس آیا۔کہنے لگا،”اے فقیر مانگ کیا مانگتا ہے اس گھوڑے کے بدلے؟“اس نے کہا،”حضور یہ بکاؤ مال نہیں ہے۔

(جاری ہے)

یہ شوق سے رکھا ہوا ہے۔یہ بیچا نہیں جاسکتا۔

یہ تو بیچنے والی چیز ہی نہیں ہے۔“اس نے کہا،نہیں ہم تجھے منہ مانگی قیمت دیں گے۔اس نے کہا ،نہیں جی میں نے بیچنا نہیں ہے۔اس نے کہا پھر غور کرلے۔ہم تجھے ایک پرگنہ ریاست دیں گے۔اس کے بدلے تو ہمیں یہ گھوڑا دے دے۔وہ پھر بھی نہیں مانا۔ضدی آدمی تھا۔سودا چکتے چکتے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے کہا،“آدھی سلطنت لے لے،گھوا مجھے دے دے۔
“اس نے کہا،”جناب عالی!میں نے بتا یا کہ اس کا مول کوئی نہیں ہے۔اگر یہ بکنے والی چیز ہوتی تو میں دے دیتا آپ کو،لیکن یہ بکنے والی چیز نہیں ہے۔“تو اس نے کہا،اچھا تیری مرضی ۔جب بادشاہ چلا گیا تو گاؤں کے لوگوں نے کہا تو کتنا نالائق ،بے وقوف اور کتنا جاہل ہے کہ بادشاہ وقت تیرے پاس آیا۔اس نے آدھی سلطنت آفر کی۔اگرظالم تجھے مل جاتی تو ہم بھر مزے کرتے۔
سارے گاؤں کے مزے ہوتے۔تو ہمارا بادشاہ ہوتا۔ظالم تو نے یہ کتنی بڑی حماقت کی ہے۔کتنی بڑی خوش نصیبی کو گھر آئے،دھکا دے دیا،باہر پھینک دیا۔تو اس نے کہا،وہ عجیب وغریب آدمی تھا۔کہ میرا گھوڑا ہے اس نے اس کا مول لگایا،میں نے نہیں دیا۔اس میں خوش نصیبی یا بدنصیبی کی کیا بات ہے۔یہ تو میری زندگی ہے۔میرا گھوڑا ہے ۔خوش نصیبی تم کدھر سے نکال رہے ہو۔
میں نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ تو ضدی آدمی ہے۔تو شروع ہی سے ایساہے اور تیرا مزاج ہی ایسا ہے یہ کہہ کر چلے گئے۔
تھوڑے عرصے بعد کیا ہوا۔صبح اٹھاچارہ ڈالنے کے لیے تو وہاں دیکھا کہ اصطبل میں گھوڑا نہیں تھا۔اصطبل خالی تھا۔گاؤں کے لوگ آئے،روتے پیٹتے ۔کہنے لگے ہمارے گاؤں کا حسن تباہ ہو گیا۔تجھ سے کہا تھا نا کہ بادشاہ وقت کے ساتھ زور آزمائی نہیں کرتے۔
تیرا گھوڑا تیرے پاس نہیں رہا۔تیرے ساتھ بڑا ظلم ہوا تو تباہ ہوگیا،برباد ہو گیا۔اس نے کہا،میں کہاں سے تباہ ہوگیا۔کہاں سے برباد ہوگیا۔ایک گھوڑا تھا،چھوٹی سی چیز تھی۔میری زندگی تو بہت بڑی ہے۔یہ اس کا ایک حصہ تھا۔حصے کے اوپر میری ساری زندگی کو کیوں پھیلا کر کہہ رہے ہو،کہ چونکہ تمہارا گھوڑا چلا گیا،اس لیے تم برباد ہوگئے۔
معمولی سی بات ہے ۔
انہوں نے کہا نہیں تو بے وقوف آدمی ہے۔تجھے اللہ نے عقل ہی نہیں دی۔
وہ پھر واپس چلے گئے۔کوئی ایک مہینا گیارہ دن بعد اس کا گھوڑا ہنہناتا ہوا واپس آگیا۔اس کے ساتھ گیارہ نئے جنگلی گھوڑے تھے۔وہ کہیں بھاگ گیا تھا جنگل میں،اور جنگل میں جا کرانہیں سیٹ کرتا رہا اور وہ سارے اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔تو گیارہ گھوڑے نئے‘ اعلیٰ درجے کے ساتھ لے کر آگیا۔
جب اس نے دیکھا تو بڑا خوش ہوا۔انہوں نے رسے ڈال کر سب کو وہاں کھڑے کر دیا۔
گاؤں کے لوگ آئے۔انہوں نے کہا”تو بڑا خوش نصیب ہے۔تیرا گھوڑا کھو گیا تھا اور دیکھ تجھے کمال کی چیز لاکردی۔“اس نے کہا،میری کہاں ،میری کہاں خوش نصیبی ہے۔گھوڑا چلا گیا تھا۔واپس آگیا۔تو میری ساری زندگی کچھ اور ہے،اور تم ایک واقعہ پکڑ لیتے ہو۔تم اتنے نالائق لوگ ،سمجھتے نہیں ہو۔
تم آکر کہتے ہو،کیا خوش نصیبی ہے۔وہ جو گھوڑے جنگل سے آئے تھے اور وہ جنگلی گھوڑے تھے۔اب ان کو سدھانا بڑا مشکل کام تھا۔تو اس آدمی کا ایک اکلوتا بیٹا تھا۔بہت پیارا جی جان سے عزیز تھا ۔ایک باپ تھا ایک بیٹا تھا۔اس نے کہا،باپ یہ جنگلی گھوڑے ہیں۔میں ان کو سدھاؤں گا۔بریک ان کروں گا ان ہارسز کو ۔چنانچہ اس نے ایک کورسہ پھنک کر پکڑا۔پکڑ کو اس کے منہ میں لگام دے کر اس کے اوپر چڑھا۔
چڑھ کے سب سے صحت مند جنگلی گھوڑے کو سدھانے کی کوشش کی۔اس کو لے کر گیا۔بھگایا،جنگل میں چکر لگایا۔دوسرے دن پھر جب اس پر چڑھا تو گھوڑے سے گرگیا اور اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی اور زمین پر تڑپنے لگا۔اس کا باپ آیا،اس کو اٹھا ک لے گیا گھر۔گاؤں کے لوگ روتے پیٹتے آئے،تیری بدقسمتی ہے تیرا ایک ہی بیٹا تھا تو مارا گیا ۔تباہ ہوگیا۔ہم تو رونے ،سیاپا کرنے آئے ہیں۔
اتنا جواں سال بیٹا اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی اب یہ تیرے کسی کام کا نہیں رہا۔اس نے کہا بھائی اس میں میری بدقسمتی کدھر آگئی۔یہ میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ایک بیٹا ہے۔بیٹے کی ران ٹوٹ گئی ہے۔مشکل آئی ہے تو ٹھیک ہے۔تم سارے کے سارے کیوں کہہ دیتے ہو کہ تو ماراگیا،تو برباد ہو گیا۔تیرے گھر میں تو بدنصیبی آگئی ہے۔تاؤ ایک مذہب ہے اس کے پیرو کار بڑے وحدانیت کے قائل ہوتے ہیں Oneness کے ماننے والے۔
تو یہ جوٹوٹے آتے ہیں،ان کو نہیں مانتے۔پوری زندگی کو مانتے ہیں اب وہ بدنصیب بیٹا اور ان کے بارہ گھوڑے رہ گئے۔
تھوڑے دنوں کے بعد بادشاہ کی قریبی ہمسایہ بادشاہ سے جنگ لگ گئی اور گھمسان کارن پڑا۔جنگ طول اختیار کر گئی تو بادشاہ وقت کو جبری بھرتی کی ضرورت پڑی۔اس نے ڈنکا بجا دیا گاؤں گاؤں میں ڈونڈی پھیر دی اور جونو جوان بچے تھے ان کی زبردستی جبری بھرتی کے لئے وہ گاؤں میں آگئے۔
جتنے خوب صورت تگڑے مضبوط بچے تھے،ان کو کان سے پکڑ کر جنگ میں لے گئے۔اس کے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی وہ کسی کام کاہی نہیں تھا وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے۔گاؤں کے لوگ اس کے پاس آکر کہنے لگے،یار ہمارے تو پیارے بیٹے تھے،سب کو ہانک کر لے گئے۔تو بہت اچھا رہا خوش قسمت ہے۔اس نے کہا،یار تم بندے اس قابل نہیں ہو کہ تمہارے ساتھ رہا جائے۔یہ گاؤں ہی نالائق لوگوں کا ہے جو زندگی کے ایک چھوٹے سے حصے کو ساری زندگی پر پھیلا کر اس کا نتیجہ نکال دیتے ہیں۔
تو میں معافی چاہتا ہوں۔میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا اور میری اور تمہاری جدائی ہے
چنانچہ وہ اپنے گھوڑے اور بیٹا لے کر کسی اور گاؤں چلا گیا۔اس کا یہ فلسفہ چینی فلسفہ ہے۔دائرے کا ایک بہت بڑا حصہ بنا کر زندگی کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے اور اس کو آنکنے کے لئے ،ایک فتا لے کر اس کا دائرہ کار طے کرنے کے لئے۔کبھی مت کہیے۔آپ کی زندگی میں اگر کوئی برا واقعہ ہوا ہے کوئی ایک دھبا آیا ہے کہ وہ ساری کی ساری آپ کی زندگی پر محیط ہو گیا ہے لیکن انسان کا یہ خاصا ہے کہ جب ذراسی تکلیف پڑتی ہے تو وہ چیختا چلاتا ہے۔
جب ذراسی خوشی کا لمحہ آتا ہے وہ اس کو بھی پھیلاتا ہے کہ میں سارے کا سارا خوش ہوگیا۔حالانکہ اس میں خامیاں،کمزوریاں،کوتاہیاں بدستور موجود ہوتی ہیں۔باوجود اس کے کہ خوشی کا لمحہ آگیا ہو۔

Browse More Urdu Literature Articles