BaetiaN Qabr Ki Raoshni Bhi Tu Hoti HaiN - Article No. 1461

BaetiaN Qabr Ki Raoshni Bhi Tu Hoti HaiN

بیٹیاں قبر کی روشنی بھی تو ہوتی ہیں - تحریر نمبر 1461

جو بیٹیوں کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں بیٹیاں ان کے قدموں کے نشان پر پاتال تک بھی جا سکتی ہیں

Sadaf Zubairi صدف زبیری پیر 28 اگست 2017

انکل نام کیا ہے آپ کا؟
محمد ادیب
سسکیوں میں لپٹی مدھم، نہ سمجھ میں آنے والی سرگوشی سے ڈاکٹر نے حال کا پتا لگانے کی کوشش کی
"
ہممم محمد عزیز "
اور میری طرف گھوما
آدھا گھنٹہ ۔

(جاری ہے)

۔۔ اگر ان کی رگوں میں خون جاری ہو گیا تو شاید ۔۔۔۔
ادھر ڈاکٹر کے نام غلط لینے پر تیوری پر ایک مدھم سی لکیر ابھری، وہی لکیر جس کا ہماری آنکھوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے
ایسے پریشان ہو کر زندگی گزارتے ہیں؟
لڑکی ہو تو کیا معذور ہو، اپاہج ہو؟
پڑھی لکھی ہو، اپنا حق پہچانتی ہو تو لڑو ۔
۔۔

یہ وہ دور تھا جب ہم سر جھکا کر سنتے ہیں، پھر سر اٹھا کر لڑنے کا سلسلہ شروع ہوا
ایسا بنا دیا آپ نے ہمیں؟
یہ عجیب سے ٹیڑھی لائف، ٹیڑھے لوگ ۔
۔۔۔ آخر چپ کر کے زندگی گزارنا کیوں نہیں سکھایا ۔۔۔۔

کہیں اپنا حق چھوڑ دو تو تکلیف، کسی کا مار لو تو عذاب ۔
۔۔۔ چین کا کوئی پل نہیں ۔۔

وہی تیوری !
تو چین کا پل لے کر کیا کرو گی؟ زندگی عمل کا نام ہے، موت کے بعد سو لینا آرام سے ۔
۔۔۔

ہاں تو محمد ادیب اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔
۔۔۔

ٹھیک ہے، یقین نہیں آتا لیکن وہ کفن میں لپٹے چار کاندھوں پر لائے گئے
اور حسب عادت ہماری ساری توجہ کا عین مرکز بن گئے، ابھی کچھ باتیں رہتی تھیں ۔
۔۔ کچھ کام ادھورے تھے ۔۔ کچھ جھگڑوں کا تصفیہ باقی تھا، وہ بازی ادھوری چھوڑ کر کیسے جا سکتے تھے؟

دھند کے اس پار سے کسی نے جھنجلا کر کہا
صدف بس، ہٹو
اور انہیں لے گئے ....
جانا کون چاہتا ہے، سب بس لے جائے جا رہے ہیں
میں نے گھٹنوں پر سر رکھا اور ہمیشہ کی طرح اپنی مرضی کے منظر میں جا پہنچی
ہم نے ان کی نماز پڑھی
تو عالی شان عظمت والے یہ تیرا ایک اور عاجز بندہ تیرے حوالے، تُو نے ہی سب کو زمین میں بکھیرا ہے اورتُو ہی سمیٹنے والا ہے
ہم اس تاریک وادی کی جانب چلے جہاں روشنیاں اعمال کے لیمپ کی صورت میں ہی لے جانا ممکن ہے
میں نے ایک قدم اور اپنے اندر وقت کی قبر میں رکھا اور زمین زادی سے التجا کی
ان کی حفاظت کرنا، یہ اللہ کی امانت بروز حشرتک تیرے سپرد ہے اب ۔
۔۔

اور آنسوؤں کی مٹی کو پلکوں کی مٹھی میں بھر بھر کردھیرے دھیرے ڈالتی رہی
تو یہاں تک ساتھ آنے والے واپس لوٹ رہے تھے، میں نے اپنے اندر ایک قدم اور نیچے رکھا اور دل کی قبر کی نرم سرد زمین پر ایک کونے میں چھپ کر جا کھڑی ہوئی، کتنی ہی گہری تاریک ساعتوں کے بعد روشنی چمکی تھی
تمہارا رب کون ہے؟
اللہ کے سوا کیا کوئی اور بھی رب ہے؟
میری رکتی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں
نور کا ایک تیز ریلا تھا اور میری نگاہ کو اٹھنے کی اجازت نہ تھی
یہ کون ہیں؟
وہی جو کائنات میں سب سے محبوبؐ ٹھہرائے گئے ہیں، میرے ماں باپ اور میری اولاد جن پر قربان ۔
۔۔

میرے آنسو بہہ رہے تھے، زمان ومکاں کہاں تھے، کوئی قید قید نہ تھی نہ کوئی آزادی آزادی ۔
۔۔۔۔جب کوئی صدا آسمانوں کے گنبد کو چھو کر پلٹی ۔۔۔

جوانی کن کاموں میں خرچ کی؟
ایک چپ تھی گہری چپ
مگر میری روح چلا رہی تھی، منتظر تھی، نہیں بے چین تھی، میں التجا کرنا چاہتی تھی، تھوڑا وقت دیں، ذرا سانس لینے دیں
سانس؟
محمد ادیب! جوانی کن کاموں میں خرچ کی؟
میں بے چین تھی
میں بتاؤں؟ ارے بیٹیوں والے باپوں کا حساب ان کی بیٹیوں سے کیوں نہیں لیا جاتا ... وہ بیٹیاں جو پل صراط پار کروادیتی ہیں، وہ جو میزان کے جس پلڑے کی طرف ہو جائیں وہ جھک جائے، وہ جو خدا سے لڑ لیتی ہیں، وہ جو باپوں کے لئے قسمت سے لڑ لیتی ہیں، وہ جو کمزور جسم اور بہتی آنکھوں سے باپوں پر آئے طوفانوں کے رخ موڑ دیتی ہیں ان باپوں کی جوانیوں کا حساب ان کی بیٹیوں سے لو ۔
۔۔۔

جوانی کن کاموں میں خرچ کی؟
میں پس منظر سے نکل کر منظر تک چلی ۔
۔ میرا علم خوف کی پوری طاقت سے چیخا، حد ادب
!
جوانی کن کاموں میں خرچ کی محمد ادیب؟
میں لرزتی کانپتی فنا ہوتی سامنے آئی
"
اپنی اور بیٹیوں کی زندگی کی کتاب لکھنے میں ...."
اتنی جرات، اتنی ہمت یہاں اس جگہ، اس مقام پر کیسے؟
مجھ سے پہلے اس بات کا جواب "اس " کی رحمت نے دیا
جو بیٹیوں کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں بیٹیاں ان کے قدموں کے نشان پر پاتال تک بھی جا سکتی ہیں
بیٹیاں قبر کی روشنی بھی تو ہوتی ہیں "