BesveeN Sadi Ka Aham Ghazalgo Ahmad Mushtaq - Article No. 1417

BesveeN Sadi Ka Aham Ghazalgo Ahmad Mushtaq

بیسویں صدی کا اہم غزل گو احمد مشتاق - تحریر نمبر 1417

احمد مشتاق محبوب کے سراپا کے روایتی بیان کی جگہ اس کی طلسمی شخصیت کے حسی اثرات ارد گرد کی فضا میں رچا دیتے ہیں جس سے گرد و پیش ایک آئینے کا کام دینے لگتا ہے

Naveed Sadiq نوید صادق ہفتہ 5 اگست 2017

احمد مشتاق قیام پاکستان کے بعد سامنے آنے والے شعرا میں بہت نمایاں ہیں۔ ان کے ہاں خوابوں کی ایک دنیا آراستہ ہے۔ ماضی کی خوشگوار اور تلخ یادیں ان کا سرمایہ ہیں۔ ان کے ہاں معاملاتِ محبت دلچسپ اور خوبصورت انداز میں سامنے آتے ہیں۔ وہ محبوب کے سراپا کے روایتی بیان کی جگہ اس کی طلسمی شخصیت کے حسی اثرات ارد گرد کی فضا میں رچا دیتے ہیں جس سے گرد و پیش ایک آئینے کا کام دینے لگتا ہے۔

محبوب کا ماحول کو یکسر بدل دینا، اور شاعرکے ذہن میں ماضی کے حوالے سے گونجتے رہنا ....ایک عجیب سماں باندھ دیتا ہے۔ کہیں کہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی شخص بے خیالی میں کوئی داستان بیان کیے جا رہا ہے۔ یہ ان کا خاص انداز ہے۔ لہجے کی نرمی، آواز کی ملائمت، کیفیات کی لطافت اور دھیما پن اس پر مستزاد ہیں۔

(جاری ہے)

یہ رویہ انہیں اپنے عہد کے شعراء سے منفرد و ممتاز کرتا ہے۔

ان کی شاعری ان کے فکری اور جذبی تموج کا جھلمل انعکاس ہے۔ ان کی شاعری متحرک تمثال کاری کی عمدہ ترین مثال ہے: یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں رسّے کے پلوں پر سے گزرتے ہیں مسافر ٹھہری ہوئی جھیلوں میں گھرا ہے نگر اپنا احمد مشتاق کی شاعری میں عاشق پیش قدمی نہیں کرتا۔ وہ ہر قدم کی خواہش محبوب سے رکھتا ہے۔

”چاہنے“ کی نسبت ”چاہے جانے“ کی خواہش.... ماہرینِ نفسیات اسے مردانہ بالادستی کی خواہش سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ کجا یہ کہ عاشق انتظار کرے، محبوب کو اس امتحان سے گزارا جاتا ہے۔ اس پر احسان جتایا جاتا ہے۔ یہ کُل وقتی عاشق نہیں۔ اسے اور بھی کام کاج ہیں۔ اردو شاعری میں اس رویے کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوگی: خالی ڈھنڈار پڑی ہے بستی پھر کوئی آگ جلانے آئے اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے عجب کیا وہ تو آئیں، ہم نہ آئیں شاعر کے باطن میں ایک جھجھک ہے۔
احساسِ شکست خوردگی، انکساری یا پھر خوف .... معاشرتی خوف۔ ہر کام بالا بالا ہو جائے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ اور تو اور محبوب بھی....اس میں اپنی ذات سے گریز کا ایک پہلو بھی نکلتا ہے اور خود اذیتی کی ایک دبی دبی خواہش بھی:
کاش ہم نے بھی سنی ہوتی کبھی دل کی پکار
چاہتی تھی ہم سے جو دنیا وہی کرتے رہے
اب بتائیں بھی تو کیسے دل کے بجھنے کا سبب ہم کہ اپنے آپ سے پہلو تہی کرتے رہے ناکامی .... احمد مشتاق کا مقدر ٹھیرتی ہے لیکن وہ مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
اپنے غم کا بیان اس طور کرتے ہیں کہ اردو شاعری کے رازونیاز سے آگاہ قاری حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ وہ تو.... درد کی ایک زیریں لہر ان کے کلام میں جھلکیاں لیتی دکھائی دیتی ہے۔ زیرک شاعر تشبیہوں اور استعارات کی مدد سے اپنے شعر میں تجربے کی ایک دنیا سمیٹ دیتا ہے:
بڑے گلاب کی شاخیں پسند ہیں مجھ کو
مرا نصیب یہی ہے کہ دور سے دیکھوں

وہ مجھے چھوڑ گیا ہے مشتاق

دریا نے بدل لیا ہے رستہ

گھر کی باس اور جسم کی خوشبو بڑے بڑوں کو بھلا دیتی ہے مجھ میں کیا سرخاب کا پر ہے آخر کیوں تجھ کو یاد آؤں احمد مشتاق کے ہاں تجربے کی نوعیت سراسر ذاتی ہے۔

وہ ان تجربات کی طرف اشارہ دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور قاری منہ میں انگلی دابے آئینہَ حیرت بنا رہ جاتا ہے کہ شاعر کیا کہہ گیا ہے۔ ان کے الفاظ، ان کی تراکیبب زمین پر چلتے پھرتے انسان کے روزمرہ سے ہیں۔ وہ تغیراتِ شب و روز کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ذاتی تجربات، جذبات اور احساسات کو گزرتے وقت کے حوالے سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنا کتھارسس کرتے ہیں۔
ذاتی احتساب سے گزرتے ہیں۔ کائنات، معاشرہ، عشق.... کوئی بھی تو اس عمل سے بچ نہیں پاتا۔ اور بعدازاں اپنے مخصوص انداز میں ان حقیقتوں کی Reflections پیش کرتے چلے جاتے ہیں: پانی میں کانپتے ہیں ابھی تک پلوں کے عکس وہ سیلِ بے پناہ تو کب کا گزر گیا خشک تالاب، ٹوٹی ہوئی سیڑھیاں، ادھ کِھلے پھول، پر سوختہ کھڑکیاں پھر کوئی شہر آنکھوں میں پھرنے لگا، پھر مجھے راستے یاد آنے لگے بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں بجھے ٹکڑے پڑے ہیں سگرٹوں کے راکھ دانوں میں انتظار حسین کو احمد مشتاق کی شاعری میں سماجی دکھ سکھ کا احساس اور قومی تقاضے پورے کرنے کی لگن کی عدم موجودگی گراں گزرتی ہے۔
ان کے خیال میں احمد مشتاق جوتے اتار کر شاعری کی عبادت گاہ میں داخل ہوتے ہیں، شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شاعر کا اپنے گرد و پیش کی دنیا سے کوئی ربط نہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلیاں اس پر اثرانداز نہیں ہو رہیں۔ احمد مشتاق جیسے حساس شاعر سے اس طرح کی باتوں کا منسوب کیا جانا مناسب نہیں کہ:

بدلتے موسمو! غافل نہیں ہم

ہم اپنا کام کرتے جا رہے ہیں

کیسے مکاں اجاڑ ہوا کس سے پوچھتے

چولہے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا

Browse More Urdu Literature Articles