Kali Sahafat - Article No. 1507

Kali Sahafat

کالی صحافت - تحریر نمبر 1507

اخبار میں آج بھی سرسبز صحافت ہے تو ٹی وی میں دکھنے والی صحافت بھی زرد نہیں. کالی ہے

ہفتہ 23 ستمبر 2017

تحریر: سعید اللہ قریشی
صحافیوں کے بارے میری رائے کچھ ایسی اچھی نہیں تھی کہ میں صحافیوں یا اس رائے پر بار دگر وقت لٹاتا۔ سو گھر میں ٹی وی نہ رکھا اور میس کے ٹی وی کو کبھی شکل نہ دکھائی۔
اخبارات کا وقت میری زندگی میں ماسوائے سرخی دیکھنے کے اور کوئی نہیں اور وہ بھی انٹرنیٹ سے اتنی ہی دیر میں دیکھتا ہوں جتنی دیر میں سرخی لگتی ہے۔


مگر کل شام ایک صحافی جناب رفیق غوری صاحب کے تعزیتی ریفرنس میں جانا ہوا۔ اس محفل میں ایک ایسے شخص موجود تھے جنہوں نے مجھے یہ اعزاز بخشا ہوا تھا کہ میں انہیں جانتا تھا۔ خواجہ زکریا جیسے کمال عالم آدمی بھی وہاں موجود تھے۔ دو افراد ایسے تھے جنہیں میں خوب جانتا تھا اور یہ بھی میرا اعزاز ہے۔ میری مراد ڈاکٹر اجمل نیازی اور فرحت عباس شاہ ہیں۔

(جاری ہے)


اور ایک جناب رفیق غوری صاحب کے بھائی اور میرے عزیز دوست وسیم عبداللہ، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ میرا اعزاز ہیں۔
محفل کا آغاز ہوا اور تذکرے شروع ہو گئے رفیق غوری کے۔
میں اس نسل سے ہوں جس میں ادیب ہی ادب کو پڑھتا ہے۔ شاعر ہی شاعری پڑھتا ہے بلکہ کئی شاعر اپنی محبوبہ کی بجائے صرف شاعروں کے لئے شاعری کرتے ہیں۔
سوچئے ایسی شاعری میں کیا تاثیر ہوگی۔
اسی طرح کیسا برا وقت ہے کہ ایک صحافی ہی کالم پڑھتا ہے۔ حالانکہ بات یہ ہے کہ یہ کام طالب علم کا تھا جو شاعر اور صحافی سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
کیمروں کی کچر کچر میں جب دھیمی دھیمی سسکیاں ابھرنے لگیں تو میں بولے جانے والے لفظوں کو دماغ کی بجائے دل کے کانوں سے سننے لگا۔
اور پھر رفیق غوری مجھ پہ کھلتا گیا۔
رفیق غوری ان لوگوں میں شامل تھا جن کی مٹی روح کی بجائے نظریے کی وجہ سے زندگی پاتی ہے۔
وہ صحافی جن کا ذکر کبھی شورش کاشمیری کی کتب میں پڑھا تھا، یہ اسی طرز کا آدمی تھا، یعنی پاکستانی صحافت کا سچا، کھرا اور وقت پر حق بات کرنے والا نمائندہ۔
میں جانتا ہوں کہ شاعر اور صحافی تعزیتی ریفرنسوں یا محفلوں کے لئے بندے اکٹھے کرتے رہتے ہیں لیکن آج ہال میں مجھے بھی کھڑا ہونا پڑ رہا تھا۔
رفیق غوری کبھی بین الاقوامی صحافیوں کی موجودگی میں نوازشریف کو سفارتی آداب اور ملکی وقار کا دھیان کرواتے ہوئے تین بار بآواز بلند کہتا دکھائی دیتا ہے کہ "میاں صاحب مصافحہ میں پہل کر لی ہے اب جپھا نہیں ڈال دینا"، کبھی رفیق غوری کا ایک جملہ پی سی او کے حاضر سروس جج کو بھری محفل میں "اقبال ظلم" کرواتا ہے تو کہیں رفیق غوری ایک اخبار کا مالک بننے کی خواہش کرتا ہے۔

جیسے ہمارے میڈیائی مشاعرے میں شعرا کی ہمیشہ ایک پکی لاٹ ہی دکهائی دیتی ہے جو اب پڑے پڑے سیبوں کی طرح سوکھ رہے ہیں، وہ اس شعر کی تفہیم پا چکے ہیں کہ
یہ جو مجھ کو ہٹا دیا گیا ہے
آپ کو راستہ دیا گیا ہے
لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ سوکھنا ہٹ جانے سے بہتر ہے۔
لیکن ایسا بالکل نہیں کہ اچھا شعر فقط وہی تخلیق کر رہے ہیں جو میڈیا کے مشاعروں کی "جاگ" ہیں۔
جاگ وہ جو ہر کونڈے میں چمچ چمچ ڈال کے دہی یا مشاعرہ جمایا جاتا ہے۔
شعرا کی طرح مجھے کل علم ہوا کہ جس میڈیا کو دیکھ کے میں صحافت سے نفرت کرتا ہوں بنیادی طور پہ اصل اصیل صحافت ادھر ہے ہی نہیں کہیں کوئی دانہ ہو تو ہو مگر کنفرم ہے کہ دانا نہیں ہوگا۔
اور اسی کے متوازی رفیق غوری اور اس جیسے کئی صحافی آج بھی انا اور نظریے کا چراغ اٹھائے ہوئے ہیں اور اس چراغ کی لو کوئی سرمایہ دار اور سرمایہ مدھم نہ کر سکا۔

مشرف نے جناب کو تکالیف و مصائب اس درجہ عطا کیں کہ برین ہیمبرج سے دو دو ہاتھ کرنا پڑے۔ انہی دنوں میاں فیملی کی جانب سے پانچ لاکھ کا چیک یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ مجھےاتنا نیوندرا دو جو میں تمہیں لوٹا بھی سکوں، پانچ صد کا نوٹ کافی ہے۔
چٹان اخبار کے دور کا آدمی آج بھی سرمایہ دار اخباری اور چینل مالکوں کے لئے چٹان تھا اور درحقیقت کئی چٹانوں کو اور مستحکم کر گیا ہے۔
اور میں نے نوجوان صحافیوں کو رفیق غوری کے طرز عمل پر چلنے کی قسمیں کھاتے اور حلف اٹھاتے دیکھا۔ جیتا رہے حق اور سچ!
یہ وہ صحافت ہے جو اس دھرتی میں سر سبز و شاداب ہے اور رہے گی کیونکہ میں نے اخلاص سے بھرے صحافی اپنے اس ہیرو کے لئے روتے بھی دیکھے اور رلاتے بھی۔
رندھے گلوں اور لرزتی دعاؤں کی دلگدازی لئے یہ محفل اپنے اختتام سے قبل میرے دل کو صحافتی ایمان سے منور کر چکی تھی اور میں یہ جان چکا تھا کہ یہاں اخبار میں آج بھی سرسبز صحافت ہے تو ٹی وی میں دکھنے والی صحافت بھی زرد نہیں. کالی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles