Kangaroo Ki Maan Kab Tak Khair Manay Gi - Article No. 1059

Kangaroo Ki Maan Kab Tak Khair Manay Gi

کینگرو کی ماں کب تک خیر منائے گی! - تحریر نمبر 1059

(یاد کیجیے … ویسٹ انڈیز میں منعقدہ کرکٹ ورلڈ کپ 2007ء، جہاں فائنل میں آسٹریلیا نے سری لنکا کو ہرایا تھا، جب کہ بھارت اور پاکستان پہلے ہی راؤنڈ میں مقابلے سے باہر ہو گئے تھے۔ بھارت کو بنگلا دیش نے اور پاکستان کو آئرلینڈ نے مات دی تھی۔ اب آگے پڑھیے۔)

نادر خان سرگروہ جمعہ 20 مئی 2016

(یاد کیجیے … ویسٹ انڈیز میں منعقدہ کرکٹ ورلڈ کپ 2007ء، جہاں فائنل میں آسٹریلیا نے سری لنکا کو ہرایا تھا، جب کہ بھارت اور پاکستان پہلے ہی راؤنڈ میں مقابلے سے باہر ہو گئے تھے۔ بھارت کو بنگلا دیش نے اور پاکستان کو آئرلینڈ نے مات دی تھی۔ اب آگے پڑھیے۔)
آخر آسٹریلیا نے ورلڈ کپ … سال دو ہزار سات بھی جیت لیا۔ یا یوں کہا جائے کہ آسٹریلیا ورلڈ کپ شروع ہوتے ہی جیت گیا تھا۔
اب بتائیں! اِس آسٹریلیا کا کیا کِیا جائے؟ آسٹریلیا تو جیسے کرکٹ کو ’کھیل سمجھتا ہے‘۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کی تما م ٹیموں کو سَر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور ہماری طرح سوچنا ہو گا کہ اِس آسٹریلیا کا کیا کِیا جائے؟ اب کی بار توآسٹریلیانے ویسٹ انڈیز کے جزائر میں … یعنی جزائر غرب الہند میں لنکا ڈھا دی۔

(جاری ہے)

آسٹریلیا کبھی لنکا ڈھاتا ہے تو کبھی برطانیہ کا سورج غروب کر دکھاتا ہے۔

گویا آسٹریلیا … آسٹریلیا نہ ہوا، کرکٹ کا امریکا ہوا!
آسٹریلیا سے جیتنے کی تو کوئی ترکیب نہیں نکلتی۔ ہاں! ہار سے بچنے کے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ میچ شروع ہوتے ہی آسٹریلیا کی جیت کی امکانی اُمید پر پانی پھر جائے، یعنی بارش ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس کے ساتھ کوئی میچ ہی نہ کھیلا جائے۔ ہمارے دوست پُرجوش پُوری کے خیال میں آسٹریلیا کی طرح آسٹریلیا کا نام بھی قابو نہیں آتا۔
وہ ’آسٹریلیا‘ کو بمشکل ’اَسٹے لِیا‘ کہہ پاتے ہیں۔ اُن کا یہ مشورہ ہے ، ”اَسٹے لِیا کوجو ہے نا! دس، بارہ کپ پیشگی دے دیے جائیں اور اُس سے کہا جائے کہ جاؤ! اب دَم لے لو! اسی کے ساتھ اُن کپس پر سنہ بھی لکھ دیے جائیں۔ مثلاً ، دو ہزار گیارہ ، دو ہزار پندرہ ، دو ہزار اُنیس اور تاکید کی جائے کہ آج کے بعد ورلڈ کپ کے آس پاس بھی نہ پھٹکنا۔
بچے ڈرتے ہیں۔“
آسٹریلیا کو اگر ورلڈ کپ سے روکنا ہو تو مخالف ٹیم کو بائیس کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی جائے، یعنی پوری ’بائیسی ٹُوٹے‘*۔ گیارہ کھلاڑی میدان میں ہوں اور باقی گیارہ تماشائیوں میں جگہ جگہ چھپے ہوں، جنہیں میدان سے باہر کیچ پکڑنے کی اجازت ہو۔ آسٹریلیا کی مقابل ٹیم جب گیند بازی کرے تو تین کی بجائے چھ اسٹمپز نصب ہوں۔
آسٹریلیائی بَلّے بازوں کے ہاتھ میں بَلّے کی جگہ ہاکی اِسٹک ہو۔ اور تو اور، دونوں امپائرز کو بھی آسٹریلیا کی مخالف ٹیم کے ارکان میں شمار کیا جائے۔
بات آسٹریلیا کی ہو … اور کینگروز کا تذکرہ نہ ہو، یہ بالکل ایسے ہے جیسے کینگروز کا تذکرہ ہو … اور آسٹریلیا کی بات نہ ہو۔ آسٹریلیا میں کینگروز کی تقریباً ساٹھ قسمیں آباد ہیں، جن کی تعداد پانچ کروڑ سے بھی زائد ہے( یقین نہ آتا ہو تو خود جا کر گِن لیں)۔
جب کہ انسانوں کی آبادی صرف دو کروڑ ہے۔ یعنی آسٹریلین … کینگروز کے ملک میں بستے ہیں۔ تعجب ہے اور افسوس بھی، کہ اکثریت میں ہونے کہ باوجود کینگروز کا ایک بھی نمائندہ آسٹریلیائی ٹیم میں شامل نہیں!
کینگروز کی طرح اُن کی آبادی بھی یوماً فیوماً چھلانگ لگا رہی ہے۔ یہ بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے،یعنی آسٹریلیائی حکومت اب تین طرح کی مصیبتوں کا شکار ہے۔
پہلی مصیبت، آسٹریلیا کے وسیع اور گھنے جنگلات میں اچانک لگنے والی آگ۔ دوسری یہ کہ انسانوں کی آبادی لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں بڑھ رہی۔ وہاں اِنسان گھرکو ویرانہ بنا رہا ہے، جب کہ کینگروز بے فکری سے جنگلوں کو آباد کر رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ افراد کو اُن کے شکار کی آزادی ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے ہمارے یہاں انسانوں کے شکار کی۔
یوں تو کینگروز کو ختم کرنا اِتنا آسان نہیں، کیوں کہ یہ تو وہ ہیں کہ:

اِدھر کُودے اُدھر نکلے ، اُدھر کُودے اِدھر نکلے

چلیں! ہم یہاں کم اَزکم اُن کا قصّہ تمام کرتے ہیں۔

بعض اوقات پُر جوش پُوری بڑے عجیب و غریب سوالات پوچھتے ہیں اور دوسروں کو اُلجھا دیتے ہیں۔ اُن کا یہ سوال دیکھیں!
” ہر کینگروکے پیٹ سے ایک بچہ چِمٹا ہوا رہتا ہے، یعنی ہر کینگرو، مادہ کینگرو ہوتی ہے۔ جب ہر کینگرو مادہ کینگرو ہوتی ہے تو پھر وہ بچہ … اُن کی جھولی میں کون ڈالتا ہے؟“ خیر چھوڑیں اِن کی باتوں میں نہ اُلجھیں! ممتا کی بہترین مثال دیکھیں کہ پیٹ کا بچہ پیٹ سے الگ نہیں ہوتا۔

کسی سیانے کا قول ہے کہ ایک اچھا کھلاڑی اچھا … کوچ … نہیں ہو سکتا، اور ایک اچھا… کوچ … بننے کے لیے اچھا کھلاڑی ہونا ضروری نہیں۔ اِس قول سے ہماری …سوچ …کو تقویت ملی کہ ہم بھی اچھے … کوچ…بن سکتے ہیں۔ لیکن جب پاکستان کے … کوچ … باب وُلمر مشکوک حالت میں اِس دنیا سے…کُوچ …کر گئے، تو ہمارے ذہن سے …کوچ … بننے کی …سوچ … ہمیشہ ہمیش کے لیے… کُوچ… کر گئی۔

اپنے کھیل کے دنوں میں ہم کرکٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں کھیلتے تھے۔ ہاں! کرکٹ سے کچھ وقت بچا کر تھوڑا بہت پڑھائی کا کھیل بھی کرتے تھے۔ ہر میچ میں ہمارا کپتان ہمیں سب سے مشکل جگہ پر فیلڈنگ پر مامور کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہتا، ” میں تجھے سبق سکھانا چاہتا ہوں۔“ ہم یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ ” چلو اچھا ہے، کرکٹ کا کوئی سبق ہو گا۔ “ وہ ہمیں سِلی پوائنٹ (Silly-point) پر بَلّے باز کے رُوبرو کرتا۔
ایک مرتبہ بَلّے باز نے آف اسٹمپ سے باہر جاتی ہوئی شارٹ پِچ گیند کو سبق سکھانے کی کوشش میں بَلّا گھمایا، اُس کی چپیٹ میں گیند تو نہ آئی، البتہ ہمارا گیند جیسا سر ضرور آگیا۔ پھر تو سارا جہان ہمارے سامنے گھومنے لگا۔ اسکول میں استاد کے پڑھائے ہوئے سبق پر ہمیں پختہ یقین ہونے لگا کہ زمین گردش کرتی ہے۔ ہمیں چکراتا دیکھ کرٹیم کا کپتان، اپنے سبق اور ہمارے سر میں آخری کِیل ٹھوکنے اپنی انگلیوں پر ہمیں گنتی پڑھانے آ گیا۔
” یہ انگلیاں کتنی ہیں؟ … یہ ؟ … اور… یہ؟“ ہم نے کہا، ” پہلے یہ تو گِن لوں کہ تم کتنے ہو، بعد میں یہ بتاؤں گا کہ انگلیاں کتنی ہیں۔ “ اُس دن کے بعدسے ہم نے سوچ لیا کہ اب یہاں وہاں سبق نہیں سیکھیں گے۔ جہاں سیکھنا ہو، وہیں سیکھیں گے۔
سبق سیکھنے سے یاد آیا کہ ہم نے اور ہمارے بانکے دوست پُر جوش پُوری نے آسٹریلیا کو سبق سکھانے کے لیے ہر آڑے ترچھے زاویے سے سوچا۔
ایک ترچھے زاویے کے مطابق یہ طے ہوا کہ ہند، پاک اور بنگلادیش کے ٹوٹے ہوئے زاویوں کا ایک مثلث بناکر آسٹریلیا کو گھیرا جائے اور اُسے تینوں شانے چِت کیا جائے، لیکن اِن تینوں کو ملاکر بھی برّ صغیربنتا ہے، یعنی اب بھی مقابلہ برابری کا نہ ہوا۔ برّصغیر کا مقابلہ برّاعظم کے ساتھ ؟ برّ … اَ ع ظَ م … کے ساتھ ؟ … ہا …ہا۔
تمام زاویوں سے سوچنے کے بعد ہمیں آسٹریلیا کو ورلڈ کپ اُچک لے جانے سے روکنے کی ایک ہی صورت نظر آئی۔
وہ یہ کہ آسٹریلیا؛ فا ئنل میں اپنے کسی کالج کی ٹیم کو میدان میں اُتارے۔ لیکن آسٹریلیا سے فائنل میں کھیلنے کی نوبت تب آئے گی جب ہم بنگلا دیش اورآئر لینڈ کو ہرا پائیں گے۔
خیر! سب ٹیموں کے دن پھریں گے۔ ویسٹ انڈیز کا ظلم و جبر ختم ہوا، ایک دن آسٹریلیا کا بھی ہو گا۔ تمام ٹیموں کو چاہیے کہ وہ کچھ نہ کریں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرکر بیٹھی رہیں کہ آسمان سے کوئی ٹیم اُترے اور آسٹریلیا کے ظلم و جبر سے اُنہیں نجات دلائے۔
آخر … کینگرو کی ماں کب تک خیر منائے گی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’بائیسی ٹوٹنا‘ یعنی پوری فوج لے کر حملہ کرنا۔

)مئی، دو ہزار سات)

Browse More Urdu Literature Articles