Khan Bahadur Ki Bad Aqli - Article No. 1307

Khan Bahadur Ki Bad Aqli

خان بہادر کی بدعقلی - تحریر نمبر 1307

خان بہادر کا روزگار کا مسئلہ عرصہ دراز سے چل رہاتھاجہاں بھی نوکری کی تلاش میں جاتے مایوس ہی آتے اب تو انہوں نے دفاتر کو چھوڑ کر چھوٹے موٹے کاموں کو سوچنا شروع کر دیا تھا ۔اُن کی بیگم جو خاصی بھاری بھرکم تھیں ساتھ دینے کیلئے خان بہادر کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں

جمعرات 4 مئی 2017

فرحین منیر:
خان بہادر کا روزگار کا مسئلہ عرصہ دراز سے چل رہاتھاجہاں بھی نوکری کی تلاش میں جاتے مایوس ہی آتے اب تو انہوں نے دفاتر کو چھوڑ کر چھوٹے موٹے کاموں کو سوچنا شروع کر دیا تھا ۔اُن کی بیگم جو خاصی بھاری بھرکم تھیں ساتھ دینے کیلئے خان بہادر کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں،انہیں اچھی طرح اندازہ تھا خان بہادر صاحب کا بہادری کا خطاب صرف نام کا ہی ہے کام میں تو وہ بالکل ہی نامراد رہے مگر جان کے معاملے میں بھی زیادہ توانا نہ تھے ۔
پتلے دبلے جھریرے سے بدن پر روزگار کا بار اٹھانا توکجا وہ چھوٹے موٹے کا موں میں بھی ناکام جا رہے تھے۔ان کا گزارہ بیگم کے بنائے گئے چھوٹے سے سلائی سکول سے ہوتا تھا جو اچھا خاصہ روزگار کا ذریعہ تھا۔
خان بہادر درجن بھر درخواستیں جیب میں لئے پھرتے جگہ جگہ انٹرویودیتے گو کہ ترکیب کے بدلے اُلٹی تدبیر والا معاملہ درپیش آتا،ملازمت دینے والے نامُرادواپس لوٹا دیتے کہ معاملے سنجیدہ نہیں لگتا۔

(جاری ہے)

خان بہادر کے لٹکے منہ سے بیگم اندازہ لگا لیتیں مگر ان کے حوصلے پست نہ ہونے دیتیں اور انہیں چھوٹے موٹے کاموں کی طرف متوجہ کر کے چند روپے کما کر لانے کے گُربتاتیں کہ مرد کی شان کو قائم رکھ سکیں بھلا مرد بے روزگارکب اچھا لگتا ہے ۔پڑے پڑے چارپائی تورتے اور اب تو چارپائی بھی تنگ آچکی ہے۔
خان بہادر آج کل درزی کی دکان پر جارہے تھے سوئی میں دھاگہ ڈالنے کی کوشش میں انگوٹھا زخمی سلائی کے کپڑے استری کرتے ہوئے قمیض میں اچھا خاصہ سوراخ کرڈالا درزی سے سلائی سکھانے کی بجائے اُلٹا،نقصان بھرناپڑا،سیلز مین کی نوکری ملی تو خان بہادر نے اتنی بہادری دکھائی کہ سامان دے کر پیسہ ہی لینا بھول گئے۔
سامان کے سارے پیسے بیگم کو ادا کرنے پڑے۔بیگم تو ان کے کل پرزوں کو زنگ سے بچانے کی کوشش کرتیں اور انہیں ہل جل کرنے کا مشورہ دیتیں۔
خان بہادر بہت کچھ کردینے کے چکر میں سب اُلٹا ہی کر بیٹھتے۔اب کی بار وہ پھر جوش سے گھر میں داخل ہوئے اور باری باری چھریوں کا جائزہ جولیا تو بیگم نے ساری کی ساری چھریاں نکال کر سامنے ڈھیر کرڈالیں کہ لو اب باری باری اس گوشت کے ٹکرے پر آزماؤقصائی تو تمہیں ضرور کام دے ڈالے گا۔
خان بہادر نے پہلے تو سبزی پر کئی وار چلانے کی پہلے پریکٹس کرلو پھر گوشت پر آزماؤں ۔بیگم کو اس بار بھی زیادہ اُمید تو نہ تھی مگر اُمید پر دنیا قائم ہے۔یہ یقین ضرور تھا کہ چلو بقر عید آنے میں چار ماہ باقی ہیں ہاتھ خاصا صاف ہوجائے گا۔
کچھ دنوں کے بعد پتا چلابرابر والے گھر میں عقیقے کا بکرا کاٹنا تھا۔خان بہادرنے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے بکرا ذبح کرنے کا کہہ دیا۔
پورے سازوسامان کے ساتھ پڑوس میں پہنچ گئے۔گھنٹہ بھی نہ گزرا تھاکہ کچھ لڑکے خان بہادر کو بکڑے کی طرح ہاتھ اور ٹانگیں پکڑے لٹکائے لے آئے۔بیگم کے احوال پوچھنے پر بتایاکہ طاقتور بکرے کی ٹانگیں سینے پر جا لگیں بکراکہاں اور خان بہادر وہاں۔بیگم نے جھٹ سنبھالا دوڑ کر میاں کے مرہم پٹی کی ہلدی والا دودھ دیا کہ اندر کی چوٹ باہر آجائے۔خان بہادر چاروں شانے چیت لیٹے خلاؤں میں گھوررہے تھے بیگم نے کپڑوں کاگٹھڑ اٹھایا اور سلائی سکول چل دیں کہ ابھی تو اپناسلائی سکول ہی اچھا پھر کی پھر سوچیں گے اگلے کام کے بارے میں

Browse More Urdu Literature Articles