Masjid Wazir Khan - Article No. 1355

Masjid Wazir Khan

مسجد وزیر خان - تحریر نمبر 1355

مسجد وزیر خان لاہور میں دہلی دروازہ چوک رنگ محل اور موچی دروازے سے تقریباََ ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔یہ مسجد نقش ونگاری میں کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور تعمیر کے 500 سال بعد بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

پیر 3 جولائی 2017

رابعہ رفیق:
مسجد وزیر خان لاہور میں دہلی دروازہ چوک رنگ محل اور موچی دروازے سے تقریباََ ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔یہ مسجد نقش ونگاری میں کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور تعمیر کے 500 سال بعد بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہے۔علم الدین انصاری جونواب وزیر خان کے نام سے جانے جاتے تھے سلطنت مغلیہ کے عہد شاہجہانی میں لاہور کے گورنر تھے اور یہ مسجد انہی کے نام سے منسوب ہے۔
اس عظیم الشان مسجد کی معماری ہندی،مغلئی اور اسلامی ہے۔مسجد1634ء میں تعمیر ہوئی اور تعمیر مکمل ہونے میں تقریباََ سات سال کا عرصہ لگا۔مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع سرائے ہے جسے چوک وزیر خان کہا جاتا ہے۔اس چوک کے تین محرابی دروازے ہیں۔اوّل مشرقی جانب چٹا دروازہ ،دوم شمالی جانب راجہ دینا ناتھ کی حویلی سے منسلک دروازہ ،سوم شمالی زینے کا نزدیکی دروازہ ہے۔

(جاری ہے)

مسجد وزیر خان کے چاروں میناروں کی بلندی 100 فٹ اور مسجد کا کل رقبہ 44361 مربع ہے جبکہ صحن میں 2,3 حجرے ابھی بھی موجود ہیں۔مسجد کا داخلی دروازہ طرز تعمیر کا بے مثال نمونہ ہے۔پرانے لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں سے گزرنے کے بعد مسجد کے وسیع وعریض صحن میں قدم رکھتے ہی اطمینان محسوس ہوتا ہے جب آنکھوں کے سامنے پانچ خوبصورت گنبدوں پر مشتمل ایک عظیم الشان عمارت سر اٹھائے کھڑی نظر آتی ہے۔
مسجد وزیر خان میں ظاہری خوبصورتی ہی نہیں بلکہ تکنیکی خوبیاں بھی شاندار ہیں۔مسجدکا حسن اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی ٹائلوں اور ان پر کی جانے والے نقش ونگاری سے عبادت ہے ان پر عربی اور فارسی زبان میں کی جانے والی خطاطی بہت خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔یہاں مشرقی کے فن خطاطی کو یکجا کرکے سما باندھا گیا ہے ٹائلوں کی تراش اور خراش دیدہ زیب ڈیزائن کی بدولت دل یہ کہنے پر مجبور گیا ہے کہ یہ شاندار عمارت صرف ایک عمارت ہی نہیں بلکہ خوبصورتی کا عظیم شاہکار ہے۔

مسجد وزیر خان میں تہہ خانہ بھی ہے جس میں مشہور صوفی حضرت سید محمد اسحاق عرف میراں بادشاہ کا مزار ہے۔میراں بادشاہ 13 ویں صدی عیسویں میں ایران سے یہاں تشریف لائے تھے ماضی میں مسجد کے پچھلے حصے میں کچھ لوگوں نے ناجائز قبضہ کرکے دکانیں بنالی تھیں لیکن والڈ سٹی اتھارٹی کے تحت اب یہاں سے دکانیں ہٹا لی گئی ہیں اور مسجد کی بحالی کاکام کیا جارہا ہے جو کہ ملکی ثقافت کے لئے خوش آئند بات ہے۔
مسجد کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی چھوٹے چھوٹے کمرے ایک سائیڈ پر نظر آتے ہیں جہاں پہلے مدرسہ ہوتا تھا اور بچوں کو قرآنی تعلیم دی جاتی تھی اور دروازے سے آئے ہوئے بچوں کی رہائش کا انتظام بھی یہی پر تھا۔کچھ عرصہ پہلے غیر ملکی امداد سے مسجد کے مرکزی دروازے کے ساتھ ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے کرافٹ بازا بنایا گیا ہے۔منفرد اور خوبصورت فن تعمیر کے باعث یہ مسجد سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

مسجد وزیر خان کی بحالی کاکام شروع ہوا ہے لوگوں کا آنا جانا دوبارہ سے بحا ل ہوگیا ہے۔لوگ اس مسجد کی خوبصورتی اور اس کے منفرد فن تعمیر سے متاثر ہوکر اسے دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں
محمد جمشید کا مسجد وزیر خان کے متعلق یہ کہنا تھا کہ ماضی میں ولی اللہ خان یہاں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے ان کے دور میں مسجد کی حالت بہت بہتر تھی لیکن ان کے بعد مسجد پر توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث مسجد کے باہر فقیروں نے اپنی آماجگاہ بنالی لیکن اب یونیسکو ،آغا خان ٹرسٹ فار کلچر اور والڈ سٹی اتھارٹی کے تعاون سے مسجد کی بحالی کاکام ہورہا ہے۔
والڈسٹی میں اس مسجد کا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اس کی طرف ہمیشہ توجہ دے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے تاریخی ورثے کے متعلق آگاہی حاصل کرسکیں۔
مسجد وزیر خان لاہور کی قدیم عالی شان اور لاثانی عمارت ہے جس کی شہرت کا تذکرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔مئور خین نے اسے لاہور کا فخر واقتدار کہاہے۔امید ہے کہ حکومت مستقبل میں بھی اس کی طرف خصوصی توجہ دے گی تاکہ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہے۔

Browse More Urdu Literature Articles