Saqafati Virsay Ka Tahafuz - Article No. 1774

ثقافتی ورثے کا تحفظ - تحریر نمبر 1774

پاکستان کا ثقافتی ورثہ ماضی کے عظیم ادوار اور سلطنتوں کی تاریخ کا امین ہے۔عظیم الشان قلعے ‘محلات ‘یادگاریں اور ان کے فن تعمیر سے ہمیں اس وقت کے لوگوں کے ذوق اور اعلیٰ تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے ۔یہ قدیم ثقافت بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے سنہری دور کی عکاس ہے ۔

بدھ 26 ستمبر 2018

سمعیہ جاوید
پاکستان کا ثقافتی ورثہ ماضی کے عظیم ادوار اور سلطنتوں کی تاریخ کا امین ہے۔عظیم الشان قلعے ‘محلات ‘یادگاریں اور ان کے فن تعمیر سے ہمیں اس وقت کے لوگوں کے ذوق اور اعلیٰ تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے ۔یہ قدیم ثقافت بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے سنہری دور کی عکاس ہے ۔شہر لاہور صدیوں سے پاکستان کا علمی اور ثقافتی مرکز رہا ہے اور اس شہر کی تاریخی عمارتیں طویل مغلیہ دور کی نمائندہ ہیں ۔

لاہور ہی نہیں پاکستان بھر میں ایسے بہت سے ثقافتی مقامات موجود ہیں جو عظمت رفتہ کے امین ہیں ۔ان میں ایسے مقامات بھی ہیں جنہیں عالمی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا ثقافتی ورثہ تباہ حالی کا شکار ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ہماری غفلت ان تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کو خاک کا ڈھیر بنا رہی ہے ۔

(جاری ہے)

شاہی قلعہ جو ماضی کی ایک عظیم الشان سلطنت کی نمائندگی کرتا تھا آج وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو تا جارہا ہے ۔

قلعہ روہتاس دنیا کی تاریخ میں پتھروں سے بنے قلعوں میں صف اول پر ہے ۔یہ وہ قلعہ ہے جو ہمیں شیر شاہ سوری کی ہمت اور دلیری کی داستان سنا تا ہے ۔

آج وہ قلعہ اپنے دفاع کا منتظر ہے ۔1997ء میں اسے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کیا گیا اور اس کی بحالی کے لئے بہت سے تعمیر اتی کام شروع ہوئے مگر تا حال کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ۔

قلعہ دراوڑ جو صحرائے چولستان کا حسن اور بہاولپور کے سر کا تاج مانا جاتا ہے وہ فخرِ صحرا آج صحرا کی ریت میں دفن ہو تا جا رہا ہے ۔اس کی خستہ حالی دیکھ کر حکام کی غفلت پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔قلعے کی بلند وبالا دیواریں وقت کے ظلم وستم کے آگے آج بھی سینہ تانے کھڑی ہیں اور اپنے مکینوں کی پہچان کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں ۔کلر کہار میں موجود کٹاس راج کے مندر ہندوؤں کے لئے روحانی حیثیت رکھتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ سر زمین ثقافتی تنوع کا مرکز رہی ہے ۔
ہر سال اپریل میں ہزاروں ہندو یا تری اس مقام کا رخ کرتے ہیں اور اس میں موجود مقدس تالاب میں اشنان کرتے ہیں مگر اس علاقے میں سیمنٹ فیکٹریاں لگنے کے باعث مقامی پانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث یہ تالاب خشک سالی کا منظر پیش کررہا ہے جس سے ملکی زرمبادلہ کو تو خطرہ ہے ہی وہیں دوسرے جانب پاکستان کی تاریخی پہچان ماضی کے سائے میں دھندلارہی ہے ۔
پاکستان کے انہی قدیم ورثوں میں تخت باہی‘بدھا کے سٹوپا ‘منجو ڈ ارو اور ہڑپہ سمیت ‘چو کھنڈی کا قبرستان ٹھٹھہ میں مکلی کا قبرستان بھی شامل ہیں جو اپنے وجود کی جنگ لڑرہے ہیں ۔رانی کو ٹ جسے عظیم دیوار سندھ بھی کہا جاتا ہے اس قلعے کی عظمت کے بکھرتے شیراز ے اس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طرح اس خطے کی قدیم ثقافت اپنی پہچان کھورہی ہے ۔
مختلف محلات جن میں عمر حیات محل‘نور محل ‘مور محل‘گلزار محل‘شیش محل ‘مہٹہ محل‘فیضی محل ‘بیدی محل ‘ جیسے مقامات کو مقامی لٹیروں اور محکمہ آثار قدیم کی غفلت نے پر اسرار مقامات میں تبدیل کر دیا ہے ۔ان ورثوں کی خستہ خالی کی وجہ آخر کیا ہے ؟

عوام اور حکام کی غفلت ‘تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا نا ‘ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لئے موثر اقدامات نہ کرنا ‘ترقیاتی منصوبوں کی کمی ا س کے اسباب میں شامل ہیں ۔

اقوام متحدہ کی جانب سے بھی مدد فراہم کی گئی مگر اتنے بڑے پیمانے پر تحفظ کا عمل اور اس کے لئے اخراجات ایک طویل عمل ہے مگر ہم خود بھی اسکے تحفظ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔فرد اََ فرداََ اس عمل کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے اور وہ یوں ممکن ہے کہ جب ہم ان مقامات کی سیاحت کو نکلیں تو گندگی پھیلانے سے گریز کریں اور تاریخی عمارات کو نقصان نہ پہنچائیں اور اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنائیں ۔

Browse More Urdu Literature Articles