Tasweer K Har Rang Main - Article No. 1338

Tasweer K Har Rang Main

تصویر کے ہر رنگ میں… - تحریر نمبر 1338

تصویریں یوں تو خموش ہوتی ہیں، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ تصویر یں بہت کچھ بیاں کرتی ہیں، عیاں کرتی ہیں۔ بس دیکھنے والی ’ آنکھیں ‘ ہونی چاہییں۔ تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہوتا ہے۔ ہم نے زندگی میں کئی تصویروں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا ، لیکن کبھی ہمیں تصویر کا دوسرا رُخ نظر نہ آیا ۔ کہتے ہیں کہ اِس کے دیکھنے کے لیے بھی وہ نظر ہونی چاہیے۔

نادر خان سرگروہ ہفتہ 10 جون 2017

تصویریں یوں تو خموش ہوتی ہیں، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ تصویر یں بہت کچھ بیاں کرتی ہیں، عیاں کرتی ہیں۔ بس دیکھنے والی ’ آنکھیں ‘ ہونی چاہییں۔ تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہوتا ہے۔ ہم نے زندگی میں کئی تصویروں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا ، لیکن کبھی ہمیں تصویر کا دوسرا رُخ نظر نہ آیا ۔ کہتے ہیں کہ اِس کے دیکھنے کے لیے بھی وہ نظر ہونی چاہیے۔

یہ تصویریں بھی عجب تماشے دِکھاتی ہیں۔ کسی بھی اجتماعی تصویر کے دونوں سِروں پر جو لوگ کھڑے ہوتے ہیں وہ تصویر کے فریم میں قدرے اندر کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔ شاید اُنہیں فوٹو گرافر کی ’ نیت ‘ اور ’ مہارت ‘ پرشک ہوتا ہے کہ وہ کہیں اُن کا سَر قلم نہ کر دے یا کوئی بازُو نہ کاٹ دے، جب کہ فریم میں اِتنی گنجائش ہوتی ہے کہ دونوں سِروں پر کھڑے لوگ اگر لیٹ بھی جائیں تب بھی اِتنی جگہ ہوگی کہ فوٹو گرافر خود بھی آ کر’ انگڑائی ‘لے سکے۔

(جاری ہے)

اور جو لوگ تصویر میں بیچوں بیچ کھڑے ہوتے ہیں وہ پورے فریم کا احاطہ کرنے کی کوشش میں کچھ اِس طرح چوڑے ہو ہو کر کھڑے ہوتے ہیں کہ دونوں سِروں پر کھڑے لوگوں کولیٹنے کا موقع نہ مل سکے۔
گروپ فوٹو میں ہر کوئی اپنے آپ کو نمایاں سمجھتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سب چہرے دُھندلے ہیں اور وہی ایک اُجلا اُجلا ہے۔ ہمارے دوست پُرجوش پُوری نے ایک مرتبہ اپنے کالج کے زمانے کی ایک اجتماعی تصویر دِکھا کر پوچھا، ”بتاؤ نادِرخان! اِس میں...مَیں کہاں ہوں؟“
ہم نے تمام شکلوں پر انگلی رکھ کر پوچھا، ” یہ ؟ “ …”یہ ؟ “
اُنہوں نے کہا، ” نہیں، یہ بھی نہیں۔
“ ہم نے تصویر کو خوب آڑا ترچھا کر کے دیکھا ، یہاں تک کہ کوئی صورت نہیں بچی۔ ہم نے چِڑکر تصویر میں موجود ایک بے چارے کُتے پر اُنگلی رکھی اور ڈرتے ڈرتے آہستہ سے پوچھا، ”یہ…؟“
وہ چراغ پا ہو گئے ۔ ہم نے صفائی پیش کی کہ کُتے کی توہین ہمارا مقصد نہیں تھا ۔ پھر بھی اُنہوں نے خوب آڑی تِرچھی سنائیں اور وہ مُعماخود ہی حل کر دیا کہ ”مَیں اِس تصویر میں تصویر کھینچ رہا ہوں!“
کسی انعامی تقر یب کی تصویر دیکھ کر یہ پتا نہیں چلتا کہ تصویر میں کون انعام دے رہا ہے اور کون لے رہا ہے۔
دونوں ہی کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ ایسی صورت میں اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون انعام دے کر مسکرا رہا ہے اور کون لے کر۔
تصویرکَشی (Photography) اب ہر اَہم کام سے زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ ایک مرتبہ وزیر ِ صحت ، پولیو بچاؤ مُہم کا آغاز بچوں کوخود اَپنے ہاتھ سے دوا پِلا کر کر رہے تھے۔ ذرا سچویشن ملاحظہ ہو… بچے کو ایک نرس نے تھاما ہے۔
اُس کے ایک طرف وزیر اور دوسری طرف بچے کی ماں کھڑی ہے۔ نرس اور ماں کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہیں اور وزیر … مسکرانے والوں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ بچہ؛ وزیر کی طرف غصیلی آنکھ سے دیکھ کر رونے کی تیاری کر رہا ہے اور دَوا اُس کی ناک میں جا رہی ہے۔ بعد میں وزیر سے جب اُن کے سیکریٹری نے کہا، ” صاحب! دوا تو بچے کی ناک میں جا رہی تھی۔
وزیر نے پُر جوش لہجے میں جواب دیا، ”دَوا چاہے کان میں جائے، ہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔“
شادی کا جب قصد کیا جاتا ہے، تب تصویروں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ لڑکا قصداً اپنی جوانی کی تصویر بھیجتا ہے اور لڑکی والوں کو مجبوراً گوری رنگت والی تصویر بھیجنی پڑتی ہے۔ ہمارے دفتر کے چپراسی نے اپنی شادی کے لیے (خود کو پسند کروانے کے لیے ) جو تصویر بھیجی تھی اُس میں وہ اپنے باس (BOSS)کی کرسی پر بیٹھا تھا۔
آرام کرسی پر ٹیک لگائے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ” میں کام … وام نہیں کرتا۔“ لیکن اُس سے ایک بھول یہ ہو گئی کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے جھاڑن نہیں چھوڑی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ اُس کا رشتہ اُسی جھاڑن کی وجہ سے پکا ہو گیا۔ لڑکی والوں نے کہا، ”دیکھو! کتنی سادگی ہے اِس لڑکے میں، اپنے دفتر کی صفائی خود کرتا ہے!“
فوٹو گرافر اَپنی زندگی میں جو لفظ سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ ہے ’اِسمائل‘ (smile)۔
مسکراہٹ کے یہ طلب گار یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ مسکراہٹ کے بِنا ’ خطا کا پُتلا‘ محض ایک ’ پُتلا‘ نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ لوگ حد کر دیتے ہیں، موقع دیکھتے ہیں نہ محل ، شادی کی تقریب میں دُلہن کے ساتھ کھڑے دُولہے سے کہتے ہیں … ”مسکراؤ!“
پُرجوش پُوری نے اپنی شادی میں ایک فوٹوگرافر کے کیمرے کے ساتھ اُس کا ’منہ‘ بھی توڑا تھا۔
وجہ یہ تھی کہ فوٹو گرافر اُنہیں بار بار سہرے کے پیچھے مسکرانے کو کہہ رہا تھا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ پُوری #نے کسی کو منہ توڑ جواب دیا ہو۔
شادی کی تقریب میں سب سے اہم مہمان، کیمرا مین ہوتا ہے، سب کی توجہ کا مرکز، لیکن اُس کی توجہ کا کوئی ایک مرکز نہیں ہوتا۔ شادی میں تصویریں اِس لیے بنوائی جاتی ہیں کہ میزبانوں کو ہوش ہی نہیں رہتا کہ کون آیا، کون گیا؟ و ہ سب تو انتظامی اُمور میں مصروف ہونے کی اداکاری میں مصروف رہتے ہیں۔
شادی کے بعدسب کمر سیدھی کر آرام سے ریکارڈنگ دیکھتے ہیں کہ کون کون ’ نہیں ‘ آیا تھا اور کس نے کیا نہیں دیا۔ عورتیں یہ دیکھتی ہیں کہ کس نے کیا پہنا تھا اوراَپنے منہ پر کیسا میک اَپ تھوپا تھا۔ ہمیں تو تعجب ہوتا ہے کہ عورتیں میک اَپ کے باوجود ایک دوسرے کے چہرے کیسے پہچان لیتی ہیں!
پُر جوش پُوری کہتے ہیں، ” ایک زمانے میں مجھے تصویر اُتارنے کا بے حد شوق تھا۔
میں تصویریں اُتار… اُتار کر دیوار پر ٹانگتا تھا اور میرے ابو دیوار پر ٹنگی تصویریں اُتار … اُتار دیتے تھے۔“
ہم نے کہا، ”گویا دونوں کو ایک ہی شوق تھا۔دونوں ہی تصویریں اُتارتے تھے۔“
وہ منہ بسُور کر بولے،”جی ہاں! ہم دونوں ہی تصویریں اُتارنے پر اُتارُو تھے۔“
ایک روز پُوری صاحب نے ہمیں اپنے گھر مہمان کیا۔
ابھی ہم اُن کے کتب خانے میں طنزو مزاح کے گوشے میں رکھی ، رشید احمد صدیقی ، پطرس بخاری ، ابن ِ انشا ، مرزا فرحت اللہ بیگ ، عظیم بیگ چغتائی ، شفیق الرحمن ، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خان ، یوسف ناظم ، مجتبی حسین اور دیگر مِزاح نگاروں کی کتابوں پر نظر ڈال ہی رہے تھے کہ وہ ہمیں اپنی طرف متوجہ کر کے بولے ”اِن کتابوں سے دُور ہی رہو تو اَچھا ہے، تم اِس معاملے میں قابل ِ اعتماد نہیں۔
کتاب لے کر بیٹھ جاوٴ گے یا دَبا بیٹھو گے۔ یہ سب اِنٹرنیٹ پر دستیاب ہیں ، مکمل کتاب نہ سہی ، اِکا دُکا مضامین تو ہر ایک کے مل ہی جائیں گے۔ ’ بزم ِ اردو لائبریری ‘ پر بھی بہت کچھ ہے۔ آوٴ ! اِدھر دیکھو ! یہ ہمارے دادا جان ہُوا کرتے تھے۔ “ اُنہوں نے دیوار پر ٹنگے فریم میں، بندوق کے سہارے بمشکل کھڑے، لٹکی ہوئی مونچھوں والے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ” اُن کا نشانہ اِتنا پکا تھا کہ وہ اُڑتی چڑیا کو گِراکر اُس کے پَر گِنتے تھے۔
اِس تصویر میں اُن کے پیر تلے جو شیر نظر آ رہا ہے، جس کے ساتھ دادا جان کی تصویر گاؤں والوں نے زبردستی اُتروائی تھی۔ اُس غریب کو مارنے کا اُن کا ارادہ قطعی نہیں تھا۔ وہ تو فقط شیر کی ناک پر بیٹھی ظالم مکھی پر اَپنا نشانہ آزما رہے تھے۔“
ہم نے کہا، ” واہ ! کیا کمال کا نشانہ پایا تھا۔“
بولے، ”دوست ! نشانہ ہی نہیں ، بندوق بھی کمال کی پائی تھی، جس کی دھاک سے اچھی اچھی
’قابض ‘ فوجیں دَست بردار ہو جائیں۔

ہم نے بندوق کا بغور معائنہ کرتے ہوئے کہا، ” بڑی ’ قبضہ کُشا ‘ بندوق ہی۔‘ ‘
” اور نہیں تو کیا ! “ اُنہوں نے تائید کی،” تم جیسوں کو تواِس کادَستہ دیکھ کر ہی افاقہ ہو۔“
پتا نہیں سب سے پہلی تصویر کس نے کھینچی تھی اور کس کی کھینچی تھی۔ پہلے جب کیمرا نہیں تھا، تب سامنے بٹھا کر تصویربنوائی جاتی تھی۔ نواب ہو یا نواب زادی، اپنا سارا کام کاج (جو ہوتا نہیں تھا) چھوڑ کر مصورکے سامنے تصویر بنے بیٹھے رہتے تھے۔
اُن کی ناک پر بیٹھی مکھی بھی مصور ہی اُڑاتا تھا ۔ باقی وقتوں میں وہ خود مکھیاں اُڑایا کرتے تھے۔
غالب# کو بھی مصوری سیکھنے کا شوق چَرایا تھا۔ اسی لیے تو اُنہوں نے یہ شعر کہا:

سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

پتا نہیں، غالب نے مصوری سیکھ کر مصوری کی بھی یا نہیں۔ اور اگر کی بھی ہو تو ممکن ہے فارسی کے ہزاروں اَشعار کی طرح اُن کی مصوری کے فن پارے بھی زمانہ د ر زمانہ ، عصرِ جدید کی پرت تلے کہیں دب کر رہ گئے ہوں گے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
بیشتر اَدیب، شاعر اور صحافی اپنی ہر تازہ تحریر کے ساتھ اپنی باسی تصویر چسپاں کرتے ہیں۔ لوگوں کو تحریر کے ساتھ ساتھ تصویر بھی جھیلنی پڑتی ہے۔ مضمون کے ساتھ تصویر کے ہونے سے تبصرہ نگار کے لیے فرار کی راہ بآسانی کُھل جاتی ہے۔ وہ فقط تصویر کی تعریف کر کے صاف بچ نکلتا ہے۔
تصویر اُتروانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اِس بہانے بندے کو مسکرانے کا ایک بہانہ مل جاتا ہے۔
یوں بھی تصویر اَب ایک اہم دستاویز میں شمار ہونے لگی ہے۔ برتھ سرٹیفکیٹ سے لے کر ڈیتھ سر ٹیفکیٹ تک کا سفر تصویر کے بغیر طے کرنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مرنے کے بعد بھی انسان تصویروں میں مسکراتے ہوئے زندہ رہتا ہے۔
تصویروں کی نمائش بھی ہوتی ہے ، مقابلے ہوتے ہیں۔ مقابلے میں ایسی تصویر کو پہلا انعام ملتا ہے، جس میں بھُکمری کا شکا ر بچہ نظر آتا ہے۔
جس کا پیٹ اُس کی پِیٹھ سے لگا ہوتا ہے۔ ہاتھ میں ہرطرف سے پچکا ہوا خالی برتن اور کیمرے کی طرف خالی خالی تکتی اُس کی حلقوں میں دھنسی آنکھیں۔ ایسی تصویر کو دیکھنے والے بے ساختہ کہہ اُٹھتے ہیں، ” واہ ! مصور نے تصویر میں حقیقت کے رنگ بھر دِیے ہیں!“ ظاہر ہے، حقیقت میں تو اُس منظر میں کوئی رنگ نہ تھا۔ اِس پر مصور کو انعام و اِکرام سے نوازا جاتا ہے۔
تصویر میں نظر آنے والے ایسے بھوکے ننگے بچے نہ جانیکتنے آسودہ حال لوگوں کا پیٹ اور اُن کی جیبیں بھرتے رہتے ہیں۔ کاش! کوئی اُس حقیقت میں بھی رنگ بھر دے۔
وطن سے دُور … پردیس میں رہنے والے کا گزارہ تصویروں پر ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کو تصویر میں ’ ڈھلتے‘ دیکھتا ہے ۔ ہر بار تصویر میں نیا رُوپ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے،مگر تصویر میں پتھرائی اُن آنکھوں میں ’وہ‘ انتظار دیکھ نہیں پاتا۔
دوسری طرف بیوی … تصویر کے ایک رُخ پر ہی اپنے شب و روز گزار دیتی ہے۔ کتنے ہی سُہانے پَل اُس کے احساس کو چھُوئے بغیر گزر جاتے ہیں۔ اُس کے بچے تصویروں میں ہی بڑے ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں۔ باپ کی شفقت اُن تصویروں کے ہی حصے میں آتی ہے۔ اُس کی بیٹی تصویر میں دُلہن بن کر تصویر ہی میں رُخصت ہوتی ہے۔ اور باپ … آنسو کے چند قطرے تصویر پر بہا کر ، محرومی اور اُداسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
یوں تصو یروں کی کڑیاں جوڑتے جوڑتے اُس خاندان کے ہر فرد کی زندگی ایک با تصویر کہانی بن جاتی ہے۔
کچھ تصویریں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں تو کچھ مجبوری کی تصویر ہوتی ہیں۔ تصویر میں کئی رنگ ہوتے ہیں۔ ہر رنگ میں کئی تصویریں ہوتی ہیں۔ تصویریں بہت کچھ بیاں کرتی ہیں، عیاں کرتی ہیں، مگر دیکھنے والی آنکھیں ہونی چاہییں۔ تصویر کے کئی رُخ بھی ہوتے ہیں، پَر دیکھنے والی نظر ہونی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( نومبر، دو ہزار سات)

Browse More Urdu Literature Articles