Peer Syed Waris Shah - Article No. 1778

Peer Syed Waris Shah

پیر سید وارث شاہ - تحریر نمبر 1778

ان صوفیاء اکرام نے اپنے کلام کے ذریعے جینے کا ایسا سلیقہ سکھایاجو اسلام کا حقیقی طرز زندگی تھا۔ان میں ایک ادبی عالمی شخصیت جن کو پنجابی زبا ن کا شکسپیئر قصہ’’ ہیر رانجھا‘‘کے خالق پیر سید وارث شاہ بھی ہیں ۔

پیر 1 اکتوبر 2018

وقاص علی چوہان
برصغیر پاک وہند میں بسنے والی اقوام کے مشاہیر کو دنیابھر میںایک خاص مقام حاصل ہے ۔جنہوں نے ذہنی کمالات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خیالات کو موتیوں کی لڑی میں پرو کر مخلوق خدا کی رہنمائی کرتے ہو ئے ان کو سیدھا راستہ دکھایا ان صوفی درویش ،باوصف با عمل بزرگوں میں حضرت سلطان باہو ،حضرت بابا فرید شکر گنج ،شاہ عبدالطیف بھٹائی،میاں محمد بخش،رحمان بابا،شاہ حسین اور ان جیسے دیگر باکمال جنہوں نے مخلوق خدا کی رہنمائی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ہی کے عنایت کیے ہوئے علم سے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھا یا ۔

ان صوفیاء اکرام نے اپنے کلام کے ذریعے جینے کا ایسا سلیقہ سکھایاجو اسلام کا حقیقی طرز زندگی تھا۔ان میں ایک ادبی عالمی شخصیت جن کو پنجابی زبا ن کا شکسپیئر قصہ’’ ہیر رانجھا‘‘کے خالق پیر سید وارث شاہ بھی ہیں ۔

(جاری ہے)

عہدحاضر سے صرف 250سال کے فاصلے پر اگر ہم واپس پلٹ جائیں تو 1180ھ(1761ئ)کے دھند لکوں میں اس نامور راہنما کا تمتماتا چہرہ نظر آئے گا جسے ہم پیر سید وارث شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور صرف اتنا جانتے ہیں یہ مشہور عالم وارث شاہ نے دیس پنجاب کے لوگوں کے دل اپنی شاعری کے ذریعے موہ لیے کیونکہ وارث شاہ کو پنجابی زبان میں جو مقام مرتبہ حاصل ہے وہ کسی اور شاعر کو نہیں باوصف با عمل پنجابی شاعرپنجاب کے ایک دیہاتی قبیلہ سادات سے تعلق رکھتا تھا۔

جنڈ یا لہ شیر خانشیخوپورہ کی دھرتی اس لحاظ سے خاصی خوش نصیب ہے کہ اسے معروف صوفی شاعر حضرت پیرسید وارث شاہ جیسے عظیم شعراء و محقق نصیب ہوئے انکے لازوال و لاجواب کلام کو رہتی دنیا تک نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا بلکہ ان سے بھرپور رہنمائی بھی حاصل کی جاتی رہے گی جو یقینا باسیان شیخوپورہ کیلئے بڑے فخر و اعزاز کی بات ہے ، ان کا تخلیق کردہ اصنافِ سخن ایک طرف گراں قدر ادبی سرمایہ ہے تو دوسری طرف ماں بولی(پنجابی) کے فروغ و دوام اور حقیقی روح اجاگر کرنے کا بھی ذریعہ ہے،پیر سید وارث شاہ کی نسبت سے پنجابی زبان کو’’ ہیر‘‘ عظیم تخلیق ملی۔

وارث شاہ ضلع شیخوپورہ کے نواحی قصبہ جنڈیالہ شیر خاں میں1150ہجری میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام سید گل شیر شاہ اور ان کی خاندانی نسبت قبیلہ سادات سے تھی۔جنڈیالہ شیر خان شیخوپورہ سے شمال مغرب کی جانب تقریباََ9میل کے فاصلے پر واقع ہے۔جہاں ہر سال ان کا عرس10-8ساون کوعقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا تھا لیکن رمضا ن کے پیش نظر اب 23,24,25ستمبر کو منا یا جا رہا ہے۔

پیر سید وارث شاہ نے ابتدائی تعلیم جنڈیالہ شیر خان میں ہی اپنے والدسید گل شیر شاہ سے حاصل کرنے کے بعد قصور کا رُخ کیااور حافظ غلام مُرتضیٰ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔اسی لئے وارث شاہ نے فرمایاکہ

وارث شاہ وسنیک جنڈیالڑے داتے شاگرد مخدو م قصور دا اے

(وارث شاہ جنڈیالہ کا رہنے والا ہے اور قصور کے صوفی مخدوم کا شاگرد ہے)

ایک روایت ہے،کہ وارث شاہ اور سید بابا بلھے شاہ دونوں ایک ہی اُستاد کے شاگرد تھے،مگر خود بلھے شاہ نے اپنی کافیوں اور وارث شاہ نے ہیرمیں اس واقعہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا۔
ظاہری علوم میں دسترس حاصل کرنے کے بعد وارث شاہ قصور سے رخصت ہوئے اور بابا فرید گنج شکر کے مزار پر پہنچ گئے ،جہاں اُنہوں نے باطنی فیض حاصل کیااور تصوف کی منازل طے کرنے کے بعد ٹھٹھہ مجاہد میں چلے آئے ۔کچھ کمزور روایات کے مطابق یہاں بھاگ بھری نامی لڑکی سے وارث شاہ کو عشق ہو گیاجب اس عشق کا قصہ زبان زد عام ہوا تو وارث شاہ کو یہ گائوں چھوڑ کر ایک قریبی گائوں ملکہ ہانس جانا پڑا۔
وارث شاہ دنیاوی زندگی کے ہر رنگ سے با خبر تھے۔وارث شاہ نے ہیر کی دلکشی کو دنیا بھر کے سامنے رکھ کر پنجابی حسن کے لئے فخر کا جذبہ بیدار کیا۔بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سید بلھے شاہ 11ھ میں اچھی خاصی عمر پا کروصال کرگئے اور وارث شاہ نے ان کی وفات کے دس برس بعد’’ ہیر ‘‘لکھی اور یہ کام جوانی میں کیا گیا اس لئے پیر سید وارث شاہ بلھے شاہ سے 40یا 50سال عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔
وارث شاہ اپنے اشعار میں محمد شاہ کے عہد کا ذکر کیاکرتے تھے اور بلھے شاہ سکھوں کے گرو تیغ بہادر کا ۔وارث شاہ نے جہاں ہیر رانجھے کی پریم کہانی کو زندگی کے ہر شعبے میں مکالماتی انداز میں آگے بڑھایا وہاں اس حساس شاعر نے1766 ء میں سلگتے حالات کو بھی تحریر کیا، جب معاشی اور معاشرتی نا ہمواریاں معاشرے کا حصہ تھیں ،حرس و ہوس ،استحصال و اقتدار کی جنگ،آپا دھاپی اور بے راہ روی عام تھی۔
وارث شاہ صرف شاعر ہی نہیں ایک درد دل رکھنے والے انسان بھی تھے ،جبھی تو ان کی تحریر میں ظلم اور نا انصافیوں کے خلاف ہر جگہ ذکر ملتا ہے ۔

آپ کا کلام سراپا انتخاب ہے اگر ’’ہیر ‘‘ کو کہیں سے بھی پڑھنا شروع کر دیں تو انداز و بیان کی تازگی ایک نظر میں آپکو مسحور کر لے گی۔سید وارث شاہ عظیم شاعر ہیں جن کے کلام میں پنجابی زبان پوری آب و تاب ، وسعت ،لچک اور رعنائی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔
آپ کے ہاں الفاظ و تراکیب کا ایک لازوال ذخیرہ ہے۔جس میں عربی،فارسی،ترکی اور سنسکرت کے الفاظ موجود ہیں۔سید وارث شاہ نے ہیر کے علاوہ معراج نامہ، اشتر نامہ ،نصیحت نامہ،چوہیری نامہ،دوہڑے اور ماہیے بھی لکھے ہیں،مگر آپ نے پنجابی ادب کا وہ کارنامہ سر انجام دیا جس سے آپ نے ہمیشہ کے لیے ’’ہیر‘‘ کی کہانی کو ایک لافانی حقیقت بنا دیا،سید وارث شاہ ـ’’ہیر‘‘میں نا صرف اس دور کے سیاسی حالات و واقعات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اُنہوں نے اپنے دور کے معاشرتی و سماجی زندگی کی تصویر بھی کھینچی۔
وارث شاہ نے ٹھیٹھ پنجابی کے سیکڑوں الفاظ و محاورے ہمارے لیے محفوظ کر لیے ۔

عشق حقیقی کے بارے میں پیر سید وارث شاہ فرماتے ہیں کہ یہ وہ جذبہ ہے کو خالق اور مخلوق کو ایک کرتا ہے اسی سلسلہ میں پیر سید وارث شاہ اپنی تصنیف میں یوں اپنے حمدیہ کلام میں لکھتے ہیں

اول حمد خدائے دا ورد کیجئے کیتاعشق سوجگ دا مول میاں

پہلے آپ ہی رب نے عشق کیتا ،معشوق ہے نبی رسولؐ میاں

عشق پیر فقیر دا مرتبہ ہے مرد عشق دا بھلا رنجول میاں

کھلے تنھاندے باغ قلوب اندر جنھاں کیتا عشق قبول میاں

عشق کا راگ اور اسکی تشریح لوگوں کے ذہنوںاور دلوں میں انقلاب پیدا کردیتی ہے ۔
پیر سید وارث شاہ کا شمار بھی ایسی ہی انقلابی ،ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔وارث شاہ بچپن سے ہی بہت محنتی اور ذہین تھے ۔سن بلوغت کو پہنچے تو دنیا وی اور اخلا قی فیض حاصل کرنے کے لیئے قصو ر کا رخ کیا ۔وارث شاہ نے ’’ہیر ‘‘کے کردار میں عورتوں اور ’’رانجھا‘‘ کے کردار میں مردوں کے جذبات کی عکاسی کی ۔روح اور قلبوت کے اس ذکر کو وارث شاہ نے الفاظ کے زیورات سے آراستہ کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔


روح اور قلبوت کے اس عظیم شہ پارہ کو مکمل کرنے کے بعد آپ قصور اپنے استاد محترم کے پاس پہنچے تو استاد محترم نے تصنیف کا مطالعہ کیا تو بہت تعریف کی اور کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ـ’’وارث شا ہ تم نے واقعی ہی منجھ کی رسی میں موتی پرو دیئے‘‘

وارث شاہ محبوب نوں تدوں پایئے

جدوں اپنا آ پ گنوایئے

آپ کا کلام معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتا ہے ،جس میں ماضی ،حال اور مستقبل کی تصویرکھینچی گئی ہے۔
عہد وارث میں ہندوستان میں ہر طرف افراتفری کی فضاء قائم تھی اور اس وقت پنجاب کی حالت بھی نا گفتہ بہ تھی۔مغلوں کی سلطنت مسلسل عدم تحفظ کا شکار تھی پنجاب میں سکھوں کی لوٹ مار کی وجہ سے حالات خراب ہوئے تو بھی وارث شاہ کا قلم خاموش نہیں رہا۔1762ء میں سکھوں کو پٹھانوں کے ہاتھوں لدھیانہ میں شکست ہوئی اور تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا ۔
1763ء میں سر ہند کے مقام پر سکھوں نے پٹھانوں سے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا اور خون خرابے کی ایک نئی تاریخ لکھی ۔

وارث شاہ پنجابی زبان کے سچے موتی اور وارث ہیں ،آپ کی تصنیف پنجابی ادب کا ایک ،اجلا انوکھا اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا بلند شاہکار ہے۔جس میں افسانہ اور شاعری ہی نہیں بلکہ ڈرامہ بھی ہے ۔وارث شاہ کی تصنیف تقریباًاڑھائی صدیاں قبل کے معاشرہ کے احساس و جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔
وارث شاہ نے اپنی تصانیف میں لوگوں کو پیار،مساوات اور بھائی چارے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ انسان کو اس کے حقیقی مقصد کی تکمیل اور اس کی منزل تک پہنچنے کا راستہ بھی دکھایا ۔

وارث شا ہ روشن ہووئے نام تیرا

کرم ہوئے جے رب شکور دا ے

وارث شاہ کی آخری آرام گاہ جنڈیالہ شیر خان میں ہے آپ کی شاعری پنجابی ادب کا عظیم شاہکار ہے ، جبکہ اس عظیم صوفی شاعر سید وارث شاہ کو دنیائے فانی سے وصال کے بعد جنڈیالہ شیر خان ہی میں دفن کیا گیا جہاں آج ایک وسیع و عریض رقبے پر انکا مزار وجود پذیر ہے اور روزانہ زائرین کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے اور ہر سال 8، 9 اور 10 ساون کو اس مزار پر تقریبات عرس کا اہتمام کیا جاتا ہے .۔
لہذا اب تقریبات عرس گذشتہ سال کی طرح 23ستمبر سے 25ستمبر تک ہورہی ہیں جن میں سید وارث شاہ کمپلیکس کی انتظامیہ کو ضلع بھر کے سکیورٹی و انتظامی اداروں کی مکمل حما یت حا صل ہے جبکہ 23ستمبرکوتقریبات عرس کا آغاز دربار شریف کو غسل دینے سے ہواجس میں ڈی سی او ،ڈی پی او ،ارکا ن ممبر زصوبائی و قومی اسمبلی سمیت دیگر انتظامی افسران اور عوامی ، سماجی و سیاسی شخصیات نے شرکت کی،صبح قرآن خوانی، رات پنجابی مشاعرہ ، شام چادر پوشی ، رات مقابلہ ہیر خوانی،کبڈی میچ، رات صوفیانہ کلام کی محفل جس میں ملک بھر سے آئے فنکار جوہر ہیر خوانی پیش کررہے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles