Amelda Kay Des MaiN Part 10 ... Los Banos Kay Musafir Nawaz - Article No. 1570

Amelda Kay Des MaiN Part 10 ... Los Banos Kay Musafir Nawaz

امیلیڈا کے دیس میں قسط 10 ۔۔۔ لزبانئس کے مسافر نواز - تحریر نمبر 1570

سائنس میں بس یہی اک خرابی ہے کہ اس کی توجہ اپنے بچے جننے کی رفتار پر کم اور دیگر کی ضروریات کا خیال رکھنے پر زیادہ رہتی ہے

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ جمعرات 2 نومبر 2017

نیند آئی تو آنکھ تب کھلی جب گجر بجا۔ یہ گجر رات کے پہلے پہر کا تھا نہ گوری کی آنکھ کھلنے کی گواہی کا بلکہ یہ گجر بُلاوا تھا 'مُنڈیو تے کُڑیو ویلا ہو گیا اپنے اپنے مگر ایک ہی حمام میں اپنی اپنی قید سے آزاد ہونے کا' سو حسب ہمت اور حسب توفیق وہاں میلہ سجتا رہا اور میلہ اُجڑتا رہا۔ آج ناشتے کی میز پر سنسانی کا بسیرا تھا۔ روانگی کا مقررہ وقت تیزی سے گزر رہا تھا مگر ابھی ورلے ورلے ساتھی آئے تھے، شاید نصف سے بھی کم اور وہ بھی مرجھائے چہروں پر مجبوری کی مسکراہٹ اوڑھے۔

اس کی ہمیں اتنی پریشانی اس لئے نہ تھی کہ ہو سکتا ہے کسی نے پہلے ہی سے کینڈل لائٹ ڈنر کا پروگرام طے کر رکھا ہو، رزال پارک کا قصد کر رکھا ہو یا جان جاناں کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارنے کا ارادہ کر رکھا ہو۔

(جاری ہے)

اور ان نیک مقاصد کے لئے وقت تو چاہئے ہوتا ہے ظاہری اور باطنی تطہیر، تعمیر و مرمت اور ارتکاز کے لئے، سو جب ویک اینڈ لوورز کے آنے کی امید دم توڑ گئی تو میرے اُتاولے پن سے اکتا کر پریٹی کو سبز جھنڈی ہلا دینی پڑی۔

منیلا کے دھبڑ دھُوس رش سے نکلنے میں زیادہ وقت شاید اس لئے نہ لگا کہ ابھی معتقدان مارکوس سان مگل کے مابعد اثرات سے باہر نہ آئے تھے اور جو آ چکے تھے وہ ابھی کسی ایلوس پریسلے یا سیلین ڈیان کی آواز میں دھمی آلی بانگ سن رہے تھے۔ بس ریمپ پر چڑھ کے موڑ مڑی تو لگا ہم جنگلہ بس کے مسافر ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف دس فٹ کے قریب اونچا جنگلہ اس طرح سر بلند تھا کہ ہوا کو بھی گزرنے کے لئے رستہ نہیں مل رہا تھا۔
کوئی مانے نہ مانے مگر ہم نے تو بتایا نہیں، معلوم نہیں خادم اعلیٰ نے آئیڈیا کہاں سے لے لیا۔ ممکن ہے ہماری طرح وہ بھی امیلیڈا کی پمپیوں کے عاشق رہے ہوں اور اسی عاشقی کی لاج رکھنے کے لئے انہوں نے بھی اپنے قُرب و جوار جنگلہ بنانے کی ٹھان لی ہو۔ سو باتوں کی بات یہ ہے کہ جب دونوں کی ذات قبیلہ ایک تو ہم کون بیچ میں کڑچھ ہلانے والے؟ منیلا سے لزبانئس تک ساٹھ پینسٹھ کلومیٹر کا سفر اس دو رویہ جنگلہ روڈ پر اتنی دیر میں کٹ گیا جتنی دیر میں پلک سے پلک بغل گیر ہوتی ہے۔
آٹوبان پر یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا اور نظر سڑک کے کمال سے نہ ہٹتی تھی لیکن کان اور دھیان کہیں اور تھے۔ ملٹی ٹاسکنگ کے ان دنوں میں ہی یہ ممکن تھا کہ پانچوں حسیں ایک دوسرے سے الگ اپنے اپنے دھندے پر لگی ہوں اور چھٹی حس خطروں سے کھیلنے کو تیار ہو۔ کان اور دھیان مہ وشاؤں کی طرف تھے جو آج تعداد میں کم مگر امنگ سے لبالب بھری تھیں۔ زنانہ کمپارٹمنٹ سے جانے کس نے سرگوشیوں میں لطیفہ ہائے شب وصال کا آغاز کیا اور جانے کس طرح فیلکس کے پتلے کانوں تک اس کا احوال پہنچا کہ اس نے اپنے کھلے ڈلے انداز میں صنفی امتیاز کو بس سے باہر پھینک کر سب کو شریک محفل کر لیا۔
وہ نام لے کر پکارتا 'وے ہُن تیری واری، نی ہُن تیری واری'۔ جو تھوڑا بہت جھاکا تھا وہ بھی کھُل گیا تو چل سو چل۔ پنجابی اور نا گفتنی لطیفے کو انگریزی میں ڈھالنا اور پھر ہاسہ نکلوانا کتنا اوکھا ہے اس کا اندازہ ملک کو پڑنے والی پکار کے بعد ہو گیا تھا سو میں سیدھا سیمی انگریزی پر چلا گیا اور Mummy good morning till morning والا لطیفہ سنا کر نہ صرف ڈنگ ٹپا لیا بلکہ اس وقت تو پاکستانیوں کی دھاک بٹھا دی لیکن افسوس کہ دھاک نے لزبانئس تک ہی ساتھ دیا۔
بعد میں کسی نے پوچھا تک نہیں ورنہ 'پاکستانی تو میں بھی تھا، پاکستانی تو ملک بھی تھا'۔ لزبانئس ایک چھوٹا سا شہر تھا، چالیس پچاس ہزار کی آبادی کا۔ کام سے تو ہمیں بھی کچھ واقفیت حاصل تھی مگر اس کے نام سے نہیں کہ ہم اسے لاس بینوس ہی بولتے آئے تھے مگر جب پریٹی نے لکھنے اور پڑھنے والے نام سے آگاہی دی تو اپنی لاعلمی پر ندامت سی ہونے لگی۔
اور جب نام کا مطلب بتایا تو ندامت اشتیاق میں بدل گئی۔ ہسپانوی نام کا سلیس ترجمہ تھا 'مقام غسل'۔ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ غسل فرض والا تھا یا اختیاری البتہ سب پردیسی سمجھنے لگے کہ شاید یہاں بھی اجتماعی غسل عام شام ہوں۔ لزبانئس اپنے نام سے تو نہیں البتہ کام سے ہمارے دیہات کے ہر پھجے، گامے اور دُلے کی زبان پر مچلتا رہتا تھا۔ مشرف بہ پاکستان ہو کر حبس میں رچی اس کی مہک پیلی پیلی میں ارری پاک کی صورت مشام جاں کو معطر رکھتی اور کھچڑی پُلاؤ کی شکل میں پیٹ کی تسکین کا باعث بنتی تھی۔
لزبانئس کی شہرت اسی ارری (International Rice Research Institute) کے سبب پورے گلوب کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اری چاول، میکسیکن گندم، ٹیڈی بکری اور برائلر مرغ نہ ہوتے تو انسان شاید ایک دوسرے سے پیٹ کے جہنم میں آگ دہکا رہے ہوتے۔ لزبانئس اپنے ماضی کے حوالے سے لگ بھگ اپنے لائلپور جیسا لگا اور تقریباً ایک ہی وقت میں زریتی کالج کی وجہ سے جان پہچان کے نقشے پر ابھرا۔
لائلپور نے بعد میں اپنے مزاج میں تانے بانے کو داخل کر لیا اور اربن سلم بن گیا جبکہ لزبانئس نے سائنس کو اپنی پہچان بنا کر آج بھی صرف علم اور عمل کا پرچم بلند کر رکھا ہے۔ آج یہ شہر فلپائن میں سائنس، زراعت اور جنگلات کی تعلیم کے مرکز کی شہرت رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس کی آبادی سوا لاکھ سے کم ہے اور فیصل آباد کی نظر لاکھوں سے آگے کروڑ کے ہندسے پر لگی ہے۔
سائنس میں بس یہی اک خرابی ہے کہ اس کی توجہ اپنے بچے جننے کی رفتار پر کم اور دیگر کی ضروریات کا خیال رکھنے پر زیادہ رہتی ہے۔ یہاں کے زریتی کالج نے بعد میں اپنے اندر فاریسٹری کالج کو سمیٹا مگر پھیلاؤ کو محدود رکھا اور صرف متعلقہ مخصوص شعبوں سے ہی میل جول بڑھایا۔ مکمل یونیورسٹی بننے کی بجائے خود کو یونیورسٹی آف فلپائن کا ایک کیمپس بننے پر اکتفا کر لیا۔
یونیورسٹی پہنچے تو ہمارے استقبال کے لئے نسوانی مسکراہٹوں کی تو کوئی کمی نہ تھی البتہ روایتی جوش میں مجبوری کا دخل ضرور محسوس ہوتا تھا۔ مسکراہٹ کے تلے دبی اس کیفیت میں اپنائیت اس لئے بھی محسوس ہوتی تھی کہ خود ہم کو بھی جب اکلوتی چھٹی والے دن کسی غیر ملکی وفد کی میزبانی کرنا پڑ جاتی تھی تو بن مرے موت پڑ جاتی تھی حالانکہ وہ ہمارا الانی منجی ڈے ہوتا تھا گرمیوں میں نیم کی چھاؤں میں اور سردیوں میں دھوپ کے سائے میں۔
ان کا تو یہ تر بلکہ تر بتر ڈے ہوتا ہے، موج میلے کا دن، تعلقات کی تجدید یا استواری کا دن اور تعلقات سے رس کشید کرنے کا دن۔ ان کے لئے تو یہ دن وہ دن ہوتا ہے دن گنے جاتے ہیں جس دن کے لئے۔ ان مجبور حسیناؤں کے لئے ہمدردی اپنی جگہ لیکن ان کے ویک اینڈ کے لئے اپنا سفر کھوٹا کرنا ہمیں بھی منظور نہ تھا سو انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے بارے میں اتنا بتایا نہیں جتنا ہم نے کریدا۔
جاننا یہ مقصود تھا کہ کیا ان میں سے کوئی اس کشمیری مُنڈے کے بارے میں جانتی ہے جو یہاں سے ایسا گیا کہ اسے پھر کوئی اور مقام جچا ہی نہیں۔ بات کوئی اتنی پرانی بھی نہ تھی۔ ابھی ایک عشرہ بھی نہ ہوا تھا اسے پھینی حسیناؤں کے اس شہر سے گئے ہوئے لیکن کوئی کیسے مان جاتی کہ وہ کُہنہ سال بھی ہے، اور یوں نسوانی شناخت پر دھبہ لگ جاتا۔ ہم سوالوں کے تیر آزماتے رہے وہ جوابوں کے ہُنر آزما کر اپنی اپنی عُمر بچاتی رہیں۔
نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا مگر اتنا تو ہوا کہ ان کے مزاج میں بشاشت آئی اور ہمارے حصے میں کیممپس بارے آگاہی۔ یہ بشاشت مگر ہمارے کام یوں نہ آئی کہ ابھی پاک بھارت مذاق رات کی طرز پر معاملات چل ہی رہے تھے کہ ملحقہ کمرے میں دی گئی دعوت اتنے دنوں میں واحد دعوت نکلی جو تر تو تھی مگر پیٹ بھر نہ تھی۔ یوں یونیورسٹی والوں نے ویک اینڈ کی بربادی کا انتقام ہم سے لے لیا۔
اس کا اندازہ ہوتا تو ہم کب اپنے لفظ اور وقت یوں ضائع کرتے۔ یہاں سے نکلے تو ارری جا پہنچے جہاں کے سواگت میں چاولوں کی مہک تو تھی لیکن باقی سب کچھ تحقیقی پیش رفت پر مبنی خشک تفصیلات تھیں وہ بھی مُعنک زرعی ماہرین کی زبانی۔ کھانے کی میز پر چاول کی ڈِش سے عقیدت کے باوجود کھیتوں میں مُنجی کے ساتھ کیا گزرتی ہے سے ہماری دلچسپی ذرا واجبی سی تھی۔
سو ان کی باتیں سنیں مگر بے دلی سے۔ انہیں بھی اندازہ ہو گیا کہ ہم چاول کھانے والے مجنُوں ہیں، اُگانے میں دلچسپی رکھنے والے نہیں جس کا انہوں نے موقع پر ہی حساب چُکتا کر لیا اور سادہ چائے پر ٹرخا دیا۔ دُور پار سے آئے مادام اوّل کے مہمانوں کے ساتھ اس سلوک کے بعد فیلکس، میں اور ملک ارری کے مین بورڈ کے ساتھ ٹہنی پہ کسی شجر کی بھوکے بُلبُلوں کی طرح تصویر بنوا رہے تھے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ میری شلوار قمیض اور چہرے پر لکھی بھوک دیکھ کر ایک خضر ارری کے دفتر سے برآمد ہوا، مسکرایا اور رک کر حال احوال پوچھا۔
ارری کی جُز رسی کا بھیدی ہونے کی بنا پر دوپہر کے کھانے کی دعوت دے ڈالی جو ہم نے کمال مہربانی سے فوراً قبول کر لی۔ ڈاکٹر منظور زرعی یونیورسٹی میں مجھ سے چند سال سینئر رہے ہوں گے، شاید ڈاکٹر طاہر حسین کے کلاس فیلو۔ اس حوالے سے وہ ان کے روم میٹ منور قریشی سے بھی جان پہچان تو رکھتے تھے مگر اس سے بے خبر تھے کہ وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles