Amelda Kay Des MaiN Part 5 - Article No. 1467

امیلیڈا کے دیس میں قسط 5 - تحریر نمبر 1467

عقیدے اپنے اپنے مگر عقیدت کے مراکز دیکھ کر ہر جگہ یہی احساس ہوتا ہے کہ چہروں کے سارے رنگ دیواروں کے سجانے میں خرچ ہو جاتے ہیں

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ بدھ 30 اگست 2017

باگیو سٹی پہلی نظر میں اپنے مری سا لگا مگر جلد ہی اپنے سا لگنے لگ گیا۔ اپنے سا لگنے میں تو زیادہ ہاتھ ناک کا تھا یا قامت کا مگر جب اس کے بھید کھلے تو کچھ اور طرح کا بھی لگا۔ پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پائن کے درختوں میں گھرا لوزان جزیرہ کا یہ خوبصورت شہر امریکی جبلت ’جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے کا مظہر ہے۔ امریکیوں نے اپنی ’فوری ضروریات‘ کے تحت ایک سو سترہ برس قبل اسے ایشیا میں اپنا پہلا ہل سٹیشن ہونے کا اعزاز بخشا۔

وہ جب کچھ بخشتے ہیں تو بدلے میں لیتے بھی بہت کچھ ہیں۔ لینے دینے کے معاملے کا نظارہ ہم کچھ ہی دن پہلے پتّیا کے ساحلوں پر کرکے آ رہے تھے جہاں امریکی سیلرز بل سے نکلے بھوکے چوہوں کی طرح خوراک پر یوں منہ مار رہے تھے جیسے، جانے پھر وقت ملے یا نہ ملے۔

(جاری ہے)

باگیو کے آس پاس بسے اگوروٹ قبیلے سے امریکیوں نے لیا کیا اور کتنا یہ تو مقامی آبادی ہی جانتی ہو گی، ہمیں تو کچھ اونچے لمبے جُثوں میں ان کی صرف جھلک ہی نظر آئی۔

شاید لہو کی یہ تاثیر ہی اس وقت بھی بولی ہو گی جب امریکہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ نیندر میں جُفت عدد اچھا نہیں لگتا، پچاس میں ایک اور شامل کرکے ریاستوں کی تعداد اکیاون کر لے۔ لیندے بھُلن نہ دیندے تے نہ ہی آوے لاج۔ باگیو سٹی اپنے محلِ وقوع، موسم اور اردگرد کے حسین نظاروں کی بنا پر فلپائن کے سمر کیپیٹل کی شہرت رکھتا ہے۔ ہم ایسے سرکاری مہمانوں کے علاوہ ہنی مُونرز اور اوپر والی کمائی والے سارے طبقوں کی میزبانی کرتا ہے اس لئے ہر قسم کی خدمات اور لوازمات کے ساتھ آنے والوں کو گلے لگاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی صلیب کو سر بلند بھی رکھے ہوئے ہے۔
اس سر بلندی کا صحیح اندازہ شہر کے مرکز میں واقع باگیو کیتھیڈرل کی سو سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ یہ شہر جہاں ریزارٹس کے لئے شہرت رکھتا ہے وہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لئے بھی مشہور ہے۔ سینٹ لوئی یونیورسٹی، جہاں ہمارا قیام تھا، کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی، یونیورسٹی آف فلپائن باگیو کیمپس اور فلپائن ملٹری اکیڈیمی بھی علمی و حربی تشنگی بجھانے کے لئے موجود ہیں۔
انہی کے دم سے سارا سال اس شہر کا کاروبارِ حیات چلتا رہتا ہے ورنہ تو فصلی بٹیرے مخصوص موسم اور محدود دورانیے کے لئے آتے ہیں اور لُوٹ یا لُٹا کر چلے جاتے ہیں۔ ارلی ڈنر کے دوران ہمیں سیشن روڈ کی فضیلت کے بارے میں بتایا گیا کہ جس نے سیشن روڈ کی ایوننگ پریڈ نہیں دیکھی وہ گویا وہاں آیا ہی نہیں۔ سامان کمرے میں پھینک کر اور دل ہتھیلی پر رکھ کر شام کے سیاہ ہوتے ہی ہم بھی سیشن روڈ پر آ نکلے۔
وہاں آ کر اندازہ ہوا کہ مری کی مال روڈ کی طرح باگیو سٹی آنے والا ہر یاتری کیوں اس کوئے ملامت پر آئے بغیر اپنی یاترا کو سپھل نہیں سمجھتا۔ اپنے کھُلے ڈُلے ماحول کے باعث چلتے پھرتے مناظر مری سے بھی کچھ بڑھ کے تھے، رنگ بھی، خوشبوئیں بھی، مہکار بھی، چہکار بھی، شکاری بھی، شکار بھی۔ الغرض کیا کچھ نہیں تھا باگیو تری گلی میں۔ ہوسٹل سے تو نکلے تھے قافلے کی شکل میں لیکن جوں جوں سفر آگے بڑھتا رہا ہم سفر گھٹتے گئے۔
کسی کو کوئی لے اڑا اور کوئی کسی کو لے اُڑا۔ لک ملاٹھی البتہ آخر تک ہمارے ساتھ چمٹی رہی کہ نہ تو خود اُڑنے کے قابل تھی نہ اُڑانے کے، سو جس قابل وہ تھی وہی کیا اور دل کھول کر کیا۔ وہ شام اگر زندگی تھی تو بے ثمر اس نے کیا۔ ہم نہ تو کھُل کے آنکھیں سینک سکے نہ ہتھیلی پر رکھے دل کا نذرانہ کسی کو دے سکے، بس پاؤں پر سڑک کے چکر چڑھاتے رہے۔ رات گئے واپس پہنچے تو تھکن پنڈے سے یوں لپٹی تھی جیسے کہہ رہی ہو کھایا پیا تو کچھ نہیں لیکن گلاس بھی نہیں توڑا۔
باقی ہم سفر صبح تک وقفے وقفے سے اس عالم میں آتے رہے، کہ 'تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ'۔ یہ اور بات کہ ہم یہ کہنے کے قابل بھی نہ ہو سکے 'رات گئی بات گئی'۔ ابھی صبح کے سات بھی نہیں بجے تھے کہ یوں لگا جیسے صورِ اسرافیل پھونکا جا رہا ہو۔ ہڑبڑاہٹ سے اٹھے تو مائک سسٹم پر تواتر سے اعلان ہو رہا تھا 'Get ready please. Must leave at 8.' مرتے کیا نہ کرتے تھکن کے اوپر ہی نئی مسافت اوڑھ لی۔
آغاز باگیو کیتھیڈرل کی سو سیڑھیاں چڑھ کر وِرجن میری کے حضور حاضری سے ہوا۔ اندر جا کر اپنا ہی ایک مصرعہ ذہن میں گونجنے لگا 'دیواروں پہ رنگ آئے ہیں چہروں سے اتر کر'۔ عقیدے اپنے اپنے مگر عقیدت کے مراکز دیکھ کر ہر جگہ یہی احساس ہوتا ہے کہ چہروں کے سارے رنگ دیواروں کے سجانے میں خرچ ہو جاتے ہیں اور انہیں دیکھ کر نُچڑے چہروں پر پل بھر کے لئے ندامت میں لپٹی رونق سی آ جاتی ہے۔
ساعت بھر کی یہ رونق خریدنے کے لئے وہاں بھی ہڈیوں پر مَڑھی چمڑی والے پیلے چہرے مُٹھی میں مُڑے تُڑے رِزال کی تصویر والے نوٹ وہاں بیٹھی ایک اور مُٹھی میں منتقل کر رہے تھے۔ اسی ایک پل میں وقت پیچھے یا آگے گھوما اور مجھے بھیرہ کے آستانہٴ عالیہ لے گیا۔ پیر کرم شاہ مرحوم میرے مرحوم والد کے ہم جماعت تھے اور اس ناتے شفقت کا مظاہرہ کرتے تھے۔
ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو میں اور ملک حمید فاتحہ خوانی کے لئے گئے۔ پیر صاحب نے ہمیں صوفوں پر بٹھایا اور کمال محبت کا مظاہرہ کیا۔ میرا بیلدار یوسف پیر صاحب کا مرید تھا۔ ہمارے ہوتے ہوئے وہ بھی آ گیا۔ قدموں میں بیٹھ کر تعزیت کرنے کے بعد اٹھا، اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، جو مٹھی بن کر نکلا اور وہ مٹھی پیر صاحب کی مٹھی بن کر ان کی جیب میں منتقل ہو گئی۔
سچ ہے ہر جگہ ایک ہی اصول رائج ہے 'آئے ہو تو کیا لے کر، جا رہے ہو تو کیا دے کر'۔ اگلا پڑاؤ شہر کے وسط میں پارک برنہیم تھا۔ تیس پینتیس ہیکٹرز کے اس پارک کے وسط میں جھیل ہے جس پر ہر وقت قوسِ قزح سایہ فگن رہتی ہے۔ کشتیوں کی گنجائش دیکھ کر لگتا تھا جیسے خصوصی طور پر لو برڈز کے لئے بنائی گئی ہوں۔ ملک اعجاز اور میں کشتی میں بیٹھے ہی تھے کہ لک ملاٹھی بھی پھُدک کر اندر آ گئی۔
لک ملاٹھی سری لنکن تھی اور سر تا پاؤں محرومیوں کی سزاوار۔ ملائیشین فیلکس کی شوخئ طبع کا نشانہ بنتی تو ہم از راہِ مروت اس پر شفقت کا سایہ کر دیتے۔ اس کے کشتی میں بیٹھنے کے بعد احساس ہوا مُروت اچھی چیز ہے مگر کبھی کبھی گلے بھی پڑ جاتی ہے۔ ہم دونوں چپو چلاتے ہوئے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کے بارے میں سوچنے لگے کہ یہ سزا ہے تو کس خطا کی اور انعام ہے تو اس کے لئے ہمیں ہی کیوں چنا گیا ہے۔
جھیل میں چلتی کشتی سے قوسِ قزح کو اپنے ساتھ تصویریں بنانے کا اعزاز بخشنے کی کوشش سے زیادہ مشکل کام لک ملاٹھی سے خود کو محفوظ رکھنا تھا۔ گویا معاملہ عزتِ نفس کا آن پڑا تھا، کسی کو بتاتے تو کیا، دکھاتے تو کیا۔ کشتی میں گزرا مقررہ دورانیہ مشکل ضرور تھا لیکن اِدھر اُدھر دیکھ کر اور قوسِ قزح سے اٹھکیلیاں کرتے گزر گیا۔ پارک کے بینچوں پر لنچ کرنے، سبز گھاس پر قیلولہ کرنے اور گھنے جنگل میں سرسراتی ہوا کی سرگوشیاں سننے کے بعد لوٹے تو شام ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔
ہم نے طے کر لیا کہ کچھ بھی ہو کم از کم آج کی شام مروت کو کسی بھی طور قریب پھٹکنے نہیں دینا۔ ملک نے لک ملاٹھی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا مشکل کام میرے ذمے لگا دیا۔ میں نے پہلے تو لک ملاٹھی کو اقبال کا شعر سنایا اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے، اسے پاسبانِ عقل ہونا باور کرایا اور پھر کم از کم اس شام تنہا چھوڑ دینے کی اہمیت پر حسبِ توفیق لیکچر دیا۔
لیکچر اس کے حلق سے مشکل سے اترا مگر اتر گیا۔ وہ شام ہم نے سیشن روڈ پر اٹھکیلیاں کرتے ایسے ہی گزاری جیسے مری کی ایک شام اپنے دیرینہ دوست اشرف ضیا کے ساتھ گزاری تھی کہ درمیان سے ٹوٹے چشمے کا ایک حصہ اس کی دائیں آنکھ ہر اور بایاں میری بائیں آنکھ پر تھا۔ رات گئے لوٹے تو نس نس میں بسی راحت آمیز تھکن سیدھی چارپائی پر لے گئی۔

Browse More Urdu Literature Articles