Amelda Kay Des MaiN Part 7 ... University Of No Life MeiN - Article No. 1487

Amelda Kay Des MaiN Part 7 ... University Of No Life MeiN

امیلیڈا کے دیس میں قسط 7 ۔۔۔ یونیورسٹی آف نو لائف میں - تحریر نمبر 1487

شہر کے مرکز میں سبزے میں گھری دو تین منزلہ وسیع و عریض روشن عمارت جس میں آگے بڑھتے ہر قدم کے ساتھ بڑھتی ویرانی دیکھ کر یہ احساس ہونے لگا کہ اس کا نام کچھ ادھورا سا ہے، مکمل نام یونیورسٹی آف نو لائف ہونا چاہئے تھا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ پیر 11 ستمبر 2017

شام ڈھلے یونیورسٹی آف لائف میں داخل ہونے لگے تو حیرت کدے کا سا احساس ہوا۔ شہر کے مرکز میں سبزے میں گھری دو تین منزلہ وسیع و عریض روشن عمارت جس میں آگے بڑھتے ہر قدم کے ساتھ بڑھتی ویرانی دیکھ کر یہ احساس ہونے لگا کہ اس کا نام کچھ ادھورا سا ہے، مکمل نام یونیورسٹی آف نو لائف ہونا چاہئے تھا۔ پریٹی سے تذکرہ کیا تو بولی 'حال کی گھڑی میں تو بات تمہاری صحیح ہے لیکن کچھ روز پہلے آتے تو یوں کہتے: یونیورسٹی فُل وِد لائف'۔

بات کچھ سمجھ نہ آئی تو وضاحت چاہی۔ بولی 'دسمبر ہے نا'۔ لک ملاٹھی نے فوراً بات اُچک لی 'تو کیا تمہارے ہاں دسمبر کا دوسرا نام ویرانی ہے؟' صاف لگ رہا تھا بات پریٹی کو اچھی نہ لگی تھی لیکن خیالِ خاطرِ مہمان سے بولی 'دسمبر ہمارے ہاں جشن کا اور خوشی منانے کا نام ہے۔

(جاری ہے)

بھلا ولادتِ مسیح سے بڑھ کر بھی کوئی خوشی ہو سکتی ہے؟ سبھی اپنے پیاروں کے ساتھ خوشی منانے چلے گئے ہیں۔

آپ لوگ نہ آئے ہوتے تو ان دنوں ہم بھی یہاں نہ ہوتے'۔ بات سمجھ آ گئی تو میں نے کہا 'پھر تو ہمیں بھی اپنی خوشی میں شریک سمجھو، ہم بھی ان کے ماننے والوں میں سے ہیں مگر بطور رُوحُ اللہ اور پسرِ مریم' ۔ دوسری منزل پر سیڑھیوں کے ایک طرف زنانہ اور دوسری طرف مردانہ کے سائن بورڈ لگے تھے، مبادا کوئی بھٹک کر ممنوعہ علاقے میں نہ گھس جائے۔ دل پر جبر کرکے بائیں ہاتھ مڑے تو ہال نما کمروں میں غیر مناسب فاصلوں پر پلنگ رکھے تھے۔
ایک ہی کمرے میں بیس پلنگوں نے ہم سب کو اپنے اندر سمو لیا۔ سنجے اروڑا، ملک آف بھوگیوال، بنگلہ بُندھو ضیا آلدین اور میں نے ایک کونے میں اپنا برِصغیر قائم کر لیا۔ ضیا ہنس مُکھ بھی تھا اور اردو کو بھی منہ مار لیتا تھا سو ہمارے گروپ میں آسانی سے فٹ ہو جاتا تھا، یہ الگ بات کہ ہم اس کے مشاغل میں شریک نہ ہو پاتے۔ باگیو سٹی سب کے ذہنوں پر اب بھی سوار تھا سو اپنی اپنی سوغاتوں کو سنبھال کر سب سونے کی تیاری کرنے لگے۔
خراٹوں کی موٹر ابھی سٹارٹ ہونے کے قریب ہی تھی کہ ملک کی آواز آئی 'لگدا اے گوانڈ وچ کوئی ویاہ اے'۔ تھکن اور باتوں کے باعث احساس ہی نہ ہوا تھا کہ آس پاس کچھ ہو رہا ہے۔ اب جب باتوں کی بھنبھناہٹ قدرے کم اور رات گہری ہونا شروع ہوئی تو ملک کے احساس دلانے پر لاؤڈ میوزک کچھ زیادہ ہی گراں گزرنے لگی۔ میری تو خیر بات ہی دوسری تھی کہ 'جب کبھی گردن جھکائی سو گئے' والا معاملہ تھا، ملک نیند کے معاملے میں کافی حساس واقع ہوا تھا، سونے کے لئے قبرستان کی سی خاموشی کا طلب گار۔
سونے اور جاگنے کے درمیان والا وقت گزارنے کے لئے ضیا کی تجویز پر ہم چاروں شور سے دو دو ہاتھ کرنے نکل پڑے۔ ڈاکٹر اِوامی بھی ملاتے کی رات کے تعاقب کے خیال سے ہمارے ساتھ ہو لیا۔ سڑک پر آئے تو محسوس ہوا یہ وہ نالہ ہے جو پابندِ نَے نہیں ہے۔ اپنے لائلپور کی زبان میں بات کی جائے تو ایسا لگتا تھا جیسے ہم چاروں طرف سے کیفے لطیف، کیفے عظیم، کیفے یہ اور کیفے وہ میں گھرے اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پا رہے ہیں۔
ایک آواز کا سرا پکڑ کر ایک کیفے میں پہنچے تو کھُلا "شور ہے ہر طرف سحاب سحاب، ساقیا! ساقیا! شراب! شراب"، مڑنے لگے تو نسوانی آواز کی پکار پر اندر جھانکا۔ اپنی ہی مہ وشائیں جھاگ دار گلاس پکڑے شور نما موسیقی پر سر دھن رہی تھیں اور کچھ تھرک رہی تھیں۔ ڈاکٹر اِوامی حسب عادت لکھ لُٹ مُوڈ میں تھا مگر شوقِ لَمس میں سنجے نے نورا اور ضیا نے مارشا کی جھاگ پر منہ مار لیا اور ہم فرج سے اپنے لئے فار کِڈز اونلی قسم کے ڈرنک اٹھا لائے۔
ضیا نے ہم دونوں کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو آبِ حیواں کو مَے سے کیا نسبت! پانی پانی ہے اور شراب شراب! میڈونا، مائیکل جیکسن، ایلٹن جان، وٹنی ہیوسٹن، پرنس، سیلین ڈیان، ایلوس پریسلے، جینی جیکسن اور جانے کس کس کے گانے گانوں کی مشین میں بھرے پڑے تھے۔ شوقین منڈے کُڑیاں دو پیسو کے سکے ڈال کر جسے چاہتے حاضر کر لیتے اور اس کی آواز میں آواز ملا کر ہماری مزید سمع خراشی کرتے۔
ایلوس پریسلے کا گیت I Want You, I Need You, I Love You جب دسویں بار سن چکے تو اندازہ ہوا یہ کارِ حیات رکنے کا نہیں بلکہ راؤنڈ دی کلاک چلنے کا ہے تو ملک کو ایئر بڈ ٹھونس کر سونے کا مشورہ دے کر واپس آ گئے۔ سو تو گئے مگر جب بھی آنکھ کھلی شورِ قیامت کو جاری پایا۔ اس رات ہم پر جہاں یہ کھلا کہ یہ شاید دنیا کی واحد قوم ہے جس کے لئے San Miguel پینے کا یا اچھل کود موسیقی سننے کا کوئی وقت مقرر نہیں، وہیں اتنے کیفے ہائے شب و روز کی موجودگی کا جواز بھی سمجھ میں آ گیا۔
زندگی یونیورسٹی آف لائف کے آس پاس نہیں ہوگی تو اور کہاں ہوگی۔ صبح ہوئی تو امورِ سحر کی ادائیگی کے لئے لباسِ شبینہ میں مقاماتِ مخصوصہ کی طرف جا نکلے مگر لگا غلط جگہ وارد ہو گئے ہیں۔ سبھی فطری لباس میں فطرت کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے میں مصروف تھے۔ مُڑنے ہی لگے تھے کہ چانوِت نے روک لیا 'جا کہاں رہے ہو، زندگی سے ڈرتے ہو، زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم سب ہیں؟ یہ یونیورسٹی آف لائف ہے، سو لائف کو اس کے اصلی رُوپ میں دیکھو'۔
ضیا نے فورا پوچھ لیا 'یہاں زندگی کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے کیا؟ دوسرا کہاں ہے'؟ چانوِت بھلا کب چپ رہنے والا تھا، بولا 'برآمدے کے دوسرے کونے میں، سیڑھیوں کی دوسری جانب'۔ ناشتے کے بعد پریٹی ہم سب کو ہانک کر عمارت کی نچلی منزل میں لے گئی جہاں ایک بڑے کمیٹی روم میں یونیورسٹی آف لائف کی ضرورت و فضیلت سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے بڑوں کے علاوہ امیلیڈا مارکوس کی سیکرٹری سمیت کئی اور طُرم خان ہماری جانکاری کے لئے موجود تھے۔
سب کے رٹے رٹائے قصیدوں کے مطابق فرڈیننڈ مارکوس کی وژنری لیڈرشپ کے پیچھے امیلیڈا مارکوس کی چھاپ زیادہ نمایاں نظر آتی تھی، جس پر ہمارا یقین نہ کرنا آدابِ مہمانداری کے شرعاً خلاف تھا۔ جو کچھ ہمارے پلے پڑا وہ ہمارے متروک بی ڈی سسٹم سے ملتا جلتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے کمیونز سے ہینڈ پِکڈ لیڈر کارِ سیاست کی بنیاد تھے اور مارکوس کا حلقہٴ انتخاب۔
ان کی ٹریننگ، برین واشنگ یا نوازشات کے لئے ہی اس یونیورسٹی کا میلہ سجایا گیا تھا۔ ان لوگوں کو گروپس کی شکل میں لایا جاتا اور کبھی ہفتوں اور کبھی مہینوں تک 'اوپر اللہ تھلے مارکوس' کا سبق یاد کرایا جاتا۔ میل ملاپ کے مواقع فراہم کئے جاتے تاکہ سب مل جل کر مارکوس کے کاروبارِ حیات کو جاری رکھ سکیں۔ بی ڈی (فیلڈ مارشل ایوب خان کی بنیادی جمہوریت) سسٹم سے مشابہت کے سوال پر جواب ملا 'بنیاد تو بے شک ایک ہی ہے مگر ہم ذرا ایک قدم آگے ہیں۔
آپ کے تجربے سے ہم نے سیکھا ہے کہ تسلسل بہت ضروری ہے۔ سبق بار بار یاد نہ کروایا جائے تو بھول جاتا ہے۔ یہی ہم کر رہے ہیں کہ سبق ازبر رہے'۔ ارلی لنچ حسب معمول اس محفل کا سب سے پسندیدہ آئٹم تھا۔ اسی دوران سیکرٹری ٹو امیلیڈا مارکوس سے حاصلِ فلپائن یعنی لزبانئس جانے کا مدعا بیان کرنے کا موقع ملا۔ سوال ہوا 'باقی دنوں کا پروگرام تو طے ہے، چاہو تو ہفتہ اتوار کو جا سکتے ہو مگر کرو گے کیا، یونیورسٹی تو بند ہوگی'؟ جواب پہلے سے تیار تھا 'یونیورسٹی تو یہ بھی بند ہے مگر آپ اور ہم یہاں ہیں۔
وہاں جا کر ذرا سڑکیں ماپنی ہیں، بتیاں گننی ہیں، قدموں کے نشان ڈھونڈنے ہیں'۔ مترنم قہقہے کی شکل میں مجھے جواب مل گیا تھا۔ پریٹی کو البتہ ہدایت کی گئی کہ یونیورسٹی اور انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹیٹوٹ (اری) کی انتظامیہ کو بریفنگ کا پابند کر دیا جائے۔ ممنون تو میں تھا مگر دوسرے دوستوں کے ویک اینڈ کا پروگرام خراب ہونے پر اعتراض کے جواب میں کہنا پڑا ’جس کو ہو جان و دل عزیز اس گلی میں جائے کیوں‘۔
یہ اس روز کا آخری پروگرام تھا۔ اگلے دو دن ہمارے اپنے تھے، نہ کوئی پریزنٹیشن نہ پرتکلف کھانے۔ ہم نے منیلا کو اپنی نظروں سے دیکھا، ایک آزاد پنچھی کی طرح، مگر آغاز اللہ کے نام سے کیا۔ منیلا کے ڈاؤن ٹاؤن اور مسلم اکثریتی ضلع کیاپو کی مسجد الذھب (سنہری مسجد) میں جمعہ ادا کیا، مسجد کی وسعت اور خوبصورتی کو دل اور زبان سے سراہا، لائبریری کی ضخامت کی داد دی، امام صاحب کے دفتر میں کچھ مقامی مسلمانوں سے کچہری کی اور قہوہ نوشِ جاں کیا۔ امام صاحب کے مشورے پر آس پاس کی مارکیٹوں سے مقامی مصنوعات خرید کر مسلم اُمّہ کی سرپرستی کی اور پھر جیپنی کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے منیلا کے گلبرگ مکاتی جا نکلے جہاں ہر موڑ پر صلیبوں سے کئی جے سالک لٹکے ہوئے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles