Amelda Kay Des MaiN Part 9 ... Munh Taraf Lisbaneus Kay - Article No. 1527

Amelda Kay Des MaiN Part 9 ... Munh Taraf Lisbaneus Kay

امیلیڈا کے دیس میں قسط 9 ۔۔۔۔۔۔ مُنہ طرف لزبانئس کے - تحریر نمبر 1527

موت کا وقت تو معین ہے ہی مگر سونے جاگنے کا نہیں خصوصاً جب آپ سفر میں ہوں

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ جمعرات 5 اکتوبر 2017

موت کا وقت تو معین ہے ہی مگر سونے جاگنے کا نہیں خصوصاً جب آپ سفر میں ہوں۔ بس ہمراہیوں پہ چلتا ہو نہ ادھر ادھر سے آنے والی آوازوں پر۔ روشنی کی موجودگی ناموجودگی تک آپ کے اختیار سے باہر ہو تو وہی کیا جو کر سکتے تھے یعنی برداشت۔ یونیورسٹی آف لائف پر چاروں اطراف سے حملہ آور مغربی موسیقی کے اگرچہ ہم بھی دل و جان سے عادی ہو جانے پر مجبور ہو چکے تھے پھر بھی اس روز نیند کچھ زیادہ ہی نامہربان رہی۔

غالب کی اپنی مرضی کی تفہیم کے مطابق مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت میں گئی نیند نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں والے شخص کے ساتھ ایسا ہو جائے تو اسے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی سمجھا جانا چاہیے۔ نیند نہ آنے کی اصل وجہ تو اگلے روز کا سفر تھا جس سے میری جذباتی وابستگی تھی۔

(جاری ہے)

اسی کی تسکین کے لئے اس سفر کا میلہ سجوایا گیا تھا۔

اس کے لئے پریٹی اور اس کی باس کی دبے لفظوں میں خوشامد اور کھلے لفظوں میں سماجت کی گئی تھی۔ موقع مناسب جان کر ماضی کے ورق پلٹتے اور منور قریشی کے خطوط کے جملے یاد کرتے ہوئے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں، کئی کیفیتیں وارد ہوئیں مگر لگاؤ کے ساتھ سرشاری کی کیفیت سب سے بھاری تھی۔ اس کے خط ہر اس جگہ سے آئے جہاں وہ گیا، جہاں وہ رہا لیکن اس کے خطوں میں مخاطب اہم رہا۔
ریڑھ کی ہڈی کے سرطان کے مسائل کے ساتھ لڑتے ہوئے زندگی کے تکلیف بھرے دنوں میں بھی اتنے ہلکے پھُلکے انداز میں بیماری کا ذکر کرتا تھا جیسے اس کے ساتھ پکنک انجوائے کر رہا ہو۔ موت سے کچھ دن پہلے میرے نام لکھے گئے آخری خط سے پہلے کہیں احساس نہیں ہوتا تھا کہ زندگی کی ریگ اس کی مٹھی سے پھسل رہی ہے۔ آخری خط میں خود تو کب سے دیکھا The End کا بورڈ اس نے مجھے بھی دکھا دیا۔
لزبائیس جانے کا مقصد صرف اس کی یادوں کو تازہ کرنا تھا، اس کمرے میں جھات مارنی تھی جہاں سے وہ تین سال مجھے خط لکھتا رہا تھا جنہیں پڑھ پڑھ کر میں نے لکھنا سیکھا تھا۔ جو محض ایک سال پہلے تک ہمارے ساتھ تھا اور جو ہمیشہ کے لئے جاتے ہوئے بھی مجھے نہ بھولا۔ کیا ایسے شخص کو بھلایا جا سکتا ہے جو اپنی زندگی کے آخری نامے میں اپنے حصے کی خوشیاں یہ کہتے ہوئے میرے نام کر گیا تھا 'مجھے اب چھری پانی میں نظر آ رہی ہے ۔
۔۔ میری دعا ہے کہ میرے حصے کی خوشیاں بھی تمہیں لگ جائیں'۔ منور کے خطوط کے اقتباسات سے ہی کئی قسطوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے، سفر کہانی سے زیادہ مزے کی ضمانت کے ساتھ۔ کچھ اقتباسات اس لئے دے رہا ہوں تاکہ سند رہے کہ وہاں جانا کیوں بنتا تھا۔ ’زندگی میں بہت کم ایسے موقعے آےٴ ہیں کہ میں نے لوگوں سے خط نہ لکھ سکنے پر معذرت چاہی ہو۔ اور تو اور میرے والد صاحب کو بھی ایک مرتبہ سے زیادہ یہ شرف حاصل نہیں ہوا کہ وہ میرا معذرت نامہ وصول کر سکیں (حالانکہ انہیں میرے عالمِ وجود میں لانے کا شرف حاصل ہے) لیکن آج جب میں یہ خط لکھنے بیٹھا ہوں تو نہ جانے کیوں میرا دل خواہ مخواہ چاہ رہا ہے کہ میں آپ کو اتنے دن خط نہ لکھ سکنے کی معافی چاہوں۔
یقین کیجیے اگر آج آپ کا شفق رنگ ویو کارڈ نہ ملتا اور میں خط لکھنے کے لئے اس قدر انسپائر نہ ہوتا تو شاید کچھ دنوں بعد مجھے معذرت کا بوجھ کاندھوں پر اٹھا کر خود لائلپور حاضر ہونا پڑتا‘۔ ’گلابی کاغذ محبت کی نشانی ہے اور میں یہ نشانی آپ کو دے رہا ہوں۔ یہ بات صرف اس لئے ہے کہ میں جہاں بھی ہوں، اپنی اس محبت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں جو کہ مجھے آپ سے ہے۔
یوں تو شاید اس کے لئے گلابی کاغذ کی ضرورت نہیں ہوتی اور میں سمجھتا ہوں کہ کاغذ پر گھسیٹے گئے الفاظ یعنی خط کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن جب آپ کا خط ملتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ پراچہ صاحب اتنا عرصہ خط نہ ملنے پر بھَونتر گئے ہیں۔ چنانچہ میں بھی حسبِ استطاعت بھَونترنے کی کوشش کرتا ہوں‘۔ ’ہا! ایک گلہ شاید آپ کو کچھ عرصے کے لئے نہ رہے کہ قریشیی صاحب کے ہاں سے خطوں کے جواب میں تاخیریں معمول ہی بن گئی ہیں کہ ہر بار آپ کی طرف سے جو یاد دہانی آتی تھی وہ ہمیشہ مجھے اس گانے کی یاد دلاتی تھی کہ ’افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا‘۔
اور ہر بار وہ گانا گانے والی جانتی تھی کہ حضرتِ مکتوب الیہ کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔ خیر! آپ سے تو خط و کتابت ہماری ہمیشہ چلے گی چاہے شادی آپ کی بھی ہو جائے (فعل شکیّہ نوٹ کیا آپ نے؟‘ '۔۔۔ جتنی محنت کرکے آپ خط لکھتے ہیں، بخدا اس کا خیال نہ کرنا دنیا کی سب سے بڑی بے ذوقی ہے۔ آپ کو علم نہیں کہ یہاں ہمارے سرکل میں آپ کے خط کتنے مشہور ہو چکے ہیں۔
پانچ چھ تو ہم کل ہیں پاکستانی۔ جس دن میں یہ اناؤنس کرتا ہوں کہ لائلپور سے پراچہ کا خط آیا ہے تو باری باری سب کا ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے۔ ایک صاحب نے ریمارک دیا کہ اتنے پریم سے تو کوئی اپنی محبوبہ کو بھی خط نہیں لکھتا۔ اب ان کو کوئی کیا بتائے کہ محبوبہ تو سستی شے ہے ایک نہ ملی تو دوسری سہی البتہ دوست جلد جلد نہیں ملتے اور پراچہ جیسے تو زندگی میں شاذ ہی ملتے ہیں'۔
’میں لاکھ پیشہ ور مجرم سہی لیکن کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں نقب نہیں لگائی جا سکتی۔ کچھ لوگ دنیا میں ایسے ضرور ہوتے ہیں کہ ان کو خفا نہیں کیا جا سکتا اور سچی بات یہ ہے کہ وہ پراچہ صاحب جیسے ہوتے ہیں‘۔ 'ہمارے ہاسٹل کے ساتھ ہی ویمن ہاسٹل ہے لیکن اس کا وہ conceptنہ لیں جو ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ لڑکے لڑکیاں آزادی سے ملتے ہیں (مجھے ابھی شامل نہ کریں) لیکن pollution اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں‘۔
’اگر آپ کو خط میں ڈالنے کے لئے کوئی مصالحہ نہ ملے تو ملکی سیاست کی خبریں نشر کیا کیجیے۔ اس چیز سے ہمیں یہاں دلچسپی رہتی ہے کہ اپنے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ بُگتی صاحب نے کیا بھُگتی؟ کھر صاحب کے کھُر پکے فرش پر ہیں یا کچے پر؟ خٹک صاحب آرام سے ہیں یا خٹک ڈانس کر رہے ہیں؟‘ ’میرے بارے میں آپ پوچھیں گے تو سچ سچ بتا دوں گا کہ میں نے اس عرصے میں مجسم غزلوں کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ کچھ عرصے تک شاید گم صُم ہی رہوں گا‘۔
’شاید آپ کو یاد ہو کہ میں نے آپ کو ایک کھُسے کی فرمائش کی تھی۔ نہیں بھیجا تو رہنے دیں۔ میں نے اگر کسی لڑکی کو کھُسہ نہ بھی دیا تو نہ سہی۔ چار باتیں تعریف کی زیادہ کر دوں گا، مقصد تو اسے خوش کرنا ہی ہوتا ہے‘۔ ’۔۔۔ یوں بھی ان کی محبت اور ہمارے ہاں کی محبت میں گلبرگ (لاہور) اور گلبرگ (لائلپور) کا فرق ہے‘۔ 'یہاں پر ہم لوگ انگریزی کھاتے ہیں، انگریزی پہنتے ہیں، انگریزی بولتے ہیں اور انگریزی پیتے ہیں، یا پھر یہاں کی زبان Tagalog سے جی بہلاتے ہیں۔
اوڑھنے کا ذکر میں جان بوجھ کر نہیں کر رہا کیونکہ موسم تو سارا سال ایک سا رہتا ہے۔ یہاں آ کر دو تین بیڈ شیٹس لی تھیں، بس انہی سے کام چلتا ہے، کبھی ایک اوپر اوڑھ لی کبھی دوسری اور دن کو تو کچھ اوڑھنا (پہننا) ہی فضول ہے۔ سو صاحب لوگ اسی قدر اوڑھتے ہیں کہ لوگ انہیں ننگا کہنے سے ہچکچائیں'۔۔۔ 'بات انگریزی کی ہو رہی تھی۔ بھائی! اردو اور اچھی اردو یہاں پڑھنے کو کہاں ملتی ہے؟ لوگوں کو گھروں سے یا دوستوں سے خط آتے ہیں تو وہی برخوردار اور نور چشمی کا ذکر ہوتا ہے یا پھر 'یہاں پر سب خیریت ہے، اپنی خیریت کی اطلاع دیں اور جلد از جلد ۔
۔۔۔ لڑکیوں کی تصویریں روانہ کریں' والا قصہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں آپ کا خط کسی نعمت سے کم ہے جس میں شاعری ہے، رنگینی ہے اور بلا آفرینی ہے۔ تو بھائی! یہ خط ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلتا ہے اور پھر اس میں سیاسی تجزیہ بھی ہوتا ہے جس کی چاہ میں یہاں لوگ فوت ہوتے پھر رہے ہیں'۔ 'کیسے ہیں سیاسی اور غیر سیاسی موسم؟ بلوچستان کے بارے میں یہاں یہ زوردار گپیں چل رہی ہیں کہ بس گیا ہی گیا۔
نیوز ویک وغیرہ نے بھی اس بارے میں کافی گرم خبریں دی ہیں۔ آپ ذرا فرسٹ ہینڈ نالج دیجیے۔ مجھے تو بھٹو صاحب پر رحم آتا ہے۔ اپنی چند کمزوریوں کے باوجود وہ اس وقت مناسب ترین آدمی ہے لیکن قدرت نے بھی اس کے سارے بال سفید کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ پہلے تو ٹوٹی پھوٹی اکانومی ملی، اس کو سنبھالا تو کبھی گلگت میں زلزلہ اور کبھی سیاست میں۔ ارے بھائی! اس کرموں ماری قوم کو ایک آئین دینا کوئی بچوں کا کھیل تھا اور وہ بھی پارلیمنٹری۔
کیسی کیسی مصیبتیں جھیلی ہیں اس شخص نے۔ اگر نیب اور JUI کو کچھ عرصے کے لئے صوبوں میں حکومت کا چکر نہ دیتا تو کبھی آئین بنتا؟ کبھی نہیں۔ اور اب ان لوگوں کو نکال باہر کرنا ہی سود مند تھا۔ سن لیا نا آپ نے کہ نیب کے ایک صاحب نے کیا بیان دیا کہ ہم تو کبھی succession-ist نہیں تھے لیکن بھٹو ہمیں اس کے لئے مجبور کر رہا ہے'۔ کیسا صاف اور شفاف بیان ہے ان لوگوں کی نیتوں کا۔
کبھی کوئی succession-ist نہیں کہتا کہ وہ از خود ایسا کر رہا ہے۔ مجیب نے بھی آخر دم تک یہ نہیں کہا تھا'۔ بات اور یاد منور کی آ جائے تو اس کی شاعری سے دامن بچا کر گزرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ سو اس کے چند اشعار بطور تبرک:
صبح ہوگی تو وہی رات کا نقشہ ہوگا
ایک ہی خواب مری آںکھ میں اٹکا ہوگا
شب کی دہلیز پہ پھر آج کھڑا سوچتا ہوں
جانے سورج مرا کس شہر میں اترا ہوگا
ان سے کہہ دو نہ گھنے پیڑ کی شاخیں کاٹیں
ان کے پیچھے بھی مسافر کوئی چلتا ہوگا
آوٴ اس شہر کے دروازے پہ دستک دے لیں
اس خرابے میں بھی آخر کوئی بستا ہوگا
یہ جسم ہے صحرا میں تنے خیمے کی مانند
باہر بھی الاؤ ہے تو اندر بھی الاؤ
کیا کیا خواب دکھانے والا کیا تعبیریں چھوڑ گیا
جانے والا کچھ یادیں اور کچھ تصویریں چھوڑ گیا
پتھر سے تراشے ہوئے چہروں میں گھرا ہوں
میں اپنے ہی احساس کی دوزخ میں جلا ہوں
دیواریں بھی کچھ دیر میں گرنے کو ہیں مجھ پر
دیوانہ ہوں میں جلتے ہوئے گھر میں کھڑا ہوں
خود اونچا ہوں میں یا کہ زمانے کا ہے قد پست
دروازوں سے گزرا ہوں تو گھٹنوں پہ جھکا ہوں
احساس آگہی کو بھی مر جانا چاہیے
شانوں سے اب یہ بوجھ اتر جانا چاہیے
تھک کر نہ ٹوٹ جائیں کہیں آرزو کے پاوٴں
اس جستجوئے صبح سے ڈر جانا چاہیے
سیر جہاں میں کیا ہے جو اس چھت تلے نہیں
اے دل اب آ کہ لوٹ کے گھر جانا چاہیے
باہر تو چار سو ہے اک آواز کا فریب
اپنے لہو میں بہر سفر جانا چاہیے
ہائے وہ دلفریب مناظر، خوشی کے گیت
وہ سب جدھر گئے ہیں ادھر جانا چاہیے
یارب! یہ میری روح پہ کیا بوجھ رکھ دیا
برسوں کی یہ جمی ہوئی مٹی بھی جھاڑ دے
مٹی میں یوں ملی ہیں تمنائیں، جس طرح
صحرا کی ریت گاوٴں کے گاوٴں اجاڑ دے
اس حسیں بستی پہ کوئی سوچ نہ طاری رہے
کہر میں ڈوبی فضا سے معرکہ جاری رہے
(کشمیر پر ایک نظم "نظارہ" سے)

Browse More Urdu Literature Articles