- Home
- Adab
- Articles
- Safarnama
- Bhalwal Se Wakhnangan Episode 5 ... Aor Koi PanioN MeiN ZameeN Dhoondta Raha
Bhalwal Se Wakhnangan Episode 5 ... Aor Koi PanioN MeiN ZameeN Dhoondta Raha - Article No. 1378
بھلوال سے واخننگن قسط 5 ۔۔۔۔ اور کوئی پانیوں میں زمیں ڈھونڈتا رہا - تحریر نمبر 1378
ولندیزی قزاقوں کی دھاک بچپن سے ہمارے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی تھی مگر یہ سمجھ نہ آئی تھی کہ پدی جتنا ملک کیسے امریکہ سے انڈیا تک، انڈونیشیا سے ماریشس تک اور گھانا سے سوری نام تک آدھی دنیا کو سرنگوں کئے ہوئے تھا
ظہیر پراچہ پیر 17 جولائی 2017
(جاری ہے)
جو قوم مسلسل سمندر سے عالم جنگ میں ہو، اپنے رہنے کے لئے سمندر سے زمین چھین لینے کی صلاحیت رکھتی ہو، اسے کارآمد بنانے کے لئے پچاس سال انتظار کر سکتی ہو، جس کا Schipholایئرپورٹ سطح سمندر سے تیرہ فٹ نیچے ہو اوراس سے بھی نیچے انڈرگراوٴنڈ کا سٹیشن ہو، جس کے زمینی رقبے کا ایک چوتھائی حصہ سطح سمندر سے نیچے ہو، جس کے قابل کاشت رقبے کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ مستقل فصلوں کے لئے استعمال ہوتا ہو، پھر بھی اس کی زرعی پیداوار کا زرمبادلہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے بھی زیادہ ہو، وہ قوم تو سلیوٹ کی حقدار ہے نہ کہ الزام تراشی کی۔
تقریباً ہر ہفتے ہمیں فیلڈ ٹرپ پر لے جایا جاتا۔ سفر کے دوران ایسا بھی ہوتا کہ بیچ بیچ میں کبھی بس بیلجیم میں گھوم رہی ہوتی، کبھی لکسمبرگ میں اور دو موڑ کے بعد پھر نیدرلینڈز میں۔ ہم حیران ہوتے کہ نہ تو کسی نے بس روکی، نہ پاسپورٹ مانگا نہ ویزہ پوچھا اور ہم ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں آزاد پنچھیوں کی طرح۔ ماضی کے یہ دشمن صدیوں کی مارا ماری اور لمبی چوڑی چخ چخ کے بعد شنگن معاہدے کے بعد ایک ایسی لڑی میں پروئے گئے جو مزید موتیوں کی شمولیت کے بعد لمبی ہوتے ہوتے یورپین یونین کی شکل اختیار کر گئی۔ یوں تو پنجاب کے پانچویں حصے کے برابر ملک میں متاثر ہونے کے بہت سامان تھے، مگر جن تین باتوں نے خصوصاً ہمیں بہت متاثر کیا وہ تھے: Polders and Dykes کا نظام، کیٹل فارمز اور ٹیولپ کی کاشتکاری۔ Polders and Dykes کے نظام کے تحت ریت اور مٹی سے بند بنا کر رفتہ رفتہ سمندر کو پیچھے دھکیل کر سمندر سے زمین حاصل کی جاتی ہے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے۔سمندر سے چھینی گئی زمین کو کارآمد بنانے کے لئے چالیس سے پچاس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ فالتو پانی کو Dykes کے ذریعے سمندر میں پھینکا جاتا ہے اور high tides میں بند کے ذریعے سمندر کے پانی کو واپس آنے سے روکا جاتا ہے۔ گئے وقتوں میں اس مقصد کے لئے ونڈملز کو استعمال کیا جاتا تھا جبکہ آجکل اس کام کے لئے بڑے بڑے پمپ استعمال کئے جاتے ہیں۔ زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے ٹائل ڈرینیج کی مدد سے نمکین پانی پمپ کرکے dykes کے ذریعے مسلسل سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ سب سے بڑا مر حلہ peat (دلدل کا کوئلہ) والی زمین کو قابل کاشت بنانا ہے جو مسلسل پمپنگ کے نتیجے میں مزید دھنستی چلی جاتی ہے۔ یہ قوم اس دھندے میں گزشتہ دو ہزار سال سے لگی ہوئی ہے۔ اس "کار لا حاصل" میں مسلسل شمالی سمندر (Noordzee) سے اور اب کچھ عرصے سے جنوبی سمندر سے (Zuiderzee) سے حالت جنگ میں ہے۔ اس لڑائی میں سمندر کے حصے میں تو کچھ اور نمکین پانی ہی آتا ہے جبکہ یہ 'قزاق' اپنے کل رقبے کا ستائیس فیصد رقبہ سمندر سے چھین کر اس پر رنگ برنگے ٹیولپ اگاتے ہیں، دساور کو بھیجتے ہیں، ڈالر کماتے ہیں اور اب بھی ایک وقت کا تتا کھانا (hot meal) کھاتے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ ساٹھ سال میں بے حساب رقبہ سیم تھور کے حوالے کر کے کلمہٴ شکر ادا کرتے ہیں اور بوریا بستر اٹھا کر آگے چل پڑتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات اس ساری کہانی میں یہ ہے کہ ان کے اپنے پاس نہ مٹی ہے نہ ریت، ضرورت آباد کاری کے لئے ہو یا تعمیرات کے لئے، گوانڈیوں کے محتاج ہیں۔ سو جرمنی سے مٹی اور ریت جہازوں میں بھر کر لاتے ہیں دریائے رائن کے راستے۔ دو شاخے دریائے رائن کو گہرا کرکے اور جہاز رانی کے قابل بنا کر انہوں نے سیلاب کے خطرے کو نہ صرف ختم کر دیا ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کا بہتر متبادل نظام بھی بنا لیا ہے۔ ہم بھی چاہتے تو یہ سب کچھ کر سکتے تھے۔ امن کے محدود زمانوں میں فوج کی منظم مین پاور کے کچھ حصے کو باری باری دریاوٴں کو گہرا کرنے پر لگا دیتے تو سیلاب کے خطرات سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتے، سپاہی بھی خندقیں کھودنے اور پھر پاٹنے کی ایکسرسائز کی بجائے کچھ پروڈکٹو کام کرتے، افسران بھی ترقیاتی عمل کا حصہ بنتے اور شاید اس عمل کے ذریعے ہم کچھ اور قسم کی سرگرمیوں سے بھی محفوظ رہتے۔ قدرتی بہاوٴ (flow) کے ذریعے سیم کے مسائل سے بھی کسی حد تک عہدہ برآ ہو جاتے۔ یہ نہیں کہ ہم نے اس مین پاور کو بالکل ہی استعمال ہی نہیں کیا۔ کیا ہے، مگر کبھی محصول چونگی اکٹھا کرنے کے لئے اور کبھی کھالوں کی بھل صفائی کے لئے۔ اس سے آگے کی سوچ ہم میں تھی ہی نہیں، اور یوں وہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ ہمارے مزاج میں تعمیر سے زیادہ تخریب کا جذبہ ہمیں ایک دوسرے کو 'واصل جہنم' کرنے کے دھندے پر لگائے ہوئے ہے۔Browse More Urdu Literature Articles
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
Jab Masjid E Nabvi Ke Minar Nazar Aaye
وہ جو طُور ہے بہت دور ہے
Wo Ju Tor Hai Buhat Dour Hai
سفرِ کعبہ
Safr E Kabba
لاہور سے نتھیا گلی
Lahore Se NathiyaGali
کراچی سے کھٹمنڈو : دو دن کا ہوائی سفر
Karachi Se Khatmandu - 2 Din Ka Hawai Safar
قلعہ سِنگھنی، گوجر خان
Qilla Singhni - Gujjar Khan
یادیں سفر حجاز کی۔آخری قسط
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Last Qist
کراچی کا سفر - پانچویں قسط
Karachi Ka Safar - 5th Episode
یادیں سفر حجاز کی۔ قسط نمبر 7
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 7
یادیں سفر حجاز کی۔قسط 6
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 6
سفر حجاز: ایک ہندو جو مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا۔(قسط نمبر 4 )
Safar E Hijaz - Qist 4
کُسک فورٹ، چکوال
Kusak Fort Chakwal