Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part One - Article No. 1430

Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part One

چند دن امیلڈا کے دیس میں قسط اول - تحریر نمبر 1430

وہاں جا کر مجھے یقین آ گیا ہے کہ اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیمبر ضرور وہاں مبعوث کئے ہوں گے۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ پیمبری پر مہر نہ لگی ہوتی تو اب بھی وہاں اتنے ہی مزید پیمبروں کی گنجائش ہے۔

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ جمعہ 11 اگست 2017

فلپائن سے میری پہلی محبت منور قریشی کے توسط سے ہوئی اور دوسری امیلڈا اور اس کے شو ریکس کے باعث اور پھر چل سو چل۔ امیلڈا کا ذکر تو آگے آئے گا مگر پہلے منور۔ منور لزبانئس میں تھا تو ہر دوسرے ہفتے اس کا خط فلپائن کا ایک نیا گوشہ دکھا دیتا تھا۔ وہ خود تو وہاں سے چلا آیا مگر اس نے اس طرح میرے اندر فلپائن بھر دیا تھا کہ نکالے نہ نکلتا تھا۔ تبھی سے میں نے ٹھان لی تھی، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، یہ لوح ازل پر لکھا ہے۔

اور جب وہ وقت آیا تب وہ اس دنیا سے ہی منہ موڑ چکا تھا۔ بنکاک کے ایشین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں جہاں پورا ایشیا بھرا ہوا تھا، فلپینو زندگی سے بھرپور کمیونٹی تھی، پرسکون، تعصب سے پاک اور سوشل۔ اس کا اندازہ ہمیں اپنی ویلکم پارٹی ہی میں ہوگیا۔ جہاں ہماری دِل دِل پاکستان والی پریزینٹیشن ہم چاروں کی کپکپاتی ٹانگوں سے دلدل پاکستان کا تاثر پیش کر رہی تھی (پانچویں سوار فیصل عجمی نے البتہ اپنی ٹانگیں بچا لیں)، وہاں لورنا، نورا، پریسی اور مارشا کی پریزینٹیشن ان کی ہم آہنگی اور سوشل بے ساختگی کی مظہر تھی۔

(جاری ہے)

اگر ٹریلر ایسا ہے تو فلم کیسی ہوگی۔ اندر سے تو ہم سب متاثر تھے مگر باہر سے ہمارا ردعمل 'پر سانُوں کیہ' والا تھا۔

فلپینی قُمریوں سے بھرے ڈیپارٹمنٹ میں لے دے کے ایک ہی فلپینو لڑکا تھا طوطے کی ناک والا سنتوش، جو تھا تو ہم سے ایک سال سینئر مگر اپنی حرکتوں سے ہم سے آن ملا تھا۔ لڑکیوں کی کمپنی میں خوش رہتا اور مشکوک دِکھتا تھا۔ میاں مِٹھو کو جب دیکھو دو چار فلپینیاں گھیرے ٹیں ٹیں کرتا پایا جاتا تھا۔

سنجے اروڑا نے اس کے بارے میں کیا کمال کی بات کی تھی 'معلوم نہیں میڈیکل آفیسر ڈاکٹر یواتھاوکل نے طوطے کی جنس کے خانے میں کیا لکھ رکھا ہے؟'۔ ابھی دوسری ٹرم کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اگلی ٹرم بریک میں سٹڈی ٹور کا غلغلہ شروع ہوگیا۔ جتنے منہ اتنی تجویزیں۔ سری لنکا نزدیک تھا، بجٹ میں کام ہو جانے کی نوید سنائی گئی۔

ڈاکٹر ہرن ڈائس کے اسسٹنٹ سے میری نہیں بنتی تھی، جب پتہ چلا ٹرپ کا انچارج وہ ہوگا تو میں نے 'سری لنکا نامنظور' کی انڈر گراوٴنڈ کمپین شروع کر دی۔

(یوں بھی ہم زیاں الحق تو تھے نہیں کہ من کی مرادیں پانے وہاں کے مندروں میں گھنٹیاں بجانے جاتے)۔ اسے جانے میرے ساتھ کیا مسئلہ تھا کہ ڈاکٹر ڈائس کی علالت کے دوران جب وہ کلاسز لینے لگا تو اس نے میرا ٹرم پیپر ہی غائب کر دیا۔ وہ تو اچانک آخری وقت پر ڈاکٹر ڈائس سے میری ملاقات ہوگئی اور بات کھل گئی۔ ڈاکٹر ڈائس نے مجھ سے پوچھ لیا " تم نے ٹرم پیپر جمع نہیں کروایا، خیر تو ہے؟"۔
میں ہکا بکا رہ گیا۔ اسی وقت جا کر رف کاپی لے آیا اور ڈاکٹر ڈائس کو ثبوت فراہم کر دیا۔ یوں میں تو سی کے داغ سے بچ گیا مگر اس نے اس کا بدلہ مجھ سے عید پر لے لیا، یہ قصہ پھر سہی۔

کچھ دوست پاکستان جانا چاہتے تھے، ہم نے مخالفت کی کہ دیکھے ہوئے کو کیا دیکھنا مگر اصل بات ہمارا وہ خوف تھا کہ جو کچھ وہاں میسر نہ ہوگا، اس بنا پر بھد اڑے گی۔

ویسے بھی ان دنوں منگیتر کے ساتھ کینڈل لائٹ ڈنر کا رواج ابھی شروع نہیں ہوا تھا، سو وہاں جانے میں کوئی کشش نظر نہ آ رہی تھی۔ ایک دن لورنا نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا فلپائن کا ٹرپ کیسا رہے گا، مگر اس میں آئے گی لاگت زیادہ۔ فلپائن کے اندھے کو اور کیا چاہئے تھا۔ میں نے ملک اعجاز، نورا اور فیلکس کو ساتھ ملایا، کچا پکا تخمینہ لگا کر سروے شروع کر دیا کہ کون کون اضافی اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہے۔
کافی لوگ اضافی پیسوں کے نام سے ڈراپ ہو گئے۔ شبیہ الحسن زیدی بھی انہی میں شامل تھا۔ وجہ تو ہنی مون ثانی تھی، بہانہ اضافی اخراجات کا بن گیا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ پتہ نہیں ہم اس کی لیاقت سے خائف تھے یا اندر ہی اندر کترنے کی عادت سے، بہر حال اس کے نہ جانے کا سن کر دل باغ سے زیادہ باغیچہ بن گیا تھا۔

بجٹ کا شارٹ فال کافی حد تک کم ہو گیا تھا مگر ہنوز منیلا دور تھا۔

منیلا کو نزدیک لانے کی ذمہ داری پریسی نے اپنے سر لے لی۔ وہ مسز امیلڈا مارکوس کی وزارت ہیومن سیٹلمنٹ ڈیویلپمنٹ میں کام کرتی تھی اور فرسٹ لیڈی کے ساتھ براہ راست کام کر چکی تھی۔ پریسی نے دن رات ایک کر دیا۔ اس کی کوششوں سے ہمیں وزارتی مہمان کے رتبہٴ عالیہ پر فائز کر دیا گیا۔ اس کام میں ہم ثواب کے حقدار ٹھہرے پریسی کے بچوں کو ماما سے ملنے کا موقع دلوانے میں بھرپور تعاون کے لئے۔
جدہ سے منیلا جانے والی ایئر فرانس کی فلائٹ پر بیٹھنے تک 'کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے' کے کئی مراحل آئے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں، 'انجام ہو اچھا تو مراحل نہیں دیکھے جاتے'۔

اس ٹرپ کا سب سے خوش کن پہلو ڈاکٹر اوامی کا بطور انچارج ہمارے ساتھ جانا تھا۔ ڈاکٹر اوامی کا تعلق جاپان سے تھا اور سٹیٹ جیسا خشک مضمون تر نوالے کی طرح ہمارے حلق سے اتار چکا تھا۔

عمر میں ہم سے کچھ ہی بڑا نظر آنے والا ڈاکٹر اوامی انگریزی میں ماٹھا مگر دل کا غنی تھا۔ ہماری دعوت پر بنکاک کے ایک اچھے پاکستانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا چکنے کے بعد اپنے استادانہ مرتبے کا فائدہ اٹھا کر ہمیں جبراً بل کی ادائیگی سے محروم کر چکا تھا۔ اس کا دیا ہوا کیمونو آج بھی اس کی یاد دلاتا ہے۔ اور یقیناً وہ بھی میری دی ہوئی شلوار قمیض کو (پہنے بغیر) دیکھ کر مجھے یاد کر لیتا ہوگا۔
جہاز پٹرو ڈالر کما کر لوٹنے والی فلپینو میڈز سے اٹا پڑا تھا۔ خوشی ان کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ خوشی ڈالر لانے کی تھی، پیاروں سے ملنے کی یا کچھ دنوں کی 'رہائی' پانے کی، یہ تو ان کے دلوں میں جھانک کر ہی جانا جا سکتا تھا مگر اتنی فرصت کس کے پاس؟۔ ابھی آدھا سفر ہی طے ہوا تھا کہ جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ یہ ٹائیفون ارما تھا جو جاتے جاتے اپنے اثرات دکھا رہا تھا۔
مجھے اپنا دوست زاہد لطیف مرحوم یاد آ گیا۔ 1974ء میں ہم گلگت جا رہے تھے، بقول جاوید اقبال کارٹونسٹ پی آئی اے کا تانگا فوکر، بابوسر سے آگے نکلا تو کسی اناڑی شرابی کی طرح جھومنے لگا۔ زاہد لطیف نے پرسر کو بلایا اور مجہول صورت بنا کر کہنے لگا "یار کوچوان کو کہو کچے پر نہ اتارے جھٹکے لگتے ہیں"۔ جی تو میرا بھی بہت چاہا کہ یہ سب کہہ دوں مگر وہ بھولپن کہاں سے لاتا جو زاہد میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
یہی زاہد جب خود سی ون تھرٹی اڑانے لگا تو اپنی حماقتیں چٹخارے لے لے کر سناتا تھا۔

منیلا پہنچے تو ہمارا استقبال پریٹی (نام تو اس کا چیٹ ڈی جویا تھا لیکن ہم نے اپنی آسانی اور اعترافِ حسن و خوبی کے لئے پریٹی رکھ چھوڑا تھا) کی سرکردگی میں خوبصورت وزارتی حسیناوٴں نے اور تارکین وطن کا کسٹمز کے باگڑبلوں نے اپنے اپنے روایتی طریقوں سے کیا۔

کسٹمز والوں نے خاتونِ اول کے مہمانوں کا خیر مقدم مجبوری کی مسکراہٹ اوڑھ کر اور تارکین کا چاک کے ساتھ کیا۔ تنومند توندوں والے اہلکار پچاس ڈالر فی بیگ کے حساب سے سرِ عام چاک کی لکیر بیچ رہے تھے اور جو لوگ لکیر خریدنے سے انکاری تھے ان کا وہی حال کر رہے تھے جو جدہ ایئرپورٹ پر عربی یلّے نے میرا کیا تھا۔ بہت بعد میں ہالینڈ سے واپسی پر میرے پاس بریف کیس کی شکل کا گولڈ پلیٹڈ کٹلری سیٹ تھا۔
یلّے نے بدوانہ لہجے میں پوچھا "اس میں کیا ہے؟" میں نے کہا "ہمارے ہاں چمچوں کی کمی تو نہیں لیکن پھر بھی یہ بدیسی چمچے مجھے جرمنی سے گفٹ میں ملے ہیں"۔ اور ساتھ ہی اس کی تسلی کے لئے کھول کر دکھا دیا، بولا "اسے الٹا دو" میں ابھی جواب سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے بریف کیس فرش پر الٹ دیا۔ انجم، ملک حمید اور میں دل کے ٹکڑوں کی طرح ادھر ادھر گرے چمچوں کو اکٹھا کرتے رہے اور وہ یلّا یلّا کی تلاوت کرتا رہا۔
وہاں مجھے ڈاکٹر صدیق شفیق کا تاریخی جملہ یاد آ گیا۔ ڈاکٹر شفیق بین الاقوامی شہرت کے ماہر آب ہیں اور واپڈا میں میرے سب سے پہلے استاد نُما باس رہے ہیں۔ ’یہ جہاں خود ہی بنا ہے‘ کے قائل ڈاکٹر صدیق شفیق اپنی سوڈان میں تقرری کے دوران بیگم کے پُرزور اصرار پر سالانہ چھٹیاں گزارنے یہ کہتے وہاں چلے گئے "میرا دل تو ہے صنم آشنا مجھے کیا ملے گا۔۔" کہ بقول ان کے اپنے ان کا تعلق فرقہٴ منکرین سے تھا۔ واپسی پر ان سے پوچھا "آپ بھی؟"۔ کہنے لگے "ہاں، مگر وہاں جا کر مجھے یقین آ گیا ہے کہ اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیمبر ضرور وہاں مبعوث کئے ہوں گے۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ پیمبری پر مہر نہ لگی ہوتی تو اب بھی وہاں اتنے ہی مزید پیمبروں کی گنجائش ہے"۔

Browse More Urdu Literature Articles