Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part Three ... Malatay MeiN Phajay Kay PayoN Aor Paan Ki Talash - Article No. 1444

Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part Three ... Malatay MeiN Phajay Kay PayoN Aor Paan Ki Talash

چند دن امیلڈا کے دیس میں قسط سوئم ۔۔۔ مَلاتے میں پھجے کے پایوں اور پان کی تلاش - تحریر نمبر 1444

دروازہ کھلنے سے تیز موسیقی میں گھُلا ایک بھبکا باہر نکلتا اور ڈاکٹر اِوامی اس کی جگہ لینے اندر جا پہنچتا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ پیر 21 اگست 2017

ڈاکٹر اِوامی کی سرکردگی میں نکلے تو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ جا کہاں رہے ہیں۔ امیر تو ہم نے اسے اس وقت ہی مان لیا تھا جب اس نے جیبیں خالی رکھنے کی تاکید کی تھی یہ کہہ کر کہ 'آج تم لوگ میرے مہمان ہو اور میری غیر مشروط اطاعت تم پر فرض ہے'۔ یہ الگ بات کہ اسے بتائے بغیر ہم نے کچھ ڈالر پیسو میں ڈھالنے کے لئے شلوار کی جیب میں اُڑس لئے تھے کیونکہ اگلے روز ہمیں باگیو سٹی جانا تھا۔

کچھ تنگ و تاریک گلیوں سے نکلے تو جلتی بجھتی رنگین روشنیوں میں گھومتی تصویروں نے اپنا تعارف خود کروا دیا۔ کمی تھی تو پھجے کے پایوں، پان کے کھوکھوں اور رومال والے کندھوں کی باقی، سب کچھ ویسا ہی لگ رہا تھا۔ طے ہوا کہ ایک راوٴنڈ لگا کر بازار کا جائزہ لیا جائے اور کسی مناسب جگہ پر کھانا کھا کر اگلے پروگرام کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ کسی سیانے کا قول ہے، ڈھڈ نہ پیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں۔

(جاری ہے)

چلتے چلتے جس جگہ شو کیس میں سجا مال اچھا لگتا ڈاکٹر اِوامی ہمیں باہر انتظار کرنے کا حکم دے کر اندر جا گھستا۔ دروازہ کھلنے سے تیز موسیقی میں گھُلا ایک بھبکا باہر نکلتا اور ڈاکٹر اِوامی اس کی جگہ لینے اندر جا پہنچتا۔ یہ سب گوگو بار تھے۔ ایسا بار بار ہوا تو ہم بغاوت پر اتر آئے اور طے کیا کہ یا تو ہم ساتھ جائیں گے یا۔۔۔ ڈاکٹر اِوامی کی اطاعت کا بوجھ اتار دیں گے۔
شاید اس نے ہمارے بدلے تیور بھانپ لئے تھے۔ واپس آتے ہی بولا "آج پھر تمہارا دیسی کھانا چلے گا"۔ اب تیور دکھانے کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ ابھی چار قدم ہی چلے ہوں گے کہ ایک سائن بورڈ کی عبارت دیکھ کر حیرت کے مارے میرے پاوٴں زمین میں گڑ سے گئے۔ یہ ایک شاہکار نو پارکنگ سائن تھا، لکھا تھا: Strictly No Parking - - By the orders of Mrs. Imelda Marcos, The First Lady Mayor, Metro Manila and Minister for Human Settlements Development تصویر کی کمی تھی، شاید کسی نے آئیڈیا ہی نہیں پیش کیا ہوگا ورنہ کس چیز کی کمی تھی امیلڈا تری گلی میں۔
پھر بھی ایسا نو پارکنگ سائن نہ دیکھا تھا نہ پھر کہیں اور دیکھنے کو ملا۔ وہاں ایسے بورڈ ہر دس قدم کے بعد لگے تھے۔ اس دارالتقصیر میں چلتے چلتے ایک ریستوران کے باہر شیشے میں لگا فریم دیکھا تو ملک نے اپنے باغبان پوری لہجے میں کہا "مک گئی اوئے"۔ فریم دیکھ کر مجھے دو عربی یلے یاد آگئے۔ دونوں ایک پاکستانی دوست کے ساتھ فیصل عجمی کی تلاش میں اے آئی ٹی آئے تھے۔
عجمی تو کسی پراسرار مشن پر تھا، ہم ان کے ہتھے چڑھ گئے۔ تواضع کے لئے انہیں کیفیٹیریا لے گئے۔ داخل ہوتے ہی ماما کے سٹال پر پہچان کے لئے لگائے گئے خانہ کعبہ کے فریم پر ان کی نظر پڑی تو ایک یلا بولا "تو یہ ہم سے پہلے یہاں بھی پہنچ گیا"۔ ضیائی خلافت اپنے عروج پر تھی۔ دوسرا گویا ہوا "ایک تو ہم تمہارے امیرالموٴمنین سے بہت تنگ آئے ہوئے ہیں، روز منہ اٹھائے آ جاتا ہے۔
ہم اس کو کہنے والے ہیں، "اسے لے جاوٴ اور لاہور میں کھڑا کر دو"۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلاتے کیا، کے مصداق ہم نے منہ میں کافی ڈال کر چپ سادھ لی اور ان کے جانے کی گھڑیاں گننے لگے۔ ریستوران کے اندر گئے تو ایک جانب تاج محل کھڑا تھا تو دوسری جانب مینار پاکستان، پیچھے کہیں صبح بنارس بھی غسل نیم آفتابی میں دمک رہی تھی۔ گویا باغبان اور صیاد دونوں کو خوش رکھنے کا مکمل سامان موجود تھا۔
تسلی کے لئے کاوٴنٹر سے ڈاک خانہ ملایا تو مالک پکا لہوڑیا نکلا۔ پھجے کے پائے تو نہ ملے مگر کھانے کا سواد آ گیا۔ ہمارے لئے فرج سے پان بھی نکل آئے۔ ہم نے خود کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا کہ اب جو کرے کرتار۔ ڈاکٹر اِوامی نے مالک سے کچھ اور طرح کی معلومات حاصل کیں۔ اپنے جائزے اور نئی معلومات کے ساتھ وہ ملاتے کا ماہر بن چکا تھا۔ وہاں سے نکلے تو ڈاکٹر اِوامی سیدھا ایک گوگو بار میں جا گھسا مگر اب اس نے ہمیں باہر کھڑا ہونے کی زحمت نہ دی۔
فلور پر بدن تھرک رہے تھے، لچک رہے تھے۔ لاوٴڈ میوزک میں کان پڑی آواز سنائی دیتی تھی نہ گھومتی ڈسکو روشنیوں میں رستہ دکھائی دیتا تھا۔ ڈاکٹر اِوامی نے مینیجر کے کان میں جانے کیا پھونکا کہ فوراً تین نیم ملبوس قتالائیں ہمیں اپنے جلو میں ایک تاریک گوشے کی جانب لے گئیں جہاں سے فلور کا منظر سب سے واضح نظر آتا تھا۔ ڈاکٹر نے سرگوشی میں بتایا "اب تم عرب شہزادے ہو اور انگریزی سے نابلد۔
میں تمہارا مینیجر ہوں، اب تم نے جو بھی بات کرنی ہے میری وساطت سے کرنی ہے"۔ شہزادے کا اعزاز پا کر جو راحت ہوئی تھی وہ اس کی اگلی بات سن کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر کو ہم بھولا سمجھتے تھے مگر وہ تو بڑا کائیاں نکلا۔ اب جو کرنا تھا اس نے کرنا تھا اور ہم نے گونگے وٹے کی طرح بس اسے دیکھتے رہنا تھا۔ San Miguel کے جھاگ دار شربت والے گلاس آئے مگر ہم نے کوک اور سپرائٹ کے کاک ٹیل سے ماحول کے رنگ میں خود کو رنگنے کا اہتمام کر لیا۔
ڈاکٹر اِوامی کی آنیاں جانیاں دیکھنے والی تھیں۔ وہ نہ صرف سب کو باری باری فلور پر لے جاتا رہا بلکہ درمیانی وقفے میں پوری دلجمعی سے جامہ تلاشی کا فرض بھی نبھاتا رہا اور ہم عربی گھُگو گھوڑے شہزادگی کے خمار میں ہی مست رہے۔ ایسے ہی ایک عمل کے دوران اس نے ایک ایسا خزانہ تلاش کر لیا جس نے کم از کم مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ خزانے والی نے خزانہ بچانے کی اپنی سی کوشش کی مگر ڈاکٹر نے اسے بے بس کر کے خزانہ مجھے منتقل کر دیا۔
یہ یونیورسٹی کا شناختی کارڈ تھا۔ میں نے بلا سوچے سمجھے عربی شہزادے کا چولا اتار دیا اور لگا سوال جواب کرنے۔ وہ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر کر رہی تھی (اور شاید اس سے بہتر اپرنٹس شپ اسے کہیں نہیں مل سکتی تھی)۔ اس نے بتایا کہ دو راتوں ہی میں وہ اتنا کما لیتی تھی کہ اسے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
بقول اس کے اس کلب کی وجہٴ شہرت ہی یہ تھی کہ وہاں سب ورکرز کا تعلق یونیورسٹی سے تھا اور ان کی 'عزتیں' محفوظ تھیں۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے منگوائے ہوئے ڈرنکس میں ان کا بھی حصہ ہے تو ہمیں بار بار پیاس لگنے لگی۔ اس رات ہم نے کوک اور سپرائٹ سے خدمت خلق کے جذبے کی خوب تسکین کی اور ڈاکٹر اِوامی کی جیب سے اپنی بے بسی کا بھرپور انتقام لیا۔ ادھر ڈاکٹر اِوامی کی آنکھیں بدستور بہک رہی تھیں، ہاتھ لہک رہے تھے اور وہ خود چہک رہا تھا۔
ادھر کوک اور سپرائٹ نے ہماری دوڑیں لگوائی ہوئی تھیں۔ رات کے بارہ بج رہے تھے اور اگلی صبح ہمیں باگیو سٹی جانا تھا۔ ہم بار بار پہلو بدل رہے تھے لیکن ڈاکٹر اوامی 'رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے' کی مجسم تصویر بنا بیٹھا تھا۔ ملک اور میں نے گٹ مٹ کی کہ اس سے پہلے کہ منی چینجرز پیسو سمیٹ کر چل دیں ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ ملک تو منی چینجرز کے پاس چلا گیا اور میں لگا ڈاکٹر اِوامی کا انتظار کرنے۔
دس بارہ سال کا ایک لڑکا، کہ جس کے موڈھے پہ رومال تھا نہ سر پر ترچھی ٹوپی اور نہ ہی منہ میں گلوری، بار بار میرے ارد گرد ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں "مال چاہیے؟" کی صدائیں لگانے لگا۔ میں نے نظر انداز کیا، رخ موڑا، مگر مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال بے نیازی۔ وہ بولتا رہا Very young, beautiful, lovely بالآخر ملک کو آتے دیکھ کر میں نے اسے کہا "اچھا مال شو کراوٴ" اس خیال سے کہ اس کے آنے تک ہم ادھر ادھر ہو جائیں گے۔
مگر یہ کیا اِدھر ملک پہنچا اُدھر وہ آن ٹپکا۔ پیچھے پیچھے عام سے لباس میں وہ غیرت ناہید کہ جس پر جوانی کی نعمت نے ابھی پہلا رنگ ہی اتارا تھا۔ مشکل سے اس کی عمر تیرہ چودہ سال ہوگی۔ میرے سر سے پاوٴں تک ایک سرد سی لہر دوڑ گئی۔ "اچھا تو میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے" ملک نے آتے ہی کمنٹ داغ دیا۔ "ملک اب تم جانو اور تمہارا کام، میں نے تو اپنی سی کوشش کر لی ہے، یہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا"۔
ملک نے اسے اپنے سٹائل میں سمجھانے کی بہتیری کوشش کی "دیکھو ہم تین ہیں" "تو پھر کیا ہوا؟" "اچھا کیا لو گے؟" "سو پیسو فی کس" "نہیں یہ تو بہت زیادہ ہیں، ہم تو پچاس دیں گے پوری رات کے" پھیری والے پٹھان کی طرح خاصی توتکار کے بعد وہ پچاس پر ہی اس شرط پر مان گیا کہ صبح سات بجے سے پہلے فارغ کر دینا۔ "مگر وہ کیوں؟" "کیونکہ ساڑھے سات بجے اس نے سکول جانا ہے" ایک بار پھر میرے سریر میں سرد لہر دوڑ گئی۔ ہم نے دور سے ڈاکٹر اِوامی کو آتا دیکھ کر ان دونوں کو کھڑے کھڑے پچاس پیسو دے کر بھگا دیا۔ اس رات مچھروں اور کھٹملوں کی مسلسل دست درازیوں کے باوجود ہمیں بڑی پُرسکون نیند آئی۔

Browse More Urdu Literature Articles