Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part Two ... Ali, Amilda, Rizal Park Aor Padri - Article No. 1438

Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part Two ... Ali, Amilda, Rizal Park Aor Padri

چند دن امیلڈا کے دیس میں قسط دوئم ۔۔۔۔ علی، امیلڈا، رِزال پارک اور پادری - تحریر نمبر 1438

سنجے کے سامنے پیتل کی کٹوریوں میں اور ہم ملیچھوں کے سامنے کیلے کے پتے پر کھانا پروسا گیا تو ہمیں اپنی اوقات کا پتہ چلا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ بدھ 16 اگست 2017

خودی کو بلند کرنے والی ایئرپورٹ کی استقبالیہ تقریبات کے بعد سفر کی تھکن ایئرپورٹ پر چھوڑ کر نکلے تو بے ہنگم ٹریفک کے باوجود شہر کی بتیاں بھلی لگ رہی تھیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد بس جہاں لے گئی اسے دیکھ کر خود پر ترس آنے لگا۔ چوتھے درجے کا گیسٹ ہاوٴس دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہمارا منتظر تھا۔ کمرے میں پہنچے تو کوٹھے تے پِڑ کوٹھڑا کی طرح چارپائی پر چارپائی ہماری منتظر تھی جس پر چڑھنا کھجور کے درخت پر چڑھنے کے مترادف تھا اور بیچ سے گزرنا پل صراط پر سے گزرنے کے۔

کبھی خود کو کبھی پریسی کو دیکھتے تھے۔ آخر رہا نہ گیا اور پریسی سے پوچھ ہی لیا "تو تمہارے ہاں خاتوِن اول کے مہمانوں سے ایسا شاہانہ سلوک کیا جاتا ہے؟"۔ پریسی بے چاری بتا بتا کر ہلکان ہو گئی، اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔

(جاری ہے)

اس جگە قیام کا حاصل علی سے ملاقات تھی۔ علی کو ریسیپشن سے ہمارا پتہ چلا تو ہم سے ملنے یا ہمارا تماشا کرنے کمرے میں آ گیا۔

علی عمر میں ہم سے دوگنا مگر تجربے میں سو گنا تھا۔ ایبٹ روڈ پر ٹی وی سنٹر کے بازو میں قالینوں کی دکان بیٹوں اور الله کے حوالے کرکے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے پلانے کے بعد آجکل یہاں والوں کو فیض یاب کر اور ہو رہا تھا۔ ہمیں گرائیں جان کر بن پوچھے بطور صدقہٴ جاریہ اپنے تجربوں سے مستفید کرنے لگا۔ پاکستان سے دو چار دستی قالین لا کر نودولتیوں کو بیچتا اور یہاں کی برکات سے فیض یاب ہوتا۔
قالین بک جاتا تو شہنشاہ ہوتا اور وہی کچھ کرتا جو ہمارے ہاں کے شہنشاہوں کا شیوہ رہا ہے یعنی دن کو رات کی طرح اور رات کو آخری رات کی طرح گزارتا۔ بہترین فلیٹ لے کر سیدھا رِزال پارک کا رخ کرتا۔ گھوم پھر کر من پسند قُمری کو جال میں پھنساتا، تَر ڈنر کرواتا اور پھر رب تیری یاری۔ بقول اس کے جہاں بھی گیا روٹی پانی اور چھتر چھایا کے عوض ایسی لاجواب فل سروس کہیں نہیں ملی۔
جب جی اوبھ جاتا تو فلیٹ بدل کر پھر سے پیاس بجھانے رِزال پارک کے چشمے پر جا اترتا اور جب پھانک ہو جاتا تو اپنا بیگ اٹھا کر کسی ایسی ہی جگہ پر دم لینے کو جا اترتا، نئے قالین آنے تک۔ یہاں وہ دم لینے کو رکا ہوا تھا۔ ابھی اس کا سبق جاری تھا کہ ملک نے اشارہ پا کر اس سے قریبی ریستوران کا پوچھ لیا جہاں ہم بے جھجک ہو کر پیٹ کی پکار کا جواب دے سکتے۔
رستہ سمجھ کر اور سنجے کو ساتھ لے کر ہم ایک ساوٴتھ انڈین ریستوران میں جا اترے، جہاں دو قومی نظریے نے ہمارا پر تپاک سواگت کیا۔ سنجے کے سامنے پیتل کی کٹوریوں میں اور ہم ملیچھوں کے سامنے کیلے کے پتے پر کھانا پروسا گیا تو ہمیں اپنی اوقات کا پتہ چلا۔ مِرچی کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ بھی اسی روز ہوا۔ واپسی پر آئس کریم کھانا اس لئے نہ بھولے کہ 'کم آن آئسکریم' کہہ کر صبح کو رات کے فسانے کی تاثیر کی شدت میں کچھ کمی لا سکیں۔
وہ رات بھی کیا رات تھی، اوپر مچھر نیچے کھٹمل، بیچ میں شاہی مہمان۔ کاش علی ہمیں رزال پارک کے چشمہٴ فیض اور دستی قالینوں کے کمالات کی بجائے یہاں شب بسری کا کوئی نسخہ بتا جاتا تاکہ اگلا دن ہم بس میں خراٹوں کی زبان میں بیتی رات کا فسانہ کہنے کی بجائے پریٹی اور اس کی ہمجولیوں کی کمپنی میں گزار سکتے۔ صبح پریٹی اور ہمجولیاں آئیں تو ہم پھر سے شاہی مہمان کے رتبے پر فائز ہو گئے۔
اسی حیثیت میں ہمیں دربار شاہی میں لے جانے کی نوید سنا دی گئی۔ منسٹری میں پہنچے تو ہمیں ایک لمبی استقبالیہ قطار کے سامنے سے گزارا گیا، "ارے یہ کیا یہاں تو سبھی پریٹی ہیں اور پٹِیٹ بھی، لگتا ہے علی سچا ہے، اس ملک میں صنف کرخت کی شدید کمی لگتی ہے"۔ آراستہ کمیٹی روم میں ہمیں تفصیل سے وزارت کی کارکردگی اور منصوبوں کے بارے میں بتانے کے بعد استقبالی ظہرانہ دیا گیا ( بیچ بیچ میں ایک ٹیپ کا مصرع سننے کو ملتا جس کی ردیف تھی مسز امیلڈا مارکوس)۔
بریفنگ تو ہم نے جاگتے سوتے سنی مگر ظہرانے میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ شرکت کی۔ ظہرانے کے بعد خاتون اول سے ملاقات کی وعید دی گئی تھی سو ہمیں باادب، باملاحظہ، ہوشیار رہنے کی ہدایات کمیٹی روم میں ہی دے دی گئی تھیں۔ شاہی دفتر کے باہر وسیع لاوٴنج میں انتظار کی گھڑیاں طویل تر ہو گئیں تو مادام امیلڈا آئیں مگر اس سے بہتر تھا کہ نہ ہی آتیں۔
نہ ہمارا حال پوچھا، نہ ون آن ون ڈنر کا وعدہ کیا، نہ اپنے جوتوں کی تعداد بتائی اور یہ جا وہ جا۔ اور نہیں تو شبِ اولیں میں منیلا کے مچھروں اور کھٹملوں کے خیرمقدمی مکالموں کے لئے کلمہٴ تحسین ہی کہہ جاتیں۔ جاتے جاتے البتہ یہ نوید ضرور دے گئیں کہ آپ کا یہ دورہ یادگار رہے گا۔ یہ ان کی واحد بات تھی جو ہمیں پسند آئی ورنہ تو انہوں نے ہاتھ بھی دستانوں کی اوٹ سے ملاۓ تھے۔
وہاں سے نکلے تو پریٹی نے ازالہ یوں کیا کہ ہمیں سیدھا رِزال پارک لے گئی، وہی جس کے بارے میں علی نے پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ منیلا کا پک اپ پوائنٹ ہے۔ منیلا بے کے کنارے ڈاکٹر ہوزے رِزال کی یاد میں بنے اس پارک کا استعمال وہی تھا جو ایک ٹی وی پروگرام کے مطابق آج کل قائداعظم کے مقبرے کا ہے۔ قومی ہیرو مر کر بھی کیسے کیسے قوم کی دل بستگیوں کا سامان کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر رِزال نے ہسپانوی تسلط سے آزادی کے لئے 1896ء میں جان کی قربانی دی تھی اور اب نوجوانوں کی مادر پدر آزادی کے لئے مستقل فورم مہیا کر رکھا تھا۔ اگرچہ چھٹی کا دن نہیں تھا مگر نوجوان خاصی معقول تعداد میں اپنے اپنے انداز میں آزادی کی برکات سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ ہم نے سوچا ہائے نہ ہوا ہمارے پاس کوئی دستی قالین ورنہ ہم بھی چند دن کے شہنشاہ بن جاتے۔
وہیں ہماری ملاقات ایک پاکستانی مسیحی نوجوان سے ہوئی جو قریب ہی واقع کرسچین یونیورسٹی میں مذہب کی تعلیم حاصل کر رہا تھا (ان دنوں اس کا شمار پاکستان کے بڑے پادریوں میں ہوتا ہے)۔ اس نے بھی علی کی بات کی تائید کی مگر بااندازِ دگر۔ وہ پارک میں ایسی ہی کسی مار پر آیا ہوا تھا۔ ہوسٹل میں رہنے والے اور لگژری اپارٹمنٹ میں رہنے والے کے تجربات میں کچھ تو فرق ہونا بھی چاہیۓ۔
فورٹ سنتیاگو پارک کے قریب ہی واقع تھا۔ بنایا تو اسے پانی کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں سے walled city کے دفاع کے لئے گیا تھا مگر اس کا زیادە تر استعمال ہمارے ہاں کے شاہی قلعے کی طرح ہوتا رہا۔ اس کی دیواریں آزادی کے ہزاروں متوالوں کے خون سے دھلتی رہیں اور ڈاکٹر رِزال سمیت بہت سے دوسرے تارا مسیحوں کے دستِ ہُنرور کو جلا بخشتے رہے۔ یہ قلعہ ہمارے ہاں کے قلعوں کے پاسنگ بھی نہیں تھا، بارہ دریاں نہ جھروکے، شیش محل نہ دربارِ عام و خواص، پھولوں کی روشیں نہ موتی برساتے فوارے، یہ کیسا قلعہ ہے۔
مستقبل کے پادری کے ساتھ ہم جلد ہی باہر آگئے۔ اور اس کی علمی اور عملی کارروائیوں کی مزید تفصیل جاننے لگے۔ وارداتیں تو موصوف کی بھی کچھ کم نہ تھیں مگر اس میں اس کا کمال کم اور تثلیث کا زیادہ تھا۔ سچ ہے 'کاں کانواں دے تے بھرا بھرانواں دے'۔ معاملہ کارہائے نمایاں کی گنتی تک ہی پہنچا تھا کہ پریٹی نے وسل بجا دی۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہو لیا۔
کہتے ہیں ماضی کا رشتہ حال کے ساتھ استوار رہنا چاہیے۔ اسی نسبت سے سامنے منیلا بے کے عین اوپر بگونگ سلانگ میں چلتے پھرتے مردوں کا ایک انبوہ کثیر کسی شاہی قلعے میں نہیں شاہی تعفن میں دفن ہے۔ ایشیا کے اس سب سے بڑے SLUM کے بارے میں بتاتے ہوئے پریٹی کی آواز میں تفاخر سب نے محسوس کیا، آخر کیوں نہ ہوتا کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا، لاکھوں کی تعداد میں انسان نامی حشرات الارض اس بستی میں زندگی کی سزا بھگت رہے تھے۔
کچھ دن پہلے آنے والے ٹائیفون ارما کے اثرات ابھی باقی تھے اور ایک اور ٹائیفون کی آمد آمد تھی مگر اس تعفن میں بھی زندگی کی لہر اسی طرح دوڑ رہی تھی جیسی ہم رِزال پارک میں دیکھ کر آ رہے تھے۔ ایک بات جس پر سبھی کا دھیان گیا یہ تھی کہ شاید ہی کوئی جُھگی ہو جس پر ٹی وی اینٹینا نہ لہرا رہا ہو۔ یوں لگتا تھا جیسے یہاں زندگی کی واحد بنیادی ضرورت ٹی وی تھا۔
ناک پر ہاتھ رکھے ہم فلپینیوں کی اس بات کی داد دیتے باہر آگئے کہ کم از کم انہوں نے اس رخ کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ورنہ اپنے ہاں تو امدادی وفود کی آمد پر قناتیں تاننے کا رواج رہا ہے۔ ڈاکٹر اِوامی بھی ہمارے پیچھے ہی آ گیا "تم اپنا شاہی لباس لائے ہوئے ہو نا؟" ڈاکٹر اِوامی نے ملک اعجاز سے پوچھا۔ بات ملک کے پلے نہ پڑی تو اس نے ہونقوں کی طرح میری طرف دیکھا۔
"ڈاکڑ اِوامی تم شلوار قمیض کا تو نہیں پوچھ رہے؟"۔ "ہاں ہاں وہی۔ شام کو وہ پہن لینا ہم کہیں چلیں گے اور ہاں کسی کو بتانا بالکل نہیں"۔ میں نے ڈاکٹر کو علیحدہ لے جا کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا بتایا کہ ملاتے جانا ہے۔ مسیحی بھائی نے بھی مشورہ دیا کہ آئے ہو تو ضرور دیکھنا، ویسے بھی تمہاری رہائش کے قریب ہے۔ جب ہم واپس کمرے میں پہنچے تو شام ہو چکی تھی۔
جاتے ہی اپنے اپنے کھجور کے درخت پر لم لیٹ ہو گئے۔ ابھی پہلا خراٹا بھی نہیں لیا تھا کہ ڈاکٹر اِوامی آ دھمکا۔ چار و ناچار اٹھے اور خلعتِ فاخرہ پہن کر نیچے اتر آئے۔ ڈاکٹر اوامی ریسیپشن میں نقشہ اور پرفیوم پکڑے ہمارا منتظر تھا۔ "مجھے پتہ تھا تم پاکستانیوں کو اپنے علاوہ کوئی بُو پسند نہیں مگر ضروری تو نہیں کہ دوسرے بھی اسے پسند کریں" اور لگا ہم پر خوشبو کی بارش کرنے۔ لورنا کہیں نزدیک کھڑی دیکھ رہی تھی، "کہاں جا رہے ہو، کدھر کا خیال ہے"۔ اس نے پوچھا۔ "بس قریب ہی ڈاکٹر اِوامی کو مرچوں والا کھانا کھلانے لے جا رہے ہیں، تم بھی چلو گی؟"۔ "نہیں تم جاوٴ"۔ مجھے پتہ تھا مرچ کا لفظ اس کے لئے ویسے ہی تھا جیسے شیطان کے لئے تعوذ۔

Browse More Urdu Literature Articles