Jaanat Ka Pedaishi Dost - Article No. 1749

Jaanat Ka Pedaishi Dost

جنات کا پیدائشی دوست - تحریر نمبر 1749

علامہ لاہوُتی پُراسراری کی جنات کے ساتھ بسر سچی آپ بیتی کا پُر اسرار سفر

جمعرات 16 اگست 2018

علامہ لاہوتی پر اسراری
ہماری زندگی ایک حادثے نے تہہ وبالا کردی ۔ہم میاں بیوی سخت ذہنی ومالی مسائل کاشکار ہوگئے ۔کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا ۔گرمیوں کے دن تھے ۔سورج صبح 6بجے پوری آب وتاب سے چمک رہا ہوتا ۔ایسی ہی صبح سورج کی پہلی کرن میرے چہرے پر پڑی تو میں نے نیند کے عالم میں ایک بارعب آوازسنی ۔وہ کہہ رہی تھی ”تم مشکلات کا شکار ہو‘اسلئے سورہ یوسف پڑھو ۔

حضرت یوسف بھی چاہ یوسف میں مشکلات سے گھرے تھے ۔“ چاہ یوسف ایک ایسا لفظ ہے جو میں نے کبھی نہیں استعمال کیانہ ہی یہ لفظ مجھے یاد تھا ۔میں نے اپنے خاوند کو کہا کہ لگتا ہے حالا ت کا اثرمیرے ذہن پر ہوا ہے اور مجھے غیبی آوازیں احکامات دے رہی ہیں ۔یہ کہہ کر میں پھر سو گئی لیکن وہ آواز پھر سے میرے کانوں میں گونجی ”یہ وہم نہیں ‘حقیقت ہے ۔

(جاری ہے)

“سورہ یوسف پڑھنے کا پر اسرار حکم:میں قرآن مجید کووطائف کی کتاب نہیں سمجھتی ‘یہ کتاب ہدایت ہے ‘اسے سمجھ کر پڑھنا چاہئے ۔جیسے قانون کی کتا ب کو رٹا مارنے سے کوئی فائد ہ نہیں ۔اسی طرح قرآن کی فہم وفراست کو سمجھنا ضروری ہے ۔بہر حال میں نے سورہ یوسف باتر جمہ تلاوت کی ۔حیرت انگیز طور پر سورہ کا اطلاق میرے حالت پر ہوتا تھا ۔سورہ یوسف بہت دلنشیں انداز میں تسلی وتشفی دیتی ہے۔
میں اسے ہر روز پڑھتی تھی ۔رفتہ رفتہ ہمارے مسائل اس سہولت کے ساتھ حل ہوئے جس کی مثال بھی نہیں ملتی ۔اس واقعہ کے متعلق میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ انسانی ذہن بہت گنجلک ہے ۔غیر معمولی حالات میں انسانی ذہن بھی ماورئے عقل انداز میں کا م کرتا ہے ۔میں نے قرآن کئی مرتبہ باترجمہ پڑھا ہے ۔یوں ذہن کے پوشیدہ گوشے میں یقینا سورہ یوسف محفوظ ہوگی ۔
چونکہ غیر معمولی حالات میں میرا ذہن تسلی کے بول الہامی قوت سے سننا چاہتا تھا ۔اسلئے اس نے مجھے سورہ یوسف پڑھنے کو کہہ دیا ۔دردسر بننے والی کزن :2006ء میں میری سہیلی مجھے امریکہ سے ملنے آئی ۔اس کی ایک کزن اسے ملنے پاکستان سے امریکہ آنے والی تھی ۔وہ اس متعلق باتیں کر رہی تھی ۔مجھے ایسے لگا کہ وہ کزن میری سہیلی کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے ۔
میں نے اسے یہ بات بتائی تو وہ ناراض ہوگئی ۔بولی ‘ تم کون ہوتی ہو یہ کہنے والی کہ میری کزن میرے گھر نہ آئے ۔میں خود بھی یہ بات سمجھتی تھی لیکن خود کوروک نہ پائی ۔بعد میں کزن واقعی میری سہیلی کیلئے درد سر بن گئی ۔ میں آج تک نہیں جان پائی یہ خیال مجھے کیسے آیا ؟ابو پر مصیبت آنے کا احساس: 2005ء میں مجھے ایک نامعلوم وہم نے گھیر لیا کہ ابو پر کوئی مصیبت آنے والی ہے ۔
ہر وقت یہ احساس گھیرے رہتا ۔ایک روز میں بر منگھم گئی اور ابو کے کپڑے نکال کر استری کرنے لگی ۔امی کو حیرت ہوئی کہ میں کیوں ایسا کررہی ہوں ۔مجھے خود بھی معلوم نہ تھا ۔اکتوبر 2005ء میں ابو کودل کی بیماری کی وجہ سے کئی ماہ ہسپتال میں رہنا پڑا ۔مجھے یقین ہے کہ میں نفسیت میں مبتلا نہیں ‘ اس بیماری میں انسان کو نامعلوم جگہ سے ہدایت ملتی ہیں اور انسان عجیب وہم کا شکار رہتا ہے ۔
نفسیت شیز وفر ینیا کے مریضوں میں بھی ملتا ہے ۔اس عرض کی کیفیا ت میں آزردگی اور خوف وہرا س کا پایا جانا عام ہے نشہ آور ادویات اور شراب وبھنگ کے عادی بھی نفسیت کا تجربہ کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں مزاروں پر جعلی پیر یہ اشاء استعما ل کرتے ہیں ۔عوام ان باتوں کو ” واردات “سمجھتے ہیں حالانکہ یہ افراد نشے کے تحت ایسی کیفیات کا تجربہ کرتے ہیں اور ہوش میں نہیں ہوتے ۔
اسلام آباد کی رہائش گاہ میں کون گھس آیا ؟1990ء کی دہائی میں ہماری رہائش اسلام آباد میں تھی ۔وہ بہت خوبصورت تھی اور حیرت انگیزطور پر انتہائی مناسب قیمت پر خریدی گئی ۔کچھ عر صہ بعد غیر معمولی واقعات رونما ہونے شروع ہوئے ۔ایک روز ہم سب ٹی وی لاؤ نج میں بیٹھے تھے ۔کمرے کے جالی دار دروازے سے باغ نظر آرہاتھا ۔اچانک میرا بھائی یہ کہتا ہوا باہر بھاگا ”ارے یہ کون اندر گھس آیا ۔
“ہم سب بھی بھاگے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا ۔اس کا کہنا تھا کہااس نے ایک لڑکے کو سر جکا کر دروازے کے سامنے سے گزرتے دیکھا ۔یہ منظر بہت واضح تھا اور بھائی کو خدشہ تھا کہ کوئی چو رگھر میں گھس آیا ہے ۔اس واقعہ کو آپ وہم سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ایسا وہم عام ہے لیکن عموماََ یہ تنہا افراد کو پیش آتا ہے کیونکہ وہ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں ۔دن میں اس کا جنم لینا نا ممکن تو نہیں لیکن غیر معمولی ضرور ہے ۔
ٹیپ میں شرارت :میری سہیلی نور ین سجنے سنورنے کی رسیا ہے ۔اسے اور مجھے ایک شادی میں جانا تھا ۔یہ شادی گرمیوں میں تھی ۔ہم تیار ہورہے تھے اور کمرہ بندتھا ۔دھوپ سے بچاؤ کیلئے ہم نے کھڑکیاں بند کرکے دبیز ر دے تان دیے تھے ۔ایسے میں ہم نے ٹیپ ریکارڈ چلادیا کہ گانے سن سکیں ۔گانا چل رہاتھا کہ ایک مرد انہ آواز نے شرارت بھری آواز میں گانے کے ساتھ سر ملانے شروع کردیے ۔
میں اور نورین ہنس پڑے کیونکہ ہم سمجھے کہ کسی نے شرارت سے ٹیپ بھر دی ہے ۔نورین نے فرمائش کی کہ ٹیپ واپس کرکے گانے کو پھر سے سناجائے کیونکہ وہ شرارت اسے اچھی لگی تھی ۔ہم ہم نے پوری ٹیپ واپس کی لیکن وہ آواز اس میں نہیں تھی ۔ہم بہت حیران ہوئے ۔ساتھ ہی ہم نے سوچا کہ اگر کسی نے شرارت سے آواز ریکارڈ کی تھی تو اسے گانے کی جگہ ریکارڈ ہونا چاہیے تھا ‘بھلا گانے کے ساتھ ساتھ کیسے ریکارڈ نگ ہوسکتی ہے؟گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تھا جس کی آواز سنائی دے سکتی ۔
ہم آج بھی یہ واقعہ یاد کرتے ہیں لیکن کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔البتہ نورین جب بھی ہمارے گھر رہنے آتی ‘شکایت کرتی کہ رات کو کوئی اسے اٹھاتا اور اسے تنگ کرتا ہے ۔ہم اس کی لا پرواطبعیت کی وجہ سے اس کا یقین نہیں کرتے تھے لیکن ہمیں یقین کرنا ہی پڑا جب سلیم نے یہ واقعہ ہمیں سنایا ۔سلیم میرے بھائی معظم کا دوست ہے ۔وہ دونوں 2002ء میں مل کر گھر کا سامان باندھ رہے تھے ۔
سلیم بر طانوی شہری ہے ۔سلیم کے بقول وہ گھر میں سامان باندھ رہا تھا کہ اچانک اس کے قریب کوئی باتیں کرنے لگا ۔سلیم حیران ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ۔لیکن اسے کوئی نظر نہیں آیا ۔سلیم کافی دیر تک انجانے آدمی کی باتیں سنتا رہا ۔کچھ اسی طرح کی صورتحال معظم کو بھی پیش آئی ۔صبح کے وقت وہ ٹی وی لاؤنج میں سو رہاتھا کہ کسی غیر مرئی قوت نے اس کے کان کے قرب ریڈیو کھول دیا اور اسے ٹیون کرنے لگا ۔
بقول معظم یہ آواز انتہائی غیر معمولی اور واضح تھی یہاں تک کہ گھبرا کر اسے باہر نکلنا پڑا ۔اس قسم کے واقعات کی تو جیہہ یہی ممکن ہے کہ ہمارے درمیان ایسے جاندار موجو د ہیں جو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتے مثلا خورد بینی جر ثومے،یہ ننھیمنے جر ثومے تباہی کا سبب بن سکتا ہیں۔مثلا ٹی وی کے جرا ثیم یا ایٹمی دھما کہ وغیرہ سے سب واقف ہیں ۔اسی طرح عین ممکن ہے کہ ایسی غیر مرئی مخلوق موجود ہے جسے دیکھنے کیلئے خاص آلہ ایجاد کرنا پڑے ۔
یاد رہے کہ انسانی دنیا تین طرفہ ہے ‘ یعنی یہ دنیا چوڑائی ‘لمبائی اور موٹائی پر مشتمل ہے ممکن ہے کہ جس مخلوق کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں وہ دو رخی ہواور اسلئیے انسانی آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی ۔لیکن یہ جو بھی مخلوق ہے اس سے ڈرنا شرف انسانیت کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے ۔انسان مادی ‘سائنسی اور روحانی مدارج کے بہت اعلیٰ مقام پر فائز ہے ۔
یہ مخلوق ہمارے محتاج ہو سکتی ہے لیکن ہم اس کے محتاج نہیں ۔آخر ہم نے یہ مقام اس کی مدد سے تو نہیں حاصل کیا بلکہ اول تو بنانے والے رب نے انسان کو اعلیٰ بنایا ‘دوم یہ ترقی انسانی دماغ کی مسلسل کو شش کا نتیجہ ہے ۔(بحوالہ اردو ڈائجسٹ ) (مراسلہ گلاب خان ‘محسن ) یہ 1958ء کا سن تھا ۔ہم چند ماہ قبل ہی سعودی عرب سے لاہور منتقل ہوئے تھے ۔لاہور چھاؤنی کے جس گھرمیں رہائش پذیر ہوئے اس کا رقبہ 5کنال پر مشتمل تھا ۔
ایک کنال پر گھر کی تعمیر تھی اور باقی رقبہ گھاس سے ڈھکے ہوئے بڑے بڑے قطعات پر مشتمل تھا ۔دسمبر کا مہینہ تھا اور ان دنوں لاہور میں اس مہینے بھی سردی کا موسم سخت سرد اور شدید ہوا کرتا تھا ۔ہمارے دوماموں بھی اپنے خاندان سمیت اسی گھر میں رہائش پذیر تھے ۔گھر کی طرز تعمیر وکٹورین طرز کی تھی ۔یہ گھر کسی انگریزی نے برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے قبل تعمیر کرایا تھا ۔
تقسیم پرجلدی میں فروخت کر کے انگلینڈ سدھا رگیا تھا۔ ہم نے جس شخص سے گھر خریدا‘ انہیں گھر فروخت کرنے کی بہت عجلت تھی۔ وہ کوئی مناسب تو جیہہ تو پیش نہ کرسکے ‘بس یہی بتایا کہ وہ یہاں بے چینی محسوس کرتے ہیں ۔خیر یہ دسمبر کی سردیوں کی رات تھی ۔بجلی ان دنوں بھی جاتی تھی اور بجلی جانے کی صورت میں زیادہ تر لالٹین استعمال کی جاتی ہیں ۔
اس وقت بھی بجلی گئی ہوئی تھی اور گھر کے مرد حضرات بوجوہ گھر سے باہر تھے ۔گھرکی تمام خواتین ‘بچوں سمیت گھر کے وسطی بڑے کمرے میں آتشدان کے گرد قالین پر منڈلی جمائے ہوئے تھیں۔ان دنوں ”ہتھوڑا گروپ “کی بہت دہشت تھی جو رات کی تاریکی میں ہتھوڑے سے لوگوں کے سر کچل دیا کرتا تھا ۔اس وقت بھی یہی موضوع زیر بحث تھا جس کے پیش نظر ماحول میں ایک عجیب پراسراریت اورخوف کی فضا سرایت کر گئی تھی جس سے خائف ہوکر میں اور میری ہم عمر ماموں زاد بڑوں کی نظر سے بچ کرباہر برآمد ے میں آگئے ۔
گھر کانقشہ کچھ اس طرح کا تھا کہ رقبے کے ایک سرے پر داخلی گیٹ تھا اور دوسرے سرے پر گھر کی تعمیر تھی ۔چاند کی معمولی روشنی چارسوپھیلی تھی ۔ہم برآمدے میں دھری کر سیوں پر بیٹھ کر اردگر د کا جائزہ لینے لگے ۔ہمارا رخ داخلی دروازے سے آنے والے راستے کی طرف تھا ۔اچانک وہاں سے ہمیں کوئی شخص آتا ہو ا دکھائی دیا ۔اسلئے کہ داخلی دروازہ نگاہوں سے اوجھل تھا ‘فاصلے اور اندھیرے کی زیادتی کے باعث صرف اس کا سفید لباس نمایاں تھا جس میں وہ سرتا پا ملبوس تھا ۔لباس کی سفید رنگت میں عجیب سا اجلاپن تھا جو اتنی دوری کے باوجو د بھی محسوس ہوتا ۔

Browse More Urdu Literature Articles