Agha Shorish Kashmeeri Marhoom Ki Yaad Mein - Article No. 1795

Agha Shorish Kashmeeri Marhoom Ki Yaad Mein

آغا شورش کاشمیر ی مرحوم کی یاد میں - تحریر نمبر 1795

’’انسانوں میں سب سے زیادہ قابل رحم اور مکروہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹ کو سچ پر ترجیح دیتے ہیں اور انسانی کمزوریوں سے اپنی خواہشوں کو پروان چڑھاتے ہیں ‘‘۔

جمعرات 25 اکتوبر 2018

آغا مشہود شورش
’’انسانوں میں سب سے زیادہ قابل رحم اور مکروہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹ کو سچ پر ترجیح دیتے ہیں اور انسانی کمزوریوں سے اپنی خواہشوں کو پروان چڑھاتے ہیں ‘‘۔یہ بے مثل الفاظ آغا شورش کا شمیری مرحوم کی تحریر کا ایک نادر نمونہ ہیں جو نہ صرف ایک بلند پایہ خطیب تھے بلکہ زبان و بیاں پر قدرت حاصل ہونے کے باعثزندگی بھر وہ لوگو ں کے دل و دماغ پر راج کرتے رہے۔

اپنے عہد کے لوگوں میں سب سے نمایا ں پہلو جو ان کی شخصیت کو ممتاز کرتا ہوا نظر آتا ہے وہ ان کا بے خوف لب و لہجہ اور بے باک اظہار خیال ہے - انگریز کا دور ہو یا انگریزنماملکی حکمرانوں کا غرور ان کی تحریر و تقریر میںیہ دبدبہ خاک میں اُڑتا ہوا نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

1973ء کے آخر میں موچی دروازہ لاہور کے جلسہ عام میں والد ِ محترم کا خطاب اور اس میں بیان کئے گئے کچھ الفاظ آج بھی میرے حافظے میں گونج رہے ہیں - وہ ہر اعتبار سے قدآور تھے ، انہوں نے اپنے مخصوص اندازسے بارُعب آواز میں کہا لوگو !

’’سچ بولنا بڑا خطرناک ہے ، سچ سے زیادہ کوئی شے کڑوی نہیں - سچ کے لیے ہمیشہ دو کی ضرور ت ہوتی ہے ، ایک وہ جو سچ بولے اور دوسرا وہ جو سچ سُنے، سچ تبھی مکمل ہوتا ہے ، یہاں سچ بولنے والے کم اور سننے والے کمیاب بلکہ نایاب ہیں -حضرات اکثر سچائیاں صرف اس لیے ناکام ہوگئیں کہ ان کے پاس طاقت نہ تھی اور بیشتر جھوٹ اس لیے سچ ہوگئے کہ انہیں طاقت نے پروان چڑھایا‘‘ -

پھر کہا کہ لوگو!

’’آج کل سچائی قوت کی مرضی اور حق طاقت کی خواہش کا نام ہو گیا ہے‘‘

آج اس واقعہ کو تقریباََ پینتالیس سال گذر چکے ہیں اور ہم جس دور سے گذر رہے ہیں اور اپنے گردو پیش جن حالات و اقعات سے دوچار ہیں حضرت شورش کاشمیریؒ کے یہ الفاظ حقیقت کا رُوپ لیے نظر آتے ہیں ۔

فرماتے ہیں ؎

جو دل محسوس کرتا ہے اگر تحریر ہو جائے

تو یہ نظمِ مرصّع زلف یا زنجیر ہو جائے

یہ لازم ہو گیا تو موت کو آواز دے لوں گا

قلم میرا وزیر و میر کی جاگیر ہو جائے

وہ کہا کرتے تھے! ؎

’’میرا قلم اُس شخص کو دیا جائے جو اس کو تیشہ کوہکن بنا سکے، جس کو لہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو اور مجھے وہ شخص کفن پہنائے جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو اور جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہو ‘‘

ان کی تحریر و تقریر دونوں میں بے پنا ہ سحر تھا اور یہ جادو اس وقت سرچڑھ کر بولتا ہے ، جب اُن کے مدمقابل حکمران طبقہ یا اس کے حواری ہوتے - شورش کاشمیری کے قلم سے نکلنے والا ہر جملہ اپنے اندر خطابت کا رنگ ،شعر کی حلاوت اور ادب کی گھلاوٹ لیے ہوئے ہے- ان کے جملے ذہن کو مسرت ، رُوح کو تازگی اور نظر کو وسعت مہیا کرتے ہیں ۔
وہ لوگ جو قلم کا کاروبار کرتے ہیں اُن کے بقول !

’’میرے نزدیک وہ تمام ادیب ، شاعر صحافی ، واعظ ، مقرر اور خطیب ہیچ ہیں جنہوں نے جو ہر قلم اور جوہرزبان کو بازار کی جنس بنا دیا ہے اور جن کا خیال ہے کہ انہیں دربارو ں کی چوکھٹ پر پیش کیا جا سکتا ہے - تاریخ میں ان کا مقام صرف اور صرف عبرت ہے‘‘۔ بڑے لوگ بنائے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں اور انہیں مخصوص وقت پر ایک خاص کام کے لیے لایا جاتا ہے- ہر شخص کے لیے رب العزت نے کوئی نہ کوئی فریضہ سونپ رکھا ہوتا ہے - میں سمجھتا ہوں کہ والد محترم آغا شورش کاشمیریؒ کو آقائے دوجہاں حضرت محمد ؐ کی غلامی اور عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری کے لیے پیدا کیا گیا ۔
نبی اکرم ؐ سے اُن کی عقیدت ، محبت اور عشق کی کوئی انتہا نہ تھی- اس حوالے سے اُن کے یہ اشعار پیش خدمت ہیں - ؎

جوتمہارے جی میں آئے جانِ جاں بے شک کرو

ہم کسی ڈر سے سپرانداز ہوں ممکن نہیں

موت سے لڑنا ہی ٹھہرا ہے تو نکلیں سربکف

ہم نواو ، ہم خیال و ، ہمزبان و ہم نشیں

تخت یا تختے پر جب رکھی گئی اپنی نہاد

ہم کسی حجاج بن یوسف سے ڈرسکتے نہیں

پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتا ہوں جلال خسرواں

میرے آقاؐ ، میرے مولا رحمت اللعالمین

حضرت شور ش کا شمیری شمشیرِ بُرہنہ کا رُوپ دھا ر لیتے جب اسلام او ر پاکستان پر کوئی حملہ آور ہوتا- اپنے دین اور ملک سے ان کی والہانہ عشق کا پیمانہ ان کے ان اشعار سے چھلک اٹھتا - ؎

میرے ہمراہی کریں گے اس قدر جانیں نثار

دل کے ٹکڑوں کو شہادت کی دُعا دینی پڑے

اس قدر کر جاؤں گا ماؤں کی محبت کو بلند

مغفرت کی ذرے ذرے کو دُعا دینی پڑے

سرزمین ِ پاک سے ایسے اٹھائوںگا شہید

جن کے مدفن کوزمینِ کربلا دینی پڑے

میں اس حقیقت کا بھی برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میرا قلم والدِ محترم جیسی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے -اُن کے سیاسی ، صحافتی ، ادبی ، خطیبانہ اور شاعرانہ پہلوؤں پر لکھنا یا بولنا انتہائی مشکل ترین کام ہے ، اس کے لیے علم کی وسعت اور نظر کی گہرائی درکار ہے-ایک اعلیٰ پائے کے صحافی اور خطیب ہونے کے ناطے ملک و ملت کیلئے ان کی خدمات اپنی جگہ ،ہمیںان سے ملنے والی محبت بھی وقت ایک ایسے انمول رشتے کی یاد دلاتی ہے ، جس کی تشنگی اور کسک ہم بہن بھائی آج بھی پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔
یہ ایک حقیقت بھی ہے اور المیہ بھی کہ وقت کے بڑے بڑے انسانوں کے پاس اپنی اولاد کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے - انہو ںنے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پس دیوارزنداں گذرا، لہٰذا ہم گیارہ بہن بھائیوں کو والد محترم کی صُحبت بھی اسی نسبت سے کم میسر آئی ،بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں اپنا تخلص ’’شورش رکھوں یا جیل ‘‘ ۔یہ وہ لمحات تھے جب ہم جس جس مقام سے بھی گزرے اپنی والدہ محترمہ کی تربیت اور والد کی دعاؤں کی بدولت عزت پائی - والدہ مرحومہ نے ہمیں والد ِ محترم کی وفات کے بعد اس طرح پالا جیسے کوئی مصّور اپنے شہ پاروں کی رکھوالی کرتا ہے ۔


ــــیوں تو ہر ماں باپ چاہے وہ امیر ہو یا غریب اپنی اولاد کو اپنی بساط کے مطابق ہر نعمت سے آراستہ و مالا مال دیکھنا چاہتا ہے لیکن مجھے اس بات پر نازہے بلکہ ہم سب بہن بھائیوں کو اس بات پر کمال حد تک فخر ہے کہ ہمارے ماں باپ نے ہمیں عشقِ مصطفیٰ کی جو دولت دی وہ تا قیامت ختم نہ ہو گی یہی سرمایہ رگوں میں خون بن کر دوڑتا اوردلوں کو گرمائے رکھتا ہے۔
وہ زندگی ہی کیا جو عشقِ مصطفیٰ سے خالی ہویہی والد محترم کا اوڑھنا اور والدہ محترمہ کا بچھونا تھا۔

والد ِ محترم کی یہ عادت تھی کہ وہ صبح جلد ی اُٹھنے کے عادی تھے - گھر کے باہر لان میں وہ بیٹھتے ، اخبارات کا مطالعہ شروع کر دیتے، مجھے بھی صبح جلد ی اُٹھنے اور اخبار بینی کی عادت اپنے والد محترم سے ملی ہے - صبح ہوتے ہی اُ ن کے لیے تین چیز یں لازم ہوا کرتی تھیں ، اخبارات کا مطالعہ جن میں نوائے وقت سرفہرست تھا ، کشمیری سبز چائے کے ساتھ کلچہ اور پھر محترم مجید نظامی سے ٹیلی فون پر حالات ِ حاضرہ پر تبادلہ خیال - جناب حمید نظامی مرحومؒ اورجناب مجید نظامی سے والد محترم کی دوستی کسی تعارف کی محتاج نہیں - جناب حمید نظامی مرحومؒ کو ہم نے دیکھانہیں صرف والد ِ محترم سے سنا ہے کہ وہ حقیقتََا جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے میں رَتی بھر نہیں چونکتے تھے، لیکن محترم مجید نظامی سے اُن کا اخلاص ، دوستی ، محبت اور احترام کے رشتے کو بہت قریب سے دیکھا بھی ہے اور مجھے یہ کہنے میں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ کہ جناب مجید نظامی نے اُ س رشتے کو اپنی وفات تک زندہ رکھا -بلاشبہ وہ ان گنت خوبیوں کے مالک تھے اور اپنے عہد کے اکابرین میں اللہ تعالیٰ نے انہیں تحریر و تقریر میں جو مقام دے رکھا تھا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے - علم و اد ب ہو یا صحافت و سیاست کا میدان ، اُن کا جداگانہ طرز تحریر اور منفرد انداز اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ بڑھتا دکھائی دیتاہے،جس کی نئی نسل میں بھی ہمیشہ اس طرح آبیاری ہوتی رہے گی۔

Browse More Urdu Literature Articles