Ashfaq Ahmad Urdu Adab - Article No. 1446

Ashfaq Ahmad Urdu Adab

اشفاق احمد - اردو ادب - تحریر نمبر 1446

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ظاہری وباطنی دنیاؤں کا مطالعہ کیا جائے کیونکہ شخصیت کی تعمیر میں جہاں جبلی اور فطری عناصر کارفرما ہوتے ہیں ، وہیں خاندانی خصائص اور اردگرد کے ماحول کا بھی بڑا حصہ ہوتا ہے۔

پیر 21 اگست 2017

فاروق بلوچ:
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ظاہری وباطنی دنیاؤں کا مطالعہ کیا جائے کیونکہ شخصیت کی تعمیر میں جہاں جبلی اور فطری عناصر کارفرما ہوتے ہیں ، وہیں خاندانی خصائص اور اردگرد کے ماحول کا بھی بڑا حصہ ہوتا ہے۔ شخصیت محض گوشت پوست کی چلتی پھرتی مورتی کا نام نہیں بلکہ اس میں فرد کے شخصی کوائف اور باطنی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔
دونوں کے امتزاج سے شخصیت کا وجود مکمل ہوتا ہے اور اگر شخصیت ایسی ہو جس کا اظہار اس کے تخلیقی فن پاروں میں بھی ہوتو پھر ان فن پاروں کی صحیح تقسیم و تحسین کے لیے داخلی اور خارجی زاویوں سے شخصیت کا مطالعہ اور بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔ معروف دانشور، ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد ایسے ہی ایک عظیم انسان تھے، آپ بھارت کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں ڈاکٹر محمد خان کے گھر 22 اگست 1925ء کو بروز سوموار پیدا ہوئے۔

(جاری ہے)

تعلیمی زندگی کا آغاز فیروز پور سے کیا اور اس کے ایک قصبہ مکستر سے 1943ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایف اے کا امتحان بھی اس قصبہ فیروز پور کے ایک کالج”رام سکھ داس“ سے پاس کیا جبکہ بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ فیروز پور کے ” آر ایس ڈی“ کالج سے پاس کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمد اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ اردو میں داخلہ لیا جہاں کل چھ طلبا و طالبات زیر تعلیم تھے۔ کالج میں انگریزی کے اساتذہ اردو بھی پڑھایا کرتے تھے اس وقت کے معروف اساتذہ پروفیسر سراج الدین، خواجہ منظور حسین، آفتاب احمد اور فارسی کے استاد مقبول بیگ بدخشانی جوکہ گورنمنٹ کالج سے وابستہ تھے، اشفاق احمد کے استاد رہے۔ اسی زمانے میں بانو قدسیہ نے بھی ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔
ذہنی ہم آہنگی دونوں کو اس قدر قریب لے آئی کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا ۔ اشفاق احمد ایک کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، آپ کے والد ایک محنتی اور جابر شخص تھے جس کی مرضی کے خلاف گھر میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ گھر کا ماحول روایتی تھا۔ بندشیں ہی بندشیں تھیں۔ وہ ایک غیر پٹھان لڑکی کو بہوبنانے کے حق میں نہ تھے لیکن ان دونوں کی شادی کا مقصد صرف حصول محبت نہیں تھا بلکہ قدرت کو علم کے متوالوں کو یکجا کرنا مقصود تھا چنانچہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ اشفاق احمد اپنی محبت کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔
اشفاق احمد نے ایم اردو میں داخلہ سے قبل ہی ریڈیو پاکستان میں ”اناونسمنٹ“ شروع کردی تھی جہاں انہیں 80 روپے ملتے تھے اس دوران ایک دو اور بھی چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں لیکن جب ایم اے اردو کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کر لیا تو انہیں عابد علی عابد نے لیکچرار بھرتی کرادیا، یوں وہ دوسال تک ”دیال سنگھ کالج“ میں پڑھاتے رہے اسی دوران اٹلی میں اردو پڑھانے اور براڈ کاسٹر کی اسامی نکلی تو یہ دونوں صلاحیتیں ان میں موجود تھیں اس طرح اشفاق احمد 1953ء میں روم یونیورسٹی اٹلی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے اور ریڈ روم سے پروگرام بھی کرنے لگے۔
پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادبی مجلہ ”داستان گو“ کے نام سے جاری کیا جو اردو کے چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے اس کے علاوہ دو سال تک ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کی ادارت بھی کی ۔ 1972ء میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد ازاں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا اس کے علاوہ جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی رہے۔

تاریخ کے اوراق دہرائے جائیں تو یقینا ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اشفاق احمد کا نام الگ اہمیت کاحامل ہے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کی خدمات بیش قیمت ہیں انہوں نے 1949ء کے لگ بھگ ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیااور دیکھتے دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ ریڈیو کی دنیا میں اشفاق احمد کا لازوال شاہکار ”تلقین شاہ“ ہے جو آج بھی اسی طرح مقبول خاص وعام ہے جس طرح پہلے تھا۔
”تلقین شاہ“ کی کامیابی ایک حقیقی ادیب اورتخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کی کامیابی تھی اس فیچر میں اشفاق احمد کی باریک بین نظر اپنے معاشرت کے کرداروں کے روزمرہ معمولات کا گہرا مشاہدہ اور اس کی ہمدردی بھر اطنز عروج پر ہے۔ اشفاق احمد نے تلقین شاہ میں جو کردار تخلیق کیے وہ ہمارے معاشرے کے سچے کردار ہیں۔ یہ فیچر سنتے ہوئے اور اس کے کرداروں کو بولتے ہوئے دیکھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مختلف کرداروں کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔
ریڈیائی فیچر” ٹاہلی دے تھلے“ میں اشفاق احمد نے پاکستان کے دیہاتی افراد کی خوشیوں اور ان کے مختلف مسائل کی بڑی جامع تصویر کشی کی۔ اشفاق احمد نے ریڈیو کے لیے اصلاحی کے اساتھ ساتھ پروپیگنڈہ سکرپٹ بھی لکھے لیکن کسی مقام پر بھی ادب اور اسلوب تحریر سے انحراف نہیں کیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے کئی دوسرے نامور ادیبوں نے بھی بہت کچھ لکھا مگر اشفاق احمد کے مقام تک کوئی نہ پہنچ سکا۔
قدرت نے اشفاق احمد کو ادب تخلیق کرنے کے لیے بنایا تھا اور جب کوئی صلاحیت اللہ کی طرف سے ملی ہوتو اس کا سرچشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا اور لکھنے والا بڑی بے ساختگی اور روانی سے لکھتا ہے۔ اشفاق احمد زندگی کی تمام تر توانائیوں سے بھرپور ایک زندہ دل، خوبصورت اور صحت مند سوچ رکھنے والے ادیب تھے۔ اشفاق احمد کے پنجابی فیچر”اچے برج لاہور دے“نے بھی ریڈیو پر کامیابی کا لوہا منوایا۔
یہ فیچر لاہور شہر اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں کی سوشل زندگی کے روزمرہ مسائل کے بارے میں تھا ۔ ریڈیو کے ڈراموں اور فیچروں میں اسی زمانے میں مزاح کا رنگ جگت بازی کی حد تک پہنچ گیا مگر اشفاق احمد کا ہر سکرپٹ اس قسم کے مزاح سے پاک ہوتا تھا کیونکہ اس کے پاس مزاج کے برخلاف طنز کے نشتر تھے جو دل پر اثر کرتے۔ جب ریڈیو پاکستان پر پروگراموں کی ریکارڈنگ ہونے لگی تو اس کے کچھ عرصے بعد اشفاق احمد نے اپنی کوٹھی میں ہی ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنالیا، وہ ”تلقین شاہ“ کی ریکارڈنگ اپنے گھر سٹوڈیو میں ہی کرتے اور پروگرام کا پورا پیکج بنا کر ریڈیو پاکستان لاہور کو دے دیتے تھے، تاہم ان کے اردو اور پنجابی کے مکمل دورانیے کے ڈرامے لاہورریڈیو سٹیشن کے سٹوڈیو میں ہی ریکارڈ کیے جاتے تھے۔
1964ء کے آخر میں جب لاہور ٹیلی ویژن نے کام شروع کیا تو ریڈیو لاہور اپنی نئی عمارت میں منتقل ہوچکا تھا انہی دنوں اشفاق احمد کا فیچر ”تلقین شاہ“ اپنے عروج پر تھا کہ1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا چنانچہ اشفاق احمد کے ریڈیو فیچروں اور ڈراموں خاص طور پر ”تلقین شاہ“ میں حب الوطنی کا جذبہ کھل کر سامنے آیا اس فیچر کے ذریعے اشفاق احمد نے محاذ جنگ پر لڑتے اپنے بہادرجوانوں کے سینوں میں جذنہ ایمانی کا ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔
1965ء کی جنگ کے بعد اشفاق احمد ریڈیو سے دور اور ٹیلی ویژن کے زیادہ قریب تر ہوگئے اور پھرایک وقت آیا کہ جب وہ پورے کے پورے ٹیلی ویژن کے ہوکر رہ گئے ۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہوئے اشفاق احمد کو محسوس ہوا کہ ان کے بیان کے لیے جو وسعت درکار تھی وہ انہیں مل گئی۔ ٹیلی ویژن کے لیے انہوں نے جو فیچر اور ڈرامے لکھے ان کی تعدادپونے چار سو کے لگ بھگ بنتی ہے اس کے علاوہ اشفاق احمد نے کم اور طویل دورانیے کے ڈرامے بھی لکھے جو بہت پسند کیے گئے۔
اپنے آخری دور میں اشفاق احمد کے ڈراموں پر تصوف اور فلسفے کا رنگ بہت گہرا ہو گیا تھا یوں اس کے کردار طویل مکالمے بولنے لگتے تھے اس پر اشفاق احمد نے جواب دیا کہ کبھی آپ نے شکسپیئر کے ڈرامے پڑھے ہیں اگر اس کے ڈراموں کے کردار ایک ایک منٹ کے مکالمے بول سکتے ہیں تو میرے ڈراموں کے کردار بھی بول سکتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی سرکاری ادارے ہیں اور ان کی ایک خاص پالیسی ہوتی ہے لہٰذا ہرادیب کو یہاں کچھ اصول وقواعد کے اندر رہ کر لکھنا پڑتا ہے لیکن اشفاق احمد نے یہ کمال دکھایا کہ ایسے ایسے نادر اور یگانہ روزگار ڈرامے لکھے کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ادبی رسالوں کے لیے افسانے اور ڈرامے لکھ رہے ہوں۔
” ایک محبت سو افسانے “ اشفاق احمد کا پہلا افسانوی مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹی وی ڈراموں کی ایک سیریز تھی اور اس سیریز کے ڈراموں نے بڑی شہرت حاصل کی ۔ لوگ ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہونے سے پانچ دس منٹ قبل ہی ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور جتنی دیر ڈرامہ نشر ہوتا کوئی کسی سے بات تک نہیں کرتا تھا اس کے علاوہ ان کی سیریز ”توتا کہانی“،”حیرت کدہ“ اور ”کاروان سرائے“ کے ڈراموں میں بھی فنی اور تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔
”داستان گو“ وہ رسالہ تھا جسے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے مل کر نکالا مگر اس رسالے پر اشفاق احمد کی چھاپ نظر آتی ہے اس میں فیچر نما مضمون ”حیرت کدہ“ کے عنوان سے ہر ماہ چھپتا اس رسالے میں ادب کے علاوہ سائنسی معلومات ، شکاریات، آسیبیات ، نفسیات، اور طنز و مزاح کا مواد چھپتا رتھا مگر کوئی بھی چیز غیر معیاری نہیں ہوتی تھی۔
”داستان گو“ کا ایک کارنامہ اس کا ناولٹ نمبر ہے جس میں منٹو، شوکت تھانوی، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، اے حمید، اشفاق احمد، قراة العین حیدر اور عزیز احمد کے ناولٹ شامل تھے۔ اشفاق احمد کا ڈرامہ سیریل ” من چلے کا سودا“ تصوف کے موضوع پر ایک انوکھی کاوش تھی اس ڈرامے نے لوگوں کو بہت متاثر کیا ۔ فنی اعتبار سے ان کا یہ ڈرامہ ہر زاویے سے حد کمال کو پہنچا ہوا ہے۔
افسانہ اور ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کا پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں سیاحت کا سفر نامہ ہے۔ ”سفردر سفر“ میں اشفاق احمد کی حسن ظرافت طنز کے نشتروں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ اشفاق احمد نے ایک اور سفر نامہ اپنے اٹلی کے قیام پر بھی لکھا جس کا عنوان ”سو ادرومتہ الکبریٰ“ ہے اس سفر نامے میں بھی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک تخلیق کا ر اور مکمل ادیب کے سفر نامے میں موجود ہوتی ہیں۔
اشفاق احمد کی تحریروں میں محبت کا رنگ غالب ہے جبکہ ان کے آخری دور کی تحریریں اور خصوصاََ ڈراموں میں ان کا رجحان تصوف کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے اچانک ظاہر یا پھر غائب ہوجانے والے ”بابے“فکشن کی ضرورت کے تحت آتے ہیں، تاہم اشفاق احمد کا اصرار رہا کہ ان کا وجود ہے اور جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں، حقیقی زندگی میں روحانی سطح پر ایسا ہی ہورہا ہے، ”من چلے کا سودا“ایسے ہی ڈراموں میں سے ایک ہے۔
اخبارات اور رسائل کے لیے جب اشفاق احمد انٹرویو دیتے یا پھر تقاریب میں گفتگو کرتے تو اس میں حیرت کا عنصر ضرور شامل ہوجاتا اور یوں اس کی ذات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اشفاق احمد نے اپنی زندگی میں ہر حوالے سے اپنے آپ کو مصروف رکھا اور مسلسل کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ آپ نے شاعری بھی کی ”کھٹیا وٹیا“ ان کی آزاد پنجابی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اشفاق احمد کو اعزازات سے بھی خوب نوازا گیا۔ وہ پتے کے کینسر میں مبتلا تھے، یہی مرض جان لیوا ثابت ہوا اور وہ 79 برس کی عمر میں 8 ستمبر 2004 ء کو بروز سوموار اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

Browse More Urdu Literature Articles