Fasana Dil - Article No. 1776
فسانہ دل - تحریر نمبر 1776
جمعہ 28 ستمبر 2018
میاں حمزہ رؤف
دل کے معاملات پر نظر رکھنے والے ان تمام اسرارورموز سے شنا سا ہوتے ہیں جوان کی داخلی دنیا کی تر جمانی کرتے ہیں اور ان کو اس امر پر ترغیب ڈالتے ہیں کہ وہ اپنی داخلی کیفیات کو صفحہ قرطاس پر منظوم کرنے کے لئے خام فرسائی میں منہک ہو جائیں - انسان کی داخلی دنیا کا بنیادی عنصر یا مرکز ایک ہی قرار پایا ہے اور وہ بندمٹھی کے مانند ایک گوشت کالوتھڑا ہے جسے حضرت انسان نے دل کا نام دیا ہے-
شاعری اور بالخصوص ادبی اصطلاح میں دل کہ شیشہ سے تشبیہ دی جاتی رہی ہے- اور یہ بڑی معنی خیز تشبیہ ہے کیونکہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں اور نہ اس کو محض ازرائے تفنن کے طور پر یا د کیا جاتاہے کیونکہ شیشہ نازک مزاجی اور شفافیت کی علامت سمجھاجاتا ہے یہ دونوں دل کی اہم خصوصیت ہیں جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا ہے لیکن ساتھ ہی اسکا ایک نقصان دہ پہلو بھی موجود ہے کیونکہ مسئلے کے کچھ مثبت اور منفی پہلو ضرور ہوتے ہیں -
لہذا منفی نتائج میں تشبیہ کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ تشبیہ سے کسی دوسرے انسان کے جذبات کو مجروح بھی کر سکتا ہے اور اس کی شخصیت کو بھی مجروح کیا جا سکتا ہے یعنی دل کو شیشے سے تشبیہ دینا جہاں نازک پسندی کوظاہر کرتا ہے وہاں یہ ایک ایسے خطرناک آلہ قتل کی مانندثابت ہوتا ہے جو انسانی زندگی کو بالخصوص انسانی جذبا ت و احساسات کو اپنے پیروں تلے یوں کچل ڈالتا ہے جس طرح ایک سنگ دل اور دیو ہیکل انسان ایک کمزور انسان کو اپنے اہداف کا نشانہ بنا تا ہے - با ت کرنے کا مقصود صرف یہی ہے کہ حضرت دل نے انسانی جسم اور بالخصو ص ا نسانی طبقوں کو جس طرح تُکنی کا ناچ نچایا ہے اسکی مثال ہمیں تاریخ انسانی میں کہیں نظر نہیں آتی اور یہی دل ہی ہے کہ جس نے منصور کو سولی پر چڑھایاہے اور نعرہ حق بلندکروایا-
مالک حقیقی کی پہچان کرواتا ہے اور یہی دل ہے کہ جو کسی ظالم کی شکل میں آیا ہے اور اسی ظلمت کے سبب ظلم وستم کے ایسے واقعات سامنے آئے کہ آج تک نسل انسانی پر شرمسار ہیں - چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے سفا ک دل انسان سامنے آئے جنہوں نے انسانی خون سے رنگین کروائے - جہنوں نے انسانی سروں کے مینار بنوا کر اپنے حیوانی جذبات کی تسکین کی - اسی دل کے روگ نے کہیں سسی کو مہینوال کی استقراء میں لگایا ہے اور کہیں سید زادوں کو پازیب پہنوا کر عشق میں نچایا ہے- یہ ہیں وہ چند مثالیں جو اس دل کے عجیب کارناموں کا ذریعہ اظہار ہیں اور اسی کارناموں اور عجائبات کی بدولت یہ کائنات ورنگ وبودن بہ دن تغرات و حوادث کی آماجگاہ بن چکی ہے -بہر حال یہی حقیقت اور صداقت کا اصل ترجمان ہے-
Browse More Urdu Literature Articles
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
Jab Masjid E Nabvi Ke Minar Nazar Aaye
وہ جو طُور ہے بہت دور ہے
Wo Ju Tor Hai Buhat Dour Hai
محبت کی چھاؤں
Muhabbat Ki Chaon
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
دلکش وادی کا دلنشیں شاعر ۔۔احمد ستی
Dilkash Waadi Ka Dilnasheen Shair - Ahmad Satti
فن وثقافت کا فروغ اور ملتان آرٹس کونسل
Faan O Saqafat Ka Faroogh Aur Multan Arts Consil
''بیاد شمس الرحمٰن فاروقی''
Ba Yaad Shams Ur Rehman Farooqi
مدینے کاشاعر”مقبول احمدشاکر“
Madine Ka Shair - Maqbool Ahmad Shakir
بلند پایہ تخلیق کا ر، ایک سنجیدہ فکر شاعر۔ راول حسین
Buland Paya Takhleeq Kar Aik Sanjeeda Fiker Shair - Rawal Hussain