Maidan Amal Mein - Article No. 1762

Maidan Amal Mein

میدان عمل میں - تحریر نمبر 1762

امرتسر میں ملازمت کے زمانے کو فیض نے اپنی زندگی کا خوشگوار ترین زمانہ بتایا ہے ۔اس انتہائی ارزانی کے دَور میں فیض کی تنخواہ ایک سو بیس روپے ماہورار تھی ،یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ بالفاظ ِفیض ․․․”اتنی تنخواہ پانے والے رئیس بنے پھر تے تھے

جمعہ 7 ستمبر 2018

پروفیسر ایم اے مجید یزدانی (دبستان فیض)
ایم اے او کا لج مرتسر 1935ء تا 1938ترقی پسند تحریک سے وابستگی 1936ء مسلکِ اشتراکیت اور منفرد اندازِ شاعری
امرتسر میں ملازمت کے زمانے کو فیض نے اپنی زندگی کا خوشگوار ترین زمانہ بتایا ہے ۔اس انتہائی ارزانی کے دَور میں فیض کی تنخواہ ایک سو بیس روپے ماہورار تھی ،یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ بالفاظ ِفیض ․․․”اتنی تنخواہ پانے والے رئیس بنے پھر تے تھے “تا ہم ان رئیسوں میں فیض خود شامل نہیں تھے کیونکہ ان کی ذماداریاں نہایت بھاری بھر کم تھیں جن کا ذکر آگے چل کراُن کی رفقیہ حیات کے حوالے سے کیاجائے گا۔

فیض نے مالی خوش حالی کے حوالے سے اس زمانے کو خوشگوار نہیں بتایا بلکہ ان کا اشارہ اس ذہنی آسودگی کی طرف ہے جو امر تسر کے دورانِ قیام اُنہیں میسر آئی جس کے مختلف مراحل تھے ،خود اُنہی کے الفا ظ میں (جو 1976ء میں کہے گئے ):۔

(جاری ہے)

”وہاں ایسے دوست میسّر آئے جن سے دوستی اب تک قائم ہے ،دوسرے یہ کہ اسی زمانے میں کچھ سنجیدگی سے شعر لکھنا شروع کیا ،تیسرے یہ کہ پہلی بار سیاست میں تھوڑی بہت بصیرت اپنے کچھ رفقاء کی بدولت پیدا ہوئی جن میں محمود انطفرتھے ،ڈاکٹر رشید جہاں تھیں ،بعد میں ڈاکٹر تاثیر بحیثیت پر نسپل وہاں آگئے ،یہ ایک نئی دنیا ثابت ہوئی ،مزدوروں میں کام شروع کیا ،سول لبرٹیز کی انجمن بنی تو اس میں کام کیا ،ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس کی تنظیم میں کام کیا ،ان سب سے ذہنی تسکین کا ایک بالکل نیا میدان ہاتھ آیا۔

“بقیہ زندگی میں یہی تسکین اُن کے لیے حاصلِ زیست بن گئی ۔اس سرگرمیوں سے ذہنی مناسبت کا یہ سانچا دفعتہ تیار نہیں ہو گیا تھا ،یہ کوئی اتفاقی یا حادثاتی تبدیلی نہیں تھی ،اس کے پس منظر کا تعلق ان کے لڑکپن سے تھا جس میں گہرے نقوش اخباروں کی ان شہ سرخیوں کے ذہن پر ثبت تھے کہ ’زارِ روش کا تختہ اُلت دیا گیا “اور اخبار فروشوں کی صدائے باز گشت بھی اس ذہن میں ہمیشہ سنائی دیتی رہی کہ” رو س میں مزدوروں کسانوں کی حکومت قائم ہو گئی“ برٹش انڈیا کے کسی ذہین وفطین لڑکے بالے کے لیے بہ الفاظ انتہائی حیرت انگیز تھے کہ کسان مزدور” حکمران “بن گئے ہیں، اس کی حِسِ استعجاب اسے یہ پوچھنے پر اُکساتی ہے کہ وہ کیسے؟ پھر وہ محلے میں پان سگریٹ کی دکان پر خریداروں کو، تنور پر دال روٹی کھانے والے مزدوروں کو، کھیلوں کا سامان بنانے والے کا ریگروں کو، سبزی فروشوں کو، دودھ دہی کی دکانوں پر جمع لوگوں کو ہفتوں مہینوں تلک اسی انقلاب کی باتیں کرتے ہوئے سنتا ہے ،انقلاب کا لفظ ادراکِ معنی ومفہوم کے بغیر اسے یاد ہوجاتاہے کیونکہ وہ اسے اچھا لگنے لگا تھا اتنے سارے لوگوں کو اس کا مداح پاکر ․․․گویا صرف ذہن ہی نے نہیں بلکہ دل نے بھی ان نقوش کو اپنے اوپر ثبت پایا اور ایک مستقل ”کرید“ سی اس کے قلب وذہن میں وجود پذیر ہو گئی تھی اسی کم عمری میں !فیض کا یہ کہنا کہ پھر وہ سب کچھ بھول بھلا کر سکول میں چلے گئے صرف لڑکپن کے لااُبالی پن کی طرف اشارہ کناں ہے ورنہ وہ اسے بھلا تو ہرگز نہ پائے تھے خصوص درانحالیکہ لڑکپن کالا ابالی پن ان میں دیکھا ہی کب گیا تھا؟ وہ تو لڑکپن چھوڑ بچپن ہی بھی سنجیدہ ومتین ہی ہوا کرتے تھے! چنانچہ یہ نقش ان کے قلب وذہن سے مکتب یامدر سے یا کالج میں محوکبھی نہ ہوپایا بلکہ لاشعور میں پرورش پاتا رہا ایک تیز سی حِسّ نمو کے ساتھ! کسی مناسب وقت کے انتظار میں! تب برسوں کے خاموش انتظار کے بعد اس پودے کی آبیاری ان نصابی کتب نے کی جو ایم اے انگلش کے سلسلے میں ان کی نظر سے گزریں جن میں رُوسی ادب کا مطالعہ بھی شامل تھا ․․․وہی اخباروں کی شہ سرخیاں نظروں کے سامنے گھومنے لگیں ․․․”روس میں انقلاب آگیا“ وہی اخبار فروشوں کی صدائیں کانوں میں گونجنے لگیں․․․” روس میں امیر غریب کا فرق ختم ہوگیا “اور اس ادب کا گہرا مطالعہ اس سراپا جستجو طالب علم نے ،فیض احمد فیض نے کیااور اب کے ادرکِ معنی ومفہوم بھی اسے حاصل تھا․․․اب وہ تصوّر لاشعور کے نہاں خانہ سے نکل کر شعور کے آئینہ خانہ میں منعکس ہو گیا تھا۔
نہ اب استعجاب کی نوعیت بھی بدل گئی، اب حیرت یہ نہیں پوچھتی تھی کہ یہ کیونکر ہوا؟ بلکہ حمیت یہ کہتی تھی کہ وہاں ہوا تو یہاں کیوں نہیں ہوا ؟اسی استفسار نے دوامی حیثیت اختیار کرلی! ایم اے او کالج کے جن افقاء کے نام فیض نے بتائے ہیں وہ سب کے سب اشتراکیت سے بے حدمتاثر تھے ۔انہی میں سے ڈاکٹر محمود انطفر نے ایک دن بالفاظِ فیض ایک” پتلی سی کتاب“ انہیں دیتے ہوئے کہا ۔
”لو یہ پڑھو اور اگلے ہفتے اس پر ہم سے بحث کرو لیکن غیر قانونی کتاب ہے ذرااحتیاط سے رکھنا ۔“فیض لکھتے ہیں کہ: ۔”یہ کتاب تھی کمیونسٹ مینی فیسٹو جو میں نے ایک ہی نشوست میں پڑھ ڈالی بلکہ دوتین بار پھر پڑھی ․․․انسان اور فطرت، فرداور معاشرہ ،معاشرہ اور طبقات ،طبقات اور ذرائع پیدا وار ،ذرائع پیدوار رشتے اور معاشرے کا ارتقا ء ،یہ درتہ انسانی رشتے قدیں ،عقیدے فکر وعمل وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے پورے خزانہ اسرار کی کنجی ہاتھ میں تھمادی ہے ۔
یوں سوشلز م اور مارکسزم سے اپنی دلچسپی کی ابتداہوئی ،پھر لینن کی کتابیں پڑھیں ․․․․اور پھر انقلابِ روس کے بارے میں دوسرے بہت سی کتابیں جن کا داخلہ اس وقت ملک میں ممنوع تھا اور وہ چوہدری چھپے شائقین تک پہنچتی تھی ․․․․․انح “اب تو وہ سوویت روش کے بارے میں کتابوں کے متلاشی رہنے لگے اور جب مختلف ذرائع سے ہاتھ لگتیں انہیں ٹوٹ پڑھتے تھے ،بالفاظِ فیض ․․․․․”اسی زمانے میں ہندو ستانی ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم ہوئی تو سوویت انقلابی ادیبوں کی کتابیں نوجوان لکھنے والوں کا وظیفہ بن گئیں ․․․“اسی زمانے میں فیض کی ملاقات منٹوسے ہوئی جوکالج میں” رسمی طور سے“ فیض کے شاگرد تھے اور روسی کتابوں کے تراجم تصحیح کی غرض سے فیض کو دکھایا کرتے تھے (اس سے مراد غالبا یہ ہے کہ روسی سے انگریزی میں ترجم شدہ کتابوں کے اردو تراجم ․․․․․کہ فیض انگریزی کے استاد تھے)۔
اس طرح اس قسم کی بہت سی کتابیں فیض کی نظر سے گزریں ․․․․اور پھر ان کے اپنے الفاظ میں․․․” یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ہم نے اس دوسری تصویر میں رنگ بھر نے شروع کیے ․․․․ایک آزادہ معاشرہ ،غیر طبقاتی معاشرہ کی تصویر جہاں کوئی سرمایہ دار ،جاگیردار ،زمیندار نہیں کوئی آقایا غلام نہیں ․․․کوئی آقا یا غلام نہیں،نہ ہی کوئی تلاشِ معاش میں سرگرداں بافکر فردا میں گرفتار ،جہاں کسان اور مزدورراج کرتے ہیں․․․ انح“ اور یوں فیض احمد فیض بقولِ مرزا ظفر” غمِ جاناں اور غمِ روزگار سے گزر کر غمِ وطن غمِ جہاں کی سنگلاخ راہوں پر چل نکلے ،اپنی ذات کا دُکھ عالمگیر ڈکھ کے سامنے ہیچ نظر آیا․․․․ انح“ (یہ ذکر آگے چل کر ”انجمن ترقی پسند مصنفین کے ضمن میں بھی آئے گا )سفرِ زندگی کے لیے یہ راہ جو اُنہوں نے ایم اے او کالج امر تسر میں اختیار کی اسی پر عمر بھر گامزن رہے ۔
ان کے سیاسی مسلک اور معاشی مکتبِ فکر سے اختلاف کیاجاسکتا ہے ۔خود راقمِ نا چیز کو اس نظام زیست سے کوئی خاص دلچسپی نہیں جو رو س میں رائج ہے( اگر” اجاراہ داران اسلام “میری بات کا یقین کریں )لیکن فی الوقت بات کسی کے خلوصِ عمل اور استقلال کی ہورہی ہے ،سوفیض اس اعتبار سے پیکرِ خلوص ووفاتھے ۔ ان کا پسندیدہ نظام اصلاح طلب ضرور ہے( اور اصلاح کی زحمت” اجارہ دارانِ اسلام“ نے کبھی اُٹھائی نہیں اس لیے کہ اس عرق ریزی کی بجائے یہ آسان ساراستہ جوموجود ہے کہ کُفر کا فتویٰ جاری کرو اور اصلاح طلب بات کا ذکر بھی ممنوع قرار دو) لیکن بنی نوع کی بہی خواہی اور عالمگیر ہمدردی واخوت تو ایک پاکیزہ جذبہ ہے ،کُفر میں شامل نہیں ہے اورفیض نے عملََا مزدوروں کسانوں کے ساتھ کام کرکے اس کا حقیقی مظاہرہ بھی کیا ۔
”ساتھ کام کرنے “سے مراد یہ ہے کہ انہیں لکھنا پڑھنا سکھایا ،اُن کے حقوق کا احساس دلایا اور جدوجہد کی تلقین کی ۔اس کا آغاز اُنہوں نے امر تسر میں دورانِ ملازمت ہی کر دیا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles