Meer Babar Ali Anees - Article No. 1772

Meer Babar Ali Anees

میر ببر علی انیس - تحریر نمبر 1772

ایک قادر الکلام شاعر مرثیہ نگاری میں انہیں کما ل حاصل تھا

پیر 24 ستمبر 2018

ندیم اسلم
میرا نیس ایک فطری اور قادر الکلام شاعر تھے شاعری انہیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ملی۔کیونکہ میرانیس کاخاندان صدیوں سے شعر و سخن سے وابستہ چلا آرہا تھا اصل نام”میر ببر علی“تھا ان کا پہلا تخلص حزیں تھا کچھ عرصہ اسی نام سے شعر وسخن کی محفلیں سر انجام دیتے رہے مگر بعد میں مشہور شاعر شیخ امام بخش نارسخ کے کہنے پر ”اپنا تخلص انیس رکھا“عام روایت کے مطابق” میرانیس 1802ء میں فیض آباد شہر کے محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے۔

گلد ستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں اک پھول کا مضمون ہو تو سورنگ سے باندھوں والد محترم کا نام میر مستحسن خلیق ہے جو خود اپنے عہد کے بہت بڑے معتبر اور باوقار مرثیہ نگار تھے ان کے دادا میر حسن نے مرثیہ نگاری میں بہت زیادہ شہرت پائی۔

(جاری ہے)

یوں میرانیس کا خاندان شعر وسخن سے پشتوں سے وابستہ ہے میر ببر علی انیس نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم میر مستحسن خلیق سے حاصل کی پھر میر نجف علی ،مولوی حیدر علی اور مفتی میر عباس سے بھی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔

میر ا نیس کے تینوں چچا بھی شاعر تھے اس طرح میر کی شعر وسخن میں انہوں نے بہت اصلاح کی۔لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو میر ببر علی انیس نے ابتدا میں غزل گوئی کاہی آغاز کیا تھا اور غزل میں بھی ان کا رنگ پختہ اور قابل قدر تھا شروع شروع میں انہوں نے بہت اچھی غزلیں لکھیں مگر بعد میں اپنے والد محترم میر مستحسن خلیق کے کہنے پر غزل گوئی چھوڑ کر ساری عمر مرثیہ ہی کہا یہ میرا نیس کا ہی بڑا کار نامہ ہے کہ انہوں نے مرثیہ کو بلندیوں تک پہنچا دیا ہے ۔

میرا نیس ایک خوش مزاج اور نازک طبع انسان تھے ۔نازک مزاجی ان کی طبیعت میں اس قدر رچی ہوئی تھی کہ ذرا بھی بد تہذیبی اور بد اخلاقی برداشت نہیں کرتے تھے ۔میرا نیس انتہا درجہ کے مہذب اور وضعدار تھے۔اردو شاعری کو بین الا قوامی معیار تک لے جانے میں ان کا خدمات پیش پیش ہیں ۔میرانیس کے خاندان میں ورزش کا شوق بھی تھا مگر انہوں نے ورزش کے ساتھ گھڑ سواری اور سپہ گری میں بھی مہارت حاصل کی ۔

میرا نیس نے چھوٹی سی عمر میں ہی غزلیں کہنی شروع کردیں تھی میرا نیس کے والد انہیں لکھنو لے آئے اس زمانے میں لکھنو علی وادبی سر گرمیوں کا مر کز گنا جاتا تھا تمام شعر ا لکھنو میں رہائش پذیر تھے۔میرانیس کی مرثیہ نگاری نے لکھنو میں بڑی شہرت حاصل کی وہاں ان کے والد انہیں شیخ امام بخش ناسخ کے پاس لے آئے جنہوں نے ان کا کلام سنا تو بہت خوش ہوئے ناسخ نے میر کے بارے میں کہا کہ آنے والے وقت میں میر ا نیس بہت بڑا شاعر بنے گا اس زمانے میں مرزا سلامت علی دبیر کی مرثیہ نگاری کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی جب میرا نیس نے اپنی مرثیہ نگاری کے جوہر مختلف مجالس میں دکھائے تو لکھنو دو حصوں میں بٹ گیا ۔
انہوں نے اپنی شاعر ی میں لطیف و نازک خیالات اور کیفیات کو جس خوبی سے بیان کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔میرانیس نے واقعات کربلا کی نوعیت اور کیفیت کی منظر کشی کی ہے انہوں نے اپنے مرثیہ میں تمام واقعات کو بڑی خوبی سے بیان کر دیا ہے ۔مولانا آزاد نے میرانیس کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہے ۔”صبح کا عالم دیکھو تو سبحان اللہ! رات کی سیاہی کا پھٹنا نور کا ظہور ،آفتاب کا طلوع،مرغزاروں کی بہار،شام غریباں کی سی ادا سی،کبھی رات کا سناٹا،کبھی تاروں کی چھاؤں ،غرض جس حالت کو لیا ہے اس کا سماں بندھ گیا ہے ۔
“میرانیس کی مرثیہ نگاری پر معروف نقاد ڈاکٹر اعجاز حسین نے یہ رائے دی ہے انیس کی زبان پر وہ قدرت حاصل ہے جو خالق کو مخلوق پر ،جن الفاظ سے جس موقع پر جو کام لینا چاہتے ہیں وہ خادمانہ اطاعت سے حکم بجا لاتے ہیں ․․․سلاست ،فصاحت اور روانی میرا نیس کے یہاں قدم قدم پر نمایاں ہے ․․․․یہاں تک کہ کوئی دوسرا شاعر اس معاملے میں مشکل سے ان کا شریک نظر آتا ہے ۔

“میرانیس نے جو مقام ومرتبہ نگاری میں پایا وہ شاید ہی کسی اور کے حصہ میں آیاہو ”میر ببر انیس کا انتقال1874ء میں لکھنو میں ہو ااور لکھنو میں ہی مد فون ہیں ان کا کلام قارئین کی نظر ہے۔وہ لو وہ آفتاب کے حدت وہ تاب وتب کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب خود نہر علقمہ کے بھی سوکھے ہوئے تھے لب خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب اڑتی تھی خاک ،خشک تھا چشمہ حیات کا کھولا ہو ا تھا دھوپ سے پانی فرات کا کہہ کے یہ گود میں شبیر کی لی انگڑائی آیا ماتھے پہ عرق چہرے پر زردی چھائی شاہ نے فرمایا ہمیں چھوڑ چلے اے بھائی چل بسے حز جری پھر نہ کچھ آواز آئی طائر روح نے پرواز کی طوبیٰ کی طرف پتلیاں رہ گئیں پھر کرشہ والا کر طرف وہ گرمیوں کے دن وہ پہاڑوں کی راہ سخت پانی نہ منزلوں نہ کہیں سایہ درخت ڈوبے ہوئے پسینوں میں ہیں غازیوں کی رخت سنو لاگئے ہیں رنگ جوانان نیک بخت راکب عبائیں چاند سے چہرے پہ ڈالے ہیں تو نسے ہوئے سمندر زبانیں نکالے ہیں ۔

Browse More Urdu Literature Articles