Mojooda Muashra Minto Ki Tahreeron Ki Roshni Mein - Article No. 1775

Mojooda Muashra Minto Ki Tahreeron Ki Roshni Mein

موجودہ معاشرہ منٹو کی تحریروں کی روشنی میں - تحریر نمبر 1775

سعادت حسن منٹو ایک ایسا ادیب اور افسانہ نگار ہے جو پوری دنیا میں اردو ادب کی پہچان بنا۔اس کی تخلیقات نے نہ صرف اپنے عہد کا ساتھ دیا بلکہ وہ آنے والے وقتوں کے لئے بھی با معنی ثابت ہوئیں

جمعرات 27 ستمبر 2018

ڈاکٹر بدر منیر
موجودہ معاشرہ کو منٹو کی تحریروں کی روشنی میں دیکھنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ماحول پر نظر ڈال لی جائے جو منٹو کی تخلیقی زندگی پر اثر انداز ہوا۔سعادت حسن منٹو ایک ایسا ادیب اور افسانہ نگار ہے جو پوری دنیا میں اردو ادب کی پہچان بنا۔اس کی تخلیقات نے نہ صرف اپنے عہد کا ساتھ دیا بلکہ وہ آنے والے وقتوں کے لئے بھی با معنی ثابت ہوئیں ۔

وہ ہماری معاشری اور عمرانی صورتحال کا بے باک نقاد اور نکتہ چیں ہے ۔اس کی باریک بین نگاہ سے کوئی عیب اور عارضہ چھپ نہیں سکتا۔وہ ایک ایسا حقیقت نگار ہے جس کا قلم بغیر کسی رورعایت کے معاشرتی تضادات کو پیش کرتا ہے ۔معاشرے کا کوئی مثبت یا منفی پہلواس کے مشاہدے کی گرفت میں آئے بغیر نہیں رہتا۔

(جاری ہے)

اس نے اردو افسانے میں حقیقت نگاری کی داغ بیل ڈالی اور مقدمات کی صورت میں شدید تنفید کا سامنا کیا۔

اس کا نام آتے ہی لوگ کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کردیتے ہیں اسے گالیاں دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی کہانیاں مزے لے لے کر پڑھتے بھی ہیں ۔

بات صرف یہ ہے کہ جب ہم اپنی خباشتوں کو اپنی آنکھوں پر عیاں ہوتے دیکھتے ہیں تو بے ضمیروں کی طرح رد عمل کے طور پر منٹو کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔وہ ہمارے نام نہادمہذب لبا س کو نوچ کراتار پھنکتا ہے تو ہم منٹو پر فحاشی اور عریانی کے الزام عائد کرنا شروع کردیتے ہیں ۔

بقول شاعر
یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نا بینا منٹو نے معاشرے کو اس کا بدہیت چہرہ دکھا یا ۔ہم چاہے اس چہرے کو تکلفات اور رنگ وروغن کی تہوں تلے کتنا ہی چھپائیں ،منٹو کی ایکسر یز نظروں سے بچا نہیں سکتے ۔منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے ۔”زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے واقف ہیں تو میر ے افسانے پڑھیے۔
اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے ۔میری تحریروں میں کوئی نقص نہیں جس کو میرے نام سے منسوب کیاجاتا ہے وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے “۔جس زمانے میں منٹو نے افسانہ نگاری کا آغاز کیا غیر منقسم ہندوستان پر انگریز سا مراج کا قبضہ تھا۔انگریزوں نے صدیوں سے امن اور محبت کے ساتھ جینے والے ہندوستانیوں کے ذہنوں کو انتشار کا شکار کر دیا تھا ۔
یہ انگریز سا مراج ہی تھا جس نے نام نہاد جدید یت کو متعارف کرانے کے نام پر غیر منقسم ہندوستان کا عظیم تہذیبی ،معاشی ،روحانی اور سماجی ڈھانچہ مسمار کر دیا تھا ۔منٹو کے عہد کا انسان پیچدہ ماحول میں زندہ رہنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا ۔منٹو نے اپنے افسانوں میں اپنے عہد کے انسان کی نفسیاتی وارداتوں کی تصویر کشی کی ہے ۔سامراج اور اس کے حاثیہ بردار جمود پرست تاجروں ،جاگیرداروں اور حقیقی علماء کی جگہ مذہبی مقتدرہ پر قابض ہوجانے والے مذہبی پیشواؤں نے منٹو کی حقیقت بیانی کو اپنے جھوٹ کی کالک سے دھانپنے کی کوشش کی ۔
منٹو پر عوام دشمن حکمرانوں نے مقدمے بنائے اور اسے علمی ،سماجی اور ادبی حلقوں میں متنازعہ بنا دیا ۔تا ہم تاریخ گواہ ہے کہ اس کے خلاف محاذ بانے والوں کو وقت نے جھٹلا دیا اور سعادت حسن منٹو کا نام اردو ادب کے سب سے بڑے افسانہ نگار کے طور پر زندہ ہے کیونکہ وہ انسان شاس اور اچلے ذہن کا مالک تھا ۔ایک کھرا،سچا ،نڈر اور انقلاب پسند ادیب تھا جس نے بڑی جرات مندی اور حقیقت پسندی سے زندگی کو اس شکل میں پیش کیا جیسی وہ ہے ۔
بقول شاعر
یہ آئینوں کے ہیں یا نقص میرے بگڑتے جارہے ہیں عکس میرے اگر چہرے ہی بگڑے ہوئے ہوں تو پھر اس کا الزام آئینے پر دھر نا انصاف کے منانی ہے ۔منٹو کے اکثر افسانے انسان پر انسان کے ظلم کی داستان دہراتے ہیں ،و حشت اور بر بریت کی یہ داستانیں بالعمول عورت اور جنسی موضوعات کے تحت ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ان کو اگر اس معنویت کے ساتھ پڑھا جائے جو افسانے میں اصل لفظوں کے پیچھے موجود ہ ہوتی ہے تو پھر قاری کو شاید وہ مریضانہ جنسی حیثیت کے حامل نظر نہ آئیں ۔
دراصل منٹو مریضانہ ذہنوں کا علاج کرنا چاہتا تھا جو بے جادباؤ ،خوف اور جنسی بھوک کی پیداوار تھے لیکن منٹو کا المیہ یہ بن گیا کہ لوگوں نے خود منٹو کو جنسی مریض قرار دے دیا۔نیتجتاََ اس کے بیسوں اچھے افسانوں کی طرف بھی لوگوں کی توجہ مبذول نہ ہوئی ،جن کا موضوع جنس یا عورت نہیں تھا اور وہ اردو کے شاہکار افسانے ہیں۔

آج کے عید کو منٹو کی تحریروں کی روشنی میں دیکھیں تو یہ حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ آج کے انسان کے مسائل ویسے ہی ہیں جو منٹو کے افسانوں میں دکھائی دیتے ہیں ۔
وہی منافقتیں معاشرے کا حصہ ہیں جن کی نشاند ہی برسوں پہلے منٹونے کی تھی عورت کا استحصال آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اسی طرح نظر آتا ہے جیسا کہ منٹو کے دور میں تھا یہ بات کس حد تک درست ہے آج کے اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں ۔اسلحہ کی نوک پر محنت کش کی بیٹی کو اغوا کرلیا ،بھائیوں نے بد چلنی کے شبہ میں بہن کو قتل کر دیا،نوجوان نے محبت میں ناکامی پر خود کشی کرلی،پولیس نے ایک غریب مزدور کو تشدد کرکے ہلاک کر دیا،غربت سے تنگ آکر ماں نے دو بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگالی ،جائیداد کے تنازعہ پر چچا نے بھتیجے کو قتل کر دیا،زمیندار کے بیٹے نے مزارع کی بیٹی کو بے آبرو کردیا،میڈیکل سٹوروں پر ممنوعہ ادویات کی فروخت جاری ،چھ بچوں کی ماں آشتا کے ساتھ فرار ،بااثر افراد نشہ کی حالت میں غل غپاڑہ کرتے ہوئے گرفتار ،گندگی کے ڈھیر پر ایک زندہ بچہ ،کنور ی ماں کی تلاش جاری،درجہ بالا سرخیوں کو پڑھ کر کون ساصاحب علم اور صاحب دل ہے جسے منٹو کے افسانے یا د نہ آئیں تمام تر ترقی کے باوجود انسان شاید وہیں کھڑا ہے جہاں اسے منٹو نے دیکھا تھا ۔

منٹو کے افسانے آج بھی اپنی پوری معنویت کے ساتھ دعوت فکر دے رہے ہیں ۔منٹو نے اپنے افسانوں کے ذریعے ایک اہم سماجی خدمت انجام دی ہے اس نے بند کمروں کی گھٹن دورکرنے کے لئے کھڑ کی کھولنے کی ضرورت نہ صرف محسوس کی بلکہ اپنے قلم کے ذریعے تاز ہ ہوا کے جھونکوں کو فضاکے اندر شامل کیا ۔منٹو کی تحریروں میں دنیا ایک لیبارٹری کی صورت اختیار کرگئی ہے ۔

جنس کی پیشکش کا یہ انداز اس لحاظ سے اہم اور اردو افسانے میں ایک نیا تجربہ تھا کہ منٹو نے اپنے افسانوں میں جنس کو عام زندگی سے الگ کرکے دیکھنے کی کوشش نہ کی یہ منٹو کی جینئیس کا کمال ہے کہ اس نے جنس کے حوالہ سے زندگی کو سمجھا اور سمجھایا ۔ایک طرف جنس کی روشنی میں انسانی زندگی کی ناہمواریاں اجا گر کیں تو دوسری طرف اسے ذریعہ احتجاج بنایا ۔
لمحہ موجود میں گو ترقی پسند افسانے کے مخصوص موضوعات اور مسائل کا جادو اتر چکا ہے اور نیا فسانہ علامت اور تجرید سے ہم مصر زندگی کے انتشار اور قدروں کی شکست وریخت کے عمل کو واضح کرنے کی کوشش میں اتنا کامیاب نہیں ہوا جتنا منٹو اور معاصر افسانہ نگاروں کے عہد میں ہوا یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کی خرابیوں کو دیکھ کر ذہن باربار منٹو کی طرف جاتا ہے اور اس کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جاری ہے ۔
اس کی تخلیقات ہی ہمارے نفسیاتی اور روحانی عارضوں کا مرہم ثابت ہوسکتی ہیں آج انسان پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گیا ہے انتہا پسندی اورخود کش حملوں کی بہتات نے اس کے دن کا چین اورراتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔
آج ہمیں منٹو کے روپ میں اس اخلاقی جرات کی ضرورت ہے جو منافقت کے زنگ سے پاک ہو منٹو میں تلخ سچائی کو دیکھنے ،اسے پر کھنے اور پھر اس کے برملا اظہار کی جرات تھی وہ سچ بات کہنے کے حق کے لئے تمام عمر لڑتا رہا اور ضمن میں اس نے نہ تو مذہبی لعن طعن کی پرواہ کی نہ ہی مقدمات کی ۔
حتیٰ کہ وہ وقت آگیا کہ اس کے ساتھی ترقی پسندوں نے بھی اسے اپنی برادری سے باہر نکال دیا لیکن وہ اپنے راستے پر گامزن رہا۔
آج کا افسانہ نگار عہد غلامی کے افسانہ نگاروں سے زیادہ خوف زدہ نظر آتا ہے وہ اہل سیاست،اہل مذہب،ناقدین اور تبصرہ نگاروں تک سے سہا ہوا ہے اور اسی لئے گیلی لکڑی بن کر سلکتا ہے چنانچہ موجود ہ افسانہ نگاروں کو مہیز کرنے کے لئے آج بھی منٹو کی ضرورت ہے ۔
افسانے کا فن سکھانے اور فن کی باریکیاں سمجھانے کے لئے نہیں بلکہ جنھبھوڑنے کے لئے پاکستان میں جمہوریت کے باوجود ذہنوں کے دریچے منتقل ہیں ۔لوگ اپنی ذات کے اندر پریشر ککر بنے ہوئے ہیں جس سے انسانوں کا دم گھٹ رہا ہے لہٰذا ضرورت ہے ایسے سر پھرے کی جو کھڑکی کھولنے کی ہمت رکھتا ہو۔
آج کاعہد اپنا منٹو تخلیق کرنے میں ناکام رہا ہے اس لئے ہمیں دوبارہ منٹو سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ منافقتوں اور نفر توں کا قلع قمع ہو سکے اور امن وآشتی جیسی اقدار کو رویوں میں راسخ کیا جا سکے ۔

Browse More Urdu Literature Articles