Ronumai Afkar Taza - Article No. 1091

Ronumai Afkar Taza

رونمائی افکار تازہ - تحریر نمبر 1091

سنیئر کالم نویس وصحافی ڈاکٹر عارف محمود کسانہ کی تنصیف ” افکار تازہ “ کی رونمائی 20اگست کو اوسلو میں ادبی تنظیم دریچہ کے زیر اہتمام منعقدہ ہوئی۔ اس تقریب میں رقم کے کتاب پر بیان کئے گئے تاثرات قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہیں۔

جمعہ 2 ستمبر 2016

احسان شیخ ۔ناروے :
سنیئر کالم نویس وصحافی ڈاکٹر عارف محمود کسانہ کی تنصیف ” افکار تازہ “ کی رونمائی 20اگست کو اوسلو میں ادبی تنظیم دریچہ کے زیر اہتمام منعقدہ ہوئی۔ اس تقریب میں رقم کے کتاب پر بیان کئے گئے تاثرات قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہیں۔
میرے نزدیک داستان کی صورت میں لکھی گئی کتاب اور مضامین کے مجموعے پر مبنی کتاب پررائے زن کرنے میں بہت فرق ہے۔
کسی داستان پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ اس کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کرتے ہیں اور اپنے تاثرات بیان کردیتے ہیں۔
افکار تازہ “ کو ئی داستان نہیں بلکہ یہ 62مختلف موضوعات پر مبنی ایک ایسی کتاب ہے جس کے پر مضمون کو پڑھ کر مجموعی طور پر کتاب کے بارے تاخیر دینا قدرے مشکل ہے۔

(جاری ہے)

مختلف موضوعات پر تحریر کردہ ان مضامین میں کسانہ صاحب نے مذہب سیاست سماج ادب سائنس ، سیاست، ماضی اور دور حاضرگویا انسانی زندگی سے وابستہ کئی پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے، مضامین نہایت فکر انگیز ہیں۔

ان تمام مضامین میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ڈاکٹرصاحب کے اخلاص کے ترجمان ہیں، ان کے یہ مضمون میں قاری حالات حاضرہ کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے ماضی حال کے علاوہ تاریخی ۔ علاقاتی اور دیگر پس منظر کو منتظر رکھا گیا ہے جس سے قاری صورتحال کو ایک وسیع تناظر میں دیکھ سکتا ہے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب ایک محققین ہیں لہٰذا ان کی تحریروں میں تحقیق کا عنصرنمایاں نظرآتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی سمجھ بصیرت اور طرز عمل تبدیل ہوت رہتا ہے اور اس کے رویوں میں پختگی آتی ہے۔ اس اصول کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ ایک لکھاری کے انداز تحریر بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ زندگی کا تجربہ اردگرد ماحول میں تبدیلی کے اثرات اس کی عملی زندگی پر نمایاں ہو کر اس کے لکھنے کے لیے منتخب کئے گئے موضوعات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور اس کی سوچ کا ذریعہ وقت کے دہاروں سے متاثر ہوکر تبدیل ہوتا ہے۔

دراصل معاملہ صرف لکھنے کا نہیں بلکہ معاملہ دل سے کھلنے کا ہے۔ آج کے تخلیق کئے جانے والے ادب میں اکثر اوقات ادب معاشی ، سیاسی یادیگر دلچسپیوں یا مفادات کے تحفظ پاکستان یااسلامی دنیا میں رونما ہونے والے مختلف نوعیت کے واقعات وحادثات سے متعلق موضوعات کے انتخاب کا پس منظر موجودہ صورتحال اور مستقبل سے متعلق ان کے نظریات کی موجودگی ہے۔
ایسا کرتے ہوئے ان کی تحریروں میں تحقیقاتی پہلو ہمیشہ نمایاں طور پر نظرآتا ہے۔
ڈاکٹر کسانہ خود کو ” اقبالی“ کہلواتے ہیں۔ علامہ اقبال کے شیرائی ہونے کا ثبوت افکار تازہ ہیں علامہ صاحب سے متعلقہ ان کے تحریرکردہ 700 مضامین ہیں جو علامہ اقبال کے ساتھ ان کا محبت اور عقیدت کے شاہد ہیں۔
(1) علامہ اقبال اورمیاں بخش (2) کیا اقبال محط ایک شاعر تھے (3) اقبال اورداگ مماثولد (4) شہادت امام حسین اور علامہ اقبال (5) اقبال کا پیغام عمل (6) اقبال اورجناح کا تصورپاکستان (7) اقبال اجتہاد اور عصر حاضر
علامہ اقبال کے بارے میں مختلف آرسے اختلاف کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود کسانہ لکھتے ہیں کہ اقبال شاعر تھے ہی نہیں لہٰذا ان کے مقام ورتبہ کو شاعری کے پیمانے سے ماپنا درست نہیں۔
قرآن نے شاعری کو ایک ذہنیت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی کیے جس کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا۔ قابل مڈمت اسلوب بیان نہیں بلکہ ذہنیت ہے اور اصل اہمیت پیغام کی ہوتی ہے۔
اپنے مضمون کیا اقبال محظ ایک شاعر تھے (صفحہ 81) پرلکھتے ہیں علامہ اقبال کی اصل پہچان ان کے اشعار کے ذریعہ سے ان کے افکار کی نشاندہی کرن ان کے پیغام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرکے دین اور دنیا کاحصول ہے۔

ڈاکٹر کسانہ کی تحریروں میں ایک اچھے سلمان ہونے کاتاثر ملتا ہے۔ اپنے کئی مضامین میں انہوں نے قرآن ، حدیث اور نبی ﷺ کے حوالوں سے صورتحال کا تجزیہ کیا ہے۔
عورت اپنے حائق کی نظر میں۔
تخلیق کائنات بگ بینگ اور قرآن۔
تخلیق کائنات کی عقدہ کشائی، بگ بینگ اور قرآن
معلوماتی اور قرآن کے حوالوں کے روشنی میں تحقیقاتی اور تجزیاتی مضامین میں ان مضامین میں عورت کی موجودہ سماجی حیثیت اور اس کی اللہ کی تخلیقی حیثیت کاقرآنی حوالوں سے جائزہ لیاگیا ہے۔
اس سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موجودہ سماج عورت مرد کے مقابلے میں ثانوں جبکہ ہمارادین ساری حیثیت دیتا ہے۔
عورت کے سماجی پہلوکاذکر کرتے ہوئے کسانہ صاحب لکھتے ہیں (صفحہ نمبر 28)
عورت کی ہمارے معاشرہ میں بہت عزت ہے صرف اس وقت جب وہ ماں بیٹی یا بہن کی ہے لیکن جب یہی عورت بیوی کے رشتہ میں ہوتی ہے تووہاں صورتحال مختلف ہوتی ہے ” (صفحہ نمبر 30) پر لکھتے ہیں ” عورت کا اصل مسئلہ مردوں کا رویہ اور صبروتسط ہے اور تب ہی دور ہوگا جب بچپن سے ہی ہم اپنے بچوں کوعورت کی عزت کرناسکھائیں گے۔
” اپنے مضمون “ معمارحرم کا پیغام انقلاب (صفحہ نمبر 63) میں لکھتے ہیں۔
لیکن مقام افسوس ہے کہ آج قربانی دکھاوااور امارت پرستی کی نشانی بن چکی ہے۔ مقبول علامہ اقبال عید ہجوم ومنین اور حج محض ایک اجتماع بن کر رہ گیا ہے اور ان کی روح سے ذہن غافل ہوچکے ہیں۔ اپنی قوم جس کی تفصیلات ہوں اور ہرسال جس کااتنا بڑا عالمگیر اجتماع ہو جس میں دنیااور سے لوگ کچھ دنوں کے لیے شریک ہوں لیکن اس کے اثرات قوم کی اجتماعی سطح پر نظر نہ آئیں اور کوئی تبدیلی ملائحہ عمل اور کوئی پروگرام سامنے نہ آئے بلکہ انفرادی زندگی میں بھی کوئی بڑی تبدیلی سامنے نہ آئے تو ضرور سوچنا چاہئے کہ علامہ نے یہ کیوں کہاتھا کہ
ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کندہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے پنام
ڈاکٹر عارف محمود کسانہ کی تحریروں سے ہمیں ان کے حب کی موجودگی کا تاثر ملتا ہے۔
وہ نہ صرف اپنے وطن عزیز سے محبت کرتے ہیں بلکہ سیالکوٹ جہاں وہ پیداہوئے اور کشمیر پھیرا چونڈہ سے بھی اتنی ہی محبت کرتے ہیں۔ ان کے مضامین ” سیالکوٹ تو زندہ رہے گا“ چونڈہ توزندہ رہے گا باب کشمیر ان کی اس محبت کی عازی کرتے ہیں۔
میرے نذدیک ” افکار تازہ “ کا ہر مضمون اپنی ایک علیحدہ اور منفرد پہچان کا حامل ہے لیکن یہ ہر مضمون پر علیحدہ رائے ذنی ہیں کیونکہ ایسا کرنے میں وقت ضائع ہوتا ہے۔

افکار تازہ “ بارہ معالجوں سے بنائی گئی وہ خوش ذائقہ اور تیکھی چاٹ ہے جس میں آپ کو عارف محمود کسانہ کی ایسی حوصلہ کی باتیں ملیں گی جب نے آپ انسانی مستقبل کو روشن پائیں گے اور یقین اوقات آپ کو ان کے دل سے نکلی ہوئی وہ کڑری کیسلی باتیں بھی ملیں گی جن میں ایک مخلص انسان کا دورحاضر میں لینے والے مظلوموں ، بے کسوں، لاچاروں اور بسیاکھیوں کے سہارے چلنے والے افراد اور اقوام کادرد بھی محسوس ہوگا۔
ڈاکٹر عارف محمود کسانہ نے افکارتازہ “ کے ذریعے قارئین کو دنیا کو درپیش چینلنجز کی نشاندہی ان سے نبردآزما ہونے کے طریقے اور لائحہ عمل بھی دیا ہے۔ یہ طریقے سائنٹیفک ہی نہیں بلکہ ہمارے دین اللہ کے نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ علامہ اقبال کے افکا اور اللہ کی دی ہوئی عقل بصیرت اور شعور کو متحرک کرکے اپنے اہداف کے حصول کو آسان بنانے کے لئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی کارش کومقبول کرے اور اس کی صدقہ جاریہ کا ذریعہ بنا رہے۔

Browse More Urdu Literature Articles